گزشتہ چند دنوں کے دوران مجھے برطانیہ کے مختلف شہروں میں سیرت النبی ﷺ کے حوالے سے بہت سے پروگراموں میں شرکت کا موقع میسر آیا۔ ان پروگراموں میں شرکت کے دوران جہاں پر میں نے عظمت ‘ اتباع اور ـمحبت رسول اکرمﷺ کے حوالے سے اپنے مطالعے اور مشاہدے کی روشنی میں اپنے خیالات کو سامعین کے سامنے رکھا۔ وہیں پر میں خود بھی مسلسل نبی کریمﷺ کی سیرت مبارکہ ومطہرہ کے بارے میں سوچتا رہا۔
نبی کریمﷺ انسانوں کے لیے یقینا ہر اعتبار سے محسن ہیں۔ انہوں نے انسانیت کو اندھیروں سے نکال کر اُجالوں کا راستہ دکھلایا اور ان کو زندگی گزرانے کا طریقہ بتلایا ‘جو اللہ تبارک وتعالیٰ کو مطلوب ہے۔ نبی کریمﷺ نے کائنات کے لوگوں کو کیا کچھ عطا فرمایا ‘اس حوالے سے چند اہم نکات کو قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:
(1)توحید خالص کا تصور: نبی کریمﷺ کی بعثت سے قبل لوگ الوہیت کے حوالے سے مختلف طرح کے تصو رات کا شکار ہو چکے تھے ۔کوئی اجرام سماویہ کی پوجا کر رہا تھا‘کسی کا نظریہ تثلیث پر تھا۔یہودی عزیر علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا گردان رہے تھے۔اسی طرح بہت سے لوگ بت پرستی میں مبتلا تھے اور اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے بتوں کو خدا سمجھے بیٹھے تھے۔ آتش پرست دو خداؤں کے تصورات کو پیش کر رہے تھے۔ اسی طرح دہریت کا نظریہ بھی موجود تھا کہ انسان جب خاک میںمل جائے گا تو وہ دوبارہ کیونکر زندہ ہو سکے گا۔ نبی کریمﷺ نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی نازل کردہ کتاب قرآن مجید کے مطابق لوگوں کے سامنے توحید خالص کا تصور پیش کیا اور ان کو سورج ‘ چاند‘ ستاروں‘ شجر‘ حجر‘ فرشتوں ‘سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور سیدنا عزیر علیہ السلام کی پوجا سے ہٹا کر ایک اللہ تبارک وتعالیٰ کے آستانے پر جھکنے کا درس دیا۔
(2)حقوق وفرائض کی تعلیم: نبی کریمﷺ نے معاشرے میں بسنے والے لوگوں کو حقوق وفرائض کی نہایت احسن انداز میں تعلیم دی اور معاشرے کے تمام حق دار لوگوں کو ان کے حقوق دلوائے۔ والدین کی عزت اور احترام کو انتہائی ضروری قرار دیا گیا‘ بیوی کے ساتھ حسن سلو ک کی تلقین کی اور اس شخص کو بہترین شخص قرار دیا ‘جو اپنے اہلخانہ کے ساتھ بہترین سلوک کرنے والا ہے۔ نبی کریم ﷺ کی بعثت سے قبل لوگ سوتیلی ماں کے ساتھ بھی نکاح کر لیا کرتے تھے۔ نبی کریمﷺ نے ایسے تمام نکاحوں کو ناجائز قرار دیا۔ لوگ اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیا کرتے تھے ‘ آپﷺ نے ان کے اس برے عمل پر ہمیشہ کے لیے قدغن عائد کر دی اور بیٹی کے مقام کو اتنا بلند کیا‘ جس کا آج سے پہلے کوئی تصور موجود نہ تھا۔ ولی کی اجازت کے ساتھ ساتھ بیٹی کی رائے کو نکاح کے انعقاد کے وقت بہت زیادہ اہمیت دی گئی۔ بیٹی کا وراثت میں باقاعدہ حصہ مقرر کیا گیا اور ماں کی حیثیت سے اس کے مقام کو باپ کے مقابلے میں بھی بلند کر دیا گیا۔ ہمسایوں کے حقوق کے حوالے سے بھی نہایت دل کش اور دلنشین تعلیمات لوگوں کے سامنے رکھی گئیں۔
(3)خاندانوں کی تشکیل: نبی کریمﷺ کا انسانیت پر بہت بڑا احسان ہے کہ آپ نے ان کو محرم رشتہ داروں کی پہچان کراوئی؛ چنانچہ آپﷺ کی آمد کے بعد ماں‘ بہن‘ بیٹی‘ خالہ‘ پھوپھو‘ بھانجی‘ بھتیجی کے رشتے مقدس بن گئے اور محرم رشتے داروں کی بنیاد پر پیار اور احترام بھرے خاندان معرض وجود میں آئے۔ یہ نبی کریمﷺ کی تعلیمات کا اثر تھا کہ تمام مذاہب کے پیروکاروں نے محرم رشتے داروں کا احترام کرنا شروع کیا اور یوں خاندانوں کی تشکیل کی مثبت انداز میںبنیاد ڈالی گئی۔
(4)عائلی قوانین: نبی کریمﷺ کی تعلیمات کی برکت سے عائلی زندگی میں بھی ایک انقلاب بپا ہوا۔ جہاں پر نکاح کی ترغیب دلائی گئی ‘وہیں پر طلاق کے ذریعے ایک ایسا راستہ بھی نکالا گیا کہ اگر خاندانوں میں اتفاق اور اتحاد برقرار نہ رہ سکے تو وہ طلاق کے ذریعے علیحدگی کے راستے کو اختیار کرنے قابل ہوں سکیں۔ نبی کریمﷺ کی اس تعلیم کا اثر یہ تھا کہ دیگر بہت سے مذاہب جن میں طلاق کی کوئی گنجائش موجود نہ تھی‘ انہوں نے بھی اپنے عائلی قوانین میں طلاق کی گنجائش کو پیدا کیا؛ چنانچہ ہندو اور مسیحی معاشروں میں آج جو طلاق کا تصور موجود ہے درحقیقت وہ اسلام کی تعلیمات ہی سے مستعار لیا گیا ہے۔
(5)جرم اور گناہ کے تعین میں رضا مندی کی اہمیت: دنیا کے تمام قوانین میں انسان کے عمل کی بنیاد پر اس کے مجرم یا گناہ گار ہونے کا تعین کیا جاتا ہے‘ لیکن اسلام کی آفاقی تعلیمات میں اس آگے بڑھ کر ایک نیا سبق دیا کہ انسان گناہ گار تب ہو گا ‘جب وہ اپنی رضا مندی کے ساتھ کسی گناہ کا ارتکاب کر رہا ہو؛ چنانچہ اگر کوئی انسان کسی گناہ پر مجبور کر دیا جائے‘ تو اس حوالے سے وہ مجرم قرار نہیں پا سکتا۔ سورہ بقرہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : ''دین میں کوئی جبر نہیں۔‘‘سورہ نور میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کو واضح فرمایا کہ کسی کولڑکیوں کو برائی پر مجبور نہیں کرنا چاہیے‘ جب کہ وہ نیکی کی زندگی گزارنا چاہتی ہوں‘تاکہ اس کے عوض دنیا کے مال کو کمایا جائے اور جو کوئی انہیں برائی پر مجبور کرے گا‘‘ پس‘ اللہ تبارک وتعالیٰ ان کے مجبور ہونے کے سبب ان کے لیے بخشنے والا مہربان ثابت ہو گا۔ سورہ نور کی ان تعلیمات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگر کوئی جسم فروشی کا دھندہ کرنے والی عورت بھی اپنی جسم فروشی پر راضی نہ ہو تو وہ اسلام کی نظروں میں مجرم نہیں ہے۔
(6)امن وامان کا قیام: نبی کریمﷺ نے انسانوں کو شریعت کی شکل میں وہ قوانین عطا فرمائے‘ جس سے لوگوں کی مال‘ جان‘ عزت ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گئی؛ چنانچہ اگر کسی بھی معاشرے میں قانون قصاص کو لاگو کر دیا جائے تو معاشرے میں خود بخودقتل وغارت گری کا راستہ بند ہو سکتا‘ اگر چوری کی حد کو قائم کر دیا جائے تو کوئی کسی کے مال کو چرانے کی کوشش نہیں کرے گا‘ اگر شراب نوشی کی حد کو قائم کر دیا جائے ‘تو معاشرے میں منشیات کو فروغ حاصل نہیں ہو سکتااوراسی طرح اگر معاشرے میں قذف کی حد کو قائم کر دیاجائے تو کوئی کسی پر جھوٹی تہمت لگا کر اس کی عزت کو پامال نہیں کر سکتا؛اگر مسلمان معاشروں میں نبی کریمﷺ کے عطا کردہ جرم وسزا کے نظام کو قائم کر دیا جائے ‘تو مسلمان معاشروں میں قیام امن کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ یہی کہ وجہ ہے کہ آپﷺ کی تشریف آوری کے بعد جزیرۃ العرب کا خلفشار اور انتشار کلی طور پر ختم ہو گیا تھا۔
(7)عدل وانصاف کا قیام: نبی کریمﷺ نے معاشرے کو عدل وانصاف کے ایک ایسے نظام سے روشناس کروایا‘ جس کا آپ کی بعثت سے قبل تصور ہی موجود نہ تھا؛ چنانچہ جب بنو مخزوم کی ایک مؤثر عورت نے چوری کی اور حضرت اسامہ بن زیدؓ اس کی سفارش لے کر آئے تو نبی مہرباں نے ارشاد فرمایا: اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے ‘تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں گا۔ اس موقع پر آپﷺ نے سابقہ امتوں پر آنے والے عذاب کے ایک بڑے سبب کا بھی ذکر کیا کہ اُن میں سے اگر کوئی بڑا آدمی جرم کرتا‘ تو اس کو چھوڑ دیا جاتا اور جب کوئی چھوٹا جرم کرتا ‘تو اس کو سزا دی جاتی۔
نبی کریمﷺ کے انسانیت پر اور بھی بہت سے احسانات ہیں‘ لیکن میں نے چند احسانات کو اپنے قارئین کے سامنے رکھا‘ جو اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ یقینا نبی کریمﷺ انسانیت کے حقیقی محسن ہیں اور آپ ﷺکے احسانات کا تقاضا ہے کہ آپ ﷺکی عظمت کو تسلیم کیا جائے۔ آپﷺسے والہانہ محبت کی جائے۔ آپﷺ کی غیر مشروط اتباع کی جائے۔ آپ ﷺکی حرمت اور ناموس کا دفاع کیا جائے ۔آپﷺ کی ذات اقدس پر مسلسل درود وسلام کو بھیجا جائے اور آپﷺ کی عطا کردہ تعلیمات کو اپنے اپنے دائروں میں نافذ کرنے کی کوشش کی جائے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کونبی کریمﷺ کے احسانات کو ہمہ وقت مدنظر رکھتے ہوئے ‘صحیح معنوں میں آپﷺ سے اپنی نسبت کا اظہار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔