وزیراعظم عمران خان سیاست میں انقلابی تبدیلی کے دعویدار رہنماہیں اور انہوں نے اپنے چاہنے والوں اور پاکستانی قوم کے سامنے نئے پاکستان کا تصور رکھا ‘جو پرانے پاکستان سے یکسر جدا ہوگا۔ اس حوالے سے ان کو اس وقت بعض اہم چیلنجز کا سامنا ہے‘ جن پر توجہ دینا عمران خان صاحب اور تحریک انصاف کی حکومت کے لیے ازحد ضروری ہے:
وی آئی پی کلچرکا خاتمہ: عمران خان صاحب نے برسراقتدار آنے کے بعد سادگی اختیارکرنے کا دعویٰ کیا اور وی آئی پی کلچر کے خاتمے کی بات کی تھی ‘لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ تاحال وی آئی پی کلچر برقرار ہے اور حکومت کے نمایاں عہدیداران اسی طرح وی آئی پی کلچر کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں‘ جس طرح سابقہ ادوار میں کیا جاتا تھا؛ چنانچہ پروٹوکول کے دوران گاڑیوں کی بڑی تعداد اور عوام کے ساتھ مختلف مقامات پر جارحانہ رویوں کا اظہار ماضی کی طرح حکومتی ارکان کے وی آئی پی کلچر کا آئینہ دار ہے۔ اس حوالے سے تحریک انصاف کی حکومت کو ازسر نو توجہ دینی چاہیے اور وی آئی پی کلچر کے خاتمے کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنی چاہئیں۔
معیشت کی بحالی : خان صاحب کے نئے پاکستان کا ویژن اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا‘ جب تک ملک کی معیشت بحرانوں سے باہر نہیں نکل آتی۔ خان صاحب کے ویژن کے مطابق اقتصادی ترقی اور استحکام کے لیے ملک کو قرضوں سے نجات دلا کر خود انحصاری کے راستے پر چلانا ضروری تھا۔ خان صاحب کے مطابق قرضے اور بیرونی امداد ملک کے معاشی استحکام کا سبب نہیں بن سکتے۔ اس کے لیے ایک منظم اور دوراندیشی پر مبنی حکمت عملی کو اختیار کرنا ہو گا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سودی نظام ملک کی معیشت کو ایک عرصے سے کھوکھلا کر رہا ہے اور اس سے نجات حاصل کرنا از حد ضروری ہے۔ ٹیکس کو بڑھانے کی بجائے‘ اگر صدقات و عشر کے نظام کو ملک میں لاگو کر دیا جائے‘ تو وہ لوگ اس کو ذمہ داری کے ساتھ ساتھ عبادت وثواب سمجھ کر اختیار کرنے کے لیے تیار ہیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ قرضے اور گردشی قرضے روپے کی قدر میں شدید کمی کا باعث بنتے ہیں اور ماضی میں جب بھی قرضہ لیا گیا روپے کی قدر کو نقصان پہنچا ہے۔ حالیہ ایام میں ایک مرتبہ پھر قرضوں کے ذریعے ملک کی معیشت کو بہتر بنانے کی جستجو اور پلاننگ کی گئی ہے‘ جس کے نتیجے میں ایک مرتبہ پھر روپے کی قدر کو زبردست دھچکا پہنچا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ملک کے کاروباری حالات اگر بہتر بھی ہو جائیں‘ تو قرضوں کے نتیجے میں پہنچنے والے دھچکوں کی تلافی نہیں ہو پاتی۔ اس حوالے سے خان صاحب کو کسی مستقل پالیسی کو اختیار کرکے ملک کی معیشت کی اصلاح کے لیے اپنا کرادار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان معیشت اور نظام حکومت کو اگر قرضوں ہی کے ذریعے چلانے کی کوشش کی گئی‘ تو پاکستانی روپے کو ماہرین اقتصادیات کی پیشین گوئیوں کے مطابق مزید دھچکا پہنچے گا۔ پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے صنعت کاری اور زراعت کے فروغ کی ضرورت ہے۔ صنعتی پھیلاؤ کے نتیجے میں ملک میں سرمایہ کاری ‘ تجارت کے پھیلاؤ اور ملازمتوں میں اضافہ ہوگا۔ جس کے نتیجے میں بیرون ملک سے بھی پاکستانی سرمایہ اور افرادی قوت ملک میں واپس آئے گی اور بتدریج ملک کی معاشی صورتحال بہتر ہو گی۔
اسلامی نظریاتی تشخص کی بحالی: خان صاحب نے برسراقتدار آنے کے بعد پاکستان کو مدینہ طیبہ جیسی ریاست بنانے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ مدینہ طیبہ یقینا تمام مسلمانوں کے لیے ایک آئیڈیل اور مثالی ریاست ہے‘ جس میں نظریاتی اعتبار سے کتاب وسنت کی بالا دستی کو یقینی بنایا گیا تھا‘ لیکن بدنصیبی سے اس بات کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے کہ ہمارے ملک میں نظریاتی حوالے سے نئے مباحث کا آغاز ہو چکا ہے۔ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ریاست ہے‘ جس نے توہین رسالتؐ ؐکو روکنے کے لیے 295-C کے قانون بنا رکھا ہے۔ اس قانون میں کسی قسم کا تغیر اور تبدیلی یقینا پاکستان کی نظریاتی اساس کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس سلسلے میں بین الاقوامی این جی اوز اور بیرونی حکومتوں کو پاکستان کے قوانین کا لحاظ کرنا چاہیے اور اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ اگر مغربی ممالک توہین عدالت اور ہتک عزت کے قوانین کو تسلیم کر چکے ہیں اور ان قوانین سے انحراف کرنے والوں کو سنگین سزاؤں کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ تو ایک اسلامی ریاست میں توہین رسالتؐ کے حوالے سے سمجھوتا کرنا اور ماورائے عدالت اقدامات کا مشورہ دینا کسی بھی طور پر درست اور صائب نہیں ۔ اس کے نتائج نہ تو بین الاقوامی سطح پر مثبت نکلیں گے اور نہ ہی ملک میں مذہبی ہم آہنگی کے حوالے سے یہ اقدامات مثبت ثابت ہوں گے۔
ہمہ گیر احتساب: خان صاحب نے برسراقتدار آنے کے بعد ہمہ گیر احتساب کی بات کی تھی‘ لیکن رائے عامہ میں اس بات کو محسوس کرتی ہے کہ احتساب میں جانبردارانہ رویوں کو اختیار کیا جا رہا ہے اور صرف اپوزیشن جماعت کے لوگوں کا احتساب کرنے کی ہی پلاننگ کی جا رہی ہے۔ ملک میں قوانین کا اطلاق ہمہ گیر اور یکساں ہونا چاہیے اور کرپشن کے حوالے سے حکومتی اور غیر حکومتی افراد میں کسی قسم کی تفریق نہیں کرنی چاہیے؛ اگر ہمہ گیر احتساب کیا جائے‘ تو یقینا عوام اس کو خوش آمدید کہے گی۔ نبی کریمﷺ کے عہد مبارکہ میں جب بنو مخزوم قبیلے کی ایک نامور عورت نے چوری کی تو اسامہ بن زیدؓ اس کی سفارش لے کر آئے‘ تو نبی مہرباں حضرت رسول اکرم ﷺ نے اس موقع پر کہا : اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے‘ تو میں اس کے ہاتھ کاٹ ڈالوں گا۔ آپﷺ نے اس موقع سابقہ اقوام کی تباہی کے ایک بڑے سبب کا بھی ذکر کیا کہ ان میں جب کوئی بڑاجرم کا ارتکاب کرتا توا س کو چھوڑ دیا جاتا اور جب کوئی چھوٹا کسی جرم کا ارتکاب کرتا تو اس کو سزا دی جاتی تھی۔
ماہرین تعلیم کے احترام کو یقینی بنانا : ماہرین تعلیم یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر اور اساتذہ معاشروں کا قابل احترام حصہ تصور کیے جاتے ہیں۔ اور ہر علم دوست شخص ماہرین تعلیم کا احترام کرتا ہے ۔یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ معاشرے کے دیگرطبقات کی طرح تعلیمی اداروں میں بھی مالیاتی اور انتظامی سقم پائے جاتے ہیں‘ جن کو دور کرنا یقینا حکومتوں کی اہم ذمہ داری ہے اور اس حوالے سے ان کااحتساب کرنے میں کسی قسم کا حرج نہیں‘ لیکن حالیہ دنوں میںبعض یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر اور سینئر اساتذہ کو مختلف الزامات میںجس انداز سے احتساب عدالتوں میں پیش کیا گیا‘اس پر معاشرے کے تمام سنجیدہ طبقات میں کرب اور اضطراب پایا جا رہا ہے۔ کسی شخص کی بدعنوانی یا اس پر لگنے والے الزامات کی تحقیق میں کسی قسم کی قباحت نہیں‘ لیکن الزام ثابت ہونے سے قبل بحیثیت استاد کسی شخص کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھنا حکومتوں اور عدالتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ بدنصیبی سے اگر کسی معاشرے میں اساتذہ ‘ اہل علم اور ماہرین تعلیم کو ہتھ کڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کیا جائے ‘تو یہ بات پورے معاشرے میں منفی انداز میں دیکھی جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں معاشرے میں علم اور اہل علم کی بھی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدارمیں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے معمار ڈاکٹر عبدالقدیر خاں صاحب کے ساتھ ناروا سلوک کیا گیا ‘ جس کے نتیجے میں معاشرے میں بے چینی کی کیفیت پیدا ہوئی۔ ٹھیک اسی طرح اس وقت بھی عوام میں شدید اضطراب کی کیفیت پائی جارہی ہے۔ گو نیب کے چیئرمین نے اس حوالے سے ردعمل کا اظہار کیا ہے اور ذمہ داران کو سزا دینے کی بات کی ہے ‘لیکن عوام امید کرتی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت خود اس حوالے سے معاشرے میں پائی جانے والی بدگمانی کے ازالے کے لیے اپنا کردار ادا کرے گی۔ حکومت کو ان اہم چیلنجز کے ساتھ بھی دیگر بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ان تمام چیلنجز سے عہدہ برأ ہونے کے لیے ٹھوس حکمت عملی اپنائے ‘تاکہ عوام کی تشویش کا ازالہ ہو سکے۔