14 اکتوبر کو گلاسکو کی جامعہ الفاروق میں ایک بڑی اسلامی دعوت کانفرنس ہوئی ‘جس میں برصغیر کے نامور علماء اور سکالرز نے شرکت کی جن میں ڈاکٹر اصغرعلی امام ‘ مولانا ظفر الحسن مدنی‘ ڈاکٹر حماد لکھوی کے ساتھ ساتھ مجھے بھی شرکت کا موقع ملا۔ اس کانفرنس کے انعقاد سے قبل ظہر کی نماز کے بعد گلاسکو کے اہل فکرو دانش نے ایک مقامی ہوٹل میں علماء کے اعزاز میں ظہرانے کا اہتمام کیا۔ ڈاکٹری عبدالہادی عمری اور مولانا حبیب الرحمن اس مجلس کے میزبان تھے۔ اس موقع پر برطانیہ اور یورپ میں رہنے مسلمانوں کو درپیش چیلنجزکے حوالے سے مقررین نے بڑے خوبصورت انداز میں اپنے اپنے مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں قیمتی آراء کو شرکائے مجلس کے سامنے رکھا۔ ڈاکٹر اصغر علی امام نے اس موقع پر سورہ عصر کے حوالے سے اس بات کو شرکاء محفل کے سامنے رکھا کہ یقینا تمام انسان گھاٹے میں ہیں سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے ایمان اور عمل ِصالح کے راستے کو اختیار کیا اور لوگوں کو حق بات کی تلقین کرتے رہے اور صبر کی دعوت دیتے رہے۔ انہوں نے سورہ عصر کے تناظر میں اس بات کو شرکاء مجلس کے سامنے رکھا کہ آج بھی ایمان اور عمل ِصالح کا راستہ ہی کامیابی کا راستہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کو مثبت امور کی تبلیغ کرنا اور صبر کی دعوت دینا بھی ازحد ضروری ہے۔
مولانا ظفر الحسن مدنی نے اس موقع پر نیکی اور تقویٰ کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ ڈاکٹر حماد لکھوی صاحب نے بھی اس موقع پریورپ میں بسنے والے مسلمانوں کے مسائل کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی۔ ممتاز سکالر ڈاکٹر عبدالہادی عمری نے اس موقع پر یورپ اور بالخصوص برطانیہ میں بسنے والے مسلمانوں کو درپیش چیلنجز اور امکانات کے حوالے سے بڑی ہی خوبصورت اور نفیس گفتگو کی۔ ڈاکٹر عبدالہادی عمری نے اس موقع پر اس امر کی وضاحت کی کہ حقیقت پسندانہ تجزیہ کرنے کے لیے انسان کو چیلنجز اور امکانات پر بیک وقت غور کرنا چاہیے۔ فقط چیلنجز پر غور کرنے سے گھبراہٹ اور مایوسی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے جب کہ فقط امکانات پر غور کرنے سے انسان خوش فہمی کا شکار ہو کر اور مستقبل کے بارے میں اضافی توقعات کو دل میں جگہ دے بیٹھتا ہے‘ جن کے نہ پورا ہونے کی صورت میں انسان کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے اس موقع پر اس بات کو بڑے ہی خوبصورت انداز میں بیان کیا کہ گو برطانیہ میں مسلمانوں کو تبلیغی حوالے سے چیلنجز کا سامنا ہے‘ لیکن برطانیہ ہی میں بہت سے چرچز کا مسجد میں تبدیل ہوجانا ایک مثبت خبر ہے۔ حالیہ دنوں میں بریڈ فورڈ میںایک بڑے مرکز جامعہ ام القریٰ کی بنیاد رکھی جا رہی ہے ‘جو اس سے قبل ایک چرچ ہو ا کرتا تھا۔ اور اس طرح برطانیہ میں چرچز کے مسجد بننے کی دیگر مثالیں بھی موجود ہیں۔ انہوں نے گلاسکو یونیورسٹی کے حوالے سے بھی اس بات کو بیان کیا کہ گلاسکو یونیورسٹی کسی دور میں اسلام پر تنقید کرنے والے مستشرقین کا مرکز ہوا کرتی تھی اور یہاں سے سند فراغت حاصل کرنے والے بہت سے مستشرقین نے اسلام کے حوالے سے منفی طرزعمل کا مظاہرہ بھی کیا ‘ لیکن گزشتہ چند سال میں گلاسکو یونیورسٹی ہی سے کئی ایسے مسلمان نوجوان سکالرز پیدا ہو رہے ہیں‘ جو کہ اسلام کا دفاع کرنے کے لیے اپنا مؤثر کردار ادا کررہے ہیں۔ اسی مجلس میں ڈاکٹرحماد لکھوی صاحب نے یہ بات بھی بتلائی کہ انہوں نے اپنا اوسٹ ڈاکٹریٹ کا تحقیقی کام بھی گلاسکو یونیورسٹی ہی سے مکمل کیا تھا۔ ڈاکٹر عبدالہادی عمری کی گفتگو سن کر میرے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ یورپ میں بہت سے لوگ اپنے بچوں کے مستقبل کے حوالے سے پریشان نظر آتے ہیں لیکن برطانیہ ہی میں بسنے والے بہت سے نوجوانوں کے چہرے نورِ ایمان سے چمک رہے ہوتے اور سنت نبوی سے مزین کھلے ہوئے چہروں پر عبادت کے اثرات بڑی وضاحت سے محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح یورپ میں بسنے والے بہت سے خاندانوں کی عورتیں پردہ داری کا بڑی سختی سے التزام کرتی ہیں۔ اس موقع پر میں نے بھی اپنی چند گزارشات کو سامعین کے سامنے رکھا جن کا خلاصہ میں اپنے قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:
بنیادی طورپر برطانیہ اور یورپ میں بسنے والے مسلمانوں کو دو طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے۔برطانوی مسلمانوں کو پہلاچیلنج عقائد اور ایمان کے حوالے سے درپیش ہے۔انہیں مختلف درس گاہوں میں حصول علم اور پیشہ وارانہ مصروفیات کے دوران مختلف طرح کے اسلام مخالف افکار کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جن میں دہریت ‘ الحاد اور دیگر مذاہبی افکار کا سامنا معمول کی بات ہے۔ اسی طرح یورپ کا آزاد ماحول انسانوں کو اباحیت پسندی کی طرف دھکیلتا اور انہیںجبلی خو اہشات اور رجحانات کو حلال وحرام کی پرواہ کیے بغیر پورا کرنے کی رغبت دلاتا ہے۔ اسی طرح یورپ میں شراب اور سود سے بچنا بھی ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں کے خلاف ہونے والے پراپیگنڈے کے نتیجے میں بھی مسلمان نفسیاتی اعتبار سے کئی مرتبہ دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے دو تدابیر کو اختیار کرنا انتہائی ضروری ہے۔ پہلی تدبیر یہ ہے کہ انسان صحیح طریقے سے علم کو حاصل کرے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام حمید کے مختلف مقامات پر علم کی ترغیب مختلف اندازمیں دی ہے۔ سورہ زمر کی آیت نمبر 9 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''کہہ دیجئے کیا برابر ہو سکتے ہیں وہ لوگ جو (علم )رکھتے ہیں۔اور وہ (لوگ )جو علم نہیں رکھتے۔ ‘‘سورہ مجادلہ کی آیت نمبر28 میں ارشاد ہوا: '' بے شک علما اللہ سے ڈرتے ہیں اس کے بندوں میں سے اللہ خوب غالب بہت بخشنے والا ہے۔‘‘قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو فرشتوںـ پر جو فوقیت دی اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو زیور علم سے متصف کیا اور ان کو وہ علم عطا کیا جو فرشتوں کے پاس بھی نہ تھا۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ ان کو علم کی بدولت وہ مقام عطا کیا جو فرشتوں کو بھی حاصل نہ تھا۔
یورپ میں رہتے ہوئی صحیح علم کا حصول نظریات اور عقائد کی پختگی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ صحیح علم کی بدولت انسان اپنے ایمان اور اعمال کی حفاظت کے ساتھ ساتھ نفسیاتی اعتبار سے بھی بہت حد تک مطمئن ہو جاتا ہے۔ دنیا بھر میں بسنے والے مسلمانوںکا المیہ یہ ہے کہ وہ دنیاوی علوم کو تو بہت بہتر انداز میں حاصل کر رہے ہیں لیکن ان دنیاوی علوم میں محنت کرتے کرتے بالعموم دینی علوم سے کنارہ کشی یا دوری کو اختیار کر لیتے ہیں جس کا نتیجہ دنیا کی ظاہری معلومات کے حصول کی شکل میں تو نکلتا ہے لیکن اخروی ‘ روحانی اور ایمانی ترقی کے لیے درکار علم حاصل نہیں ہو پاتا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ روم کی آیت نمبر7میں ارشادفرماتے ہیں ''وہ جانتے ہیں ظاہر کو دنیوی زندگی سے اور وہ آخرت سے (بالکل) غافل ہیں۔‘‘صحیح علم کے حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ عقائد اور اعمال کے تحفظ کے لیے اچھی صحبت کا اختیار کرنا بھی ازحد ضروری ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ کہف میں اس حقیقت کو واضح فرمایا کہ انسانی نفسوس کی پختگی اور ان کو صبر دینے کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت کرنے والے لوگوں کی صحبت کو حاصل کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس حقیقت کو سورہ کہف کی آیت نمبر28 میں یوں بیان فرماتے ہیں: ''اور روکے رکھیں اپنے نفس کو ان لوگوں کے ساتھ جو پکارتے ہیں اپنے رب کو صبح اور شام کو وہ چاہتے ہیں اس کو خوشنودی ۔‘‘اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ زخرف کی آیت نمبر67 میں اس حقیقت کو یوں بیان فرمایا''سب دلی دوست اس دن اس میں سے بعض کے بعض (یعنی ایک دوسرے کے)دشمن ہوں گے سوائے متقیوں کے (کہ وہ باہم دوست ہی رہیں گے) ۔‘‘یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ انسان پر بری صحبت کے برے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور یہ بری صحبت انسان کی تباہی اور بربادی پر منتج ہوتی ہے۔ اس حقیقت کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ فرقان کی آیت نمبر 27 سے 29میں یوں فرمایا:''اور جس دن دانتوں سے کاٹے گا ظالم اپنے ہاتھوں کو ۔کہے گا اے کاش میں اختیار کرتار سول کے ساتھ راستہ۔ بائے بربادی کاش میں نہ بناتا فلاں کو دلی دوست۔ بلاشبہ یقینا اس نے مجھے گمراہ کر دیا(اس) ذکر(یعنی قرآن)سے اس کے بعد کہ جب وہ آیا میرے پاس اور ہے شیطان انسان کو (عین موقعہ پر) چھوڑ جانے والا (یعنی دغا دینے والا ہے)۔
چنانچہ یورپ میں مسلمانوں کو عقائد ‘ ایمان اور نفسیاتی دباؤ کے حوالے سے درپیش چیلنجز سے عہد ہ برا ہونے کے لیے کتاب وسنت کے علم کے ساتھ ساتھ اچھی صحبت کو اختیار کرنا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے مساجد ‘دینی اداروں اور اہل علم کے ساتھ تعلق کو برقرار رکھنا بہت ضروری ہے۔ اگر مسلمان ایسا کرلیں گے تو یقینا یورپ میں رہتے ہوئے یہاں کے ماحول کے منفی اثرات سے بچنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اس مجلس میں شامل شرکاء نے علماء اور دانشوروں کی گفتگو کو بہت ہی توجہ کے ساتھ سنااور یوں یہ علمی اور فکری مجلس اپنے جلو میں بہت سی خوبصورت یادوں کو لیے ہوئے اختتام کو پہنچی۔