اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ صلاحیت عطا کی ہے کہ وہ مستقبل کے اندیشوں اور امکانات کو مدنظر رکھ کے اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کرتا ہے؛ چنانچہ معاشرے میں بسنے والے لوگوں کی غالب اکثریت معاشی سرگرمیوں میں اسی لیے دلچسپی لیتی ہے‘ تاکہ مستقبل کے اندیشوں اور چیلنجز کا مقابلہ کیا جا سکے۔ اپنی چادر کے تحفظ ‘چاردیواری اور بیوی بچوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے انسان معاشی امور کو بڑی دل جمعی سے انجام دیتا ہے۔ انسان کی معاشی سرگرمیوں کا اس کو اس انداز میں فائدہ پہنچتا ہے کہ جہاں پر وہ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل ہو جاتا ہے‘ وہیں پر اگر زندگی میں کوئی تکلیف‘ مشکل یا بیماری کا سامنا کرنا پڑ جائے ‘تو وہ اپنی آمدن او رمعاشی سرگرمیوں کے ذریعے ان چیلنجز سے بھی عہدہ برأ ہو جاتا ہے‘ اسی طرح آمدن کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ انسان ضروریات کے علاوہ بہت سی سہولیات حاصل کرنے کے بھی قابل ہو جاتا ہے۔
انسان ساری زندگی اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے تگ ودو کرتا رہتا ہے او ر اس حوالے سے کئی مرتبہ دوسرے لوگوں کی حق تلفی سے بھی گریز نہیں کرتا‘ لیکن یہ مقام تاسف ہے کہ انسانوں کی ایک بڑی اکثریت ‘جو اپنی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہے ‘اپنی موت اور اس کے بعد آنے والی زندگی کے حوالے سے خاطر خواہ تیاری کرتے ہوئے نظر نہیں آتے؛اگر انسان نے اندرون ملک یا بیرون ملک سفر کرنا ہو تو وہ خود اور اس کے گھر والے اس کے لیے سفری سامان کو تیار کرتے ہیں اور اگر کوئی شخص اس سلسلے میں لاپرواہی یا غفلت کا مظاہرہ کرے‘ تو اس کے گردوپیش میں بسنے والے اس کی لاپرواہی اور کم عقلی پر حیرت اور تاسف کا اظہار کرتے ہیں۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہی انسان جو دس پندرہ یا بیس دن کے سفر کے لیے تو بھر پور انداز میں تیاری کرتا ہوا نظر آتا ہے‘ نجانے کیوں جب ہمیشہ کی زندگی کی بات آتی ہے‘ تو اس حوالے سے اس کی تیاریاں نہ ہونے کے برابر نظر آتی ہیں۔ دیکھنے میں آیا ہے‘ نہ تو وہ خود ہی اس بارے میں متفکر ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے گردوپیش میں رہنے والے لوگ اس بارے میں غوروفکر کرتے ہیں‘ جب انسان کی اپنی لاپرواہی کی کیفیت یہ ہو تو کیونکر ممکن ہے کہ وہ اپنے قریبی رشتے داروں اور دوست احباب کو تیاری کی تلقین کرے۔
موت ایک اٹل حقیقت ہے ‘جس سے فرار ممکن نہیں اور دنیا میں عقائد‘ نظریات اور افکار تمام تر اختلاف کے باوجود تمام مذہبی اور غیر مذہبی لوگ موت کے آنے پر یقین رکھتے ہیں اور اس کو جھٹلانے یا اس کا انکار کرنے پر کوئی بھی آمادہ نہیں ہوتا۔یہ مقام فکر ہے کہ اتنی بڑی حقیقت کے حوالے سے انسان اس حد تک لاپروا کیوں ہے۔ قرآن مجید نے جہاں پر عقائد اور اعمال کے بہت سے اہم گوشوں اور اہم پہلوؤں کی طرف اپنے پڑھنے اور ماننے والوں کی رہنمائی کی ہے وہیں پر فکر آخرت کے حوالے سے قرآن مجید نے بہت بلیغ انداز میں بہت سی خوبصورت باتیں کی ہیں اور دنیا کی معاشی اور سماجی سرگرمیوں میں ہمہ وقت مصروف رہنے والے انسان کی توجہ موت کی سمت مبذول کروائی ہے۔ اسلام دنیا اور آخرت کو اکٹھا لے کر چلنے کو ہر اعتبار سے مستحسن سمجھتا گیا ہے؛ چنانچہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 201 میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے زبردست اور خوبصورت دعا کا ذکر کیا ہے: ''اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی اچھا عطا کر اور آخرت میں بھی‘ اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔‘‘لیکن اس بالمقابل دنیا کی زندگی میں اس انداز میں کھو جانا کہ آخرت کی زندگی کو یکسر فراموش کر دیا جائے‘ یقینا گھاٹے کا سودا ہے۔ قرآن مجید کے متعدد مقامات پر اس حقیقت کو بڑے ہی مؤثر انداز میں بیان کیا گیا ہے۔سورہ تکاثر میں اللہ تبارک وتعالیٰ اس حقیقت کو یوں بیان فرماتے ہیں: ''غافل کر دیا تمہیں باہمی کثرت کی خواہش نے۔ یہاں تک کہ تم نے جا دیکھیں قبریں۔ ہر گر نہیں عنقریب تم جان لو گے ۔ ہر گر نہیں کاش تم جان لیتے یقین کا جاننا۔ یقینا ضرور تم دیکھ لو گے جہنم کو‘ پھر یقینا ضرور تم دیکھ لو گے‘ اسے یقین کی آنکھ سے‘ پھر ضرور بالضرور تم پوچھے جاؤ گے‘ اس دن نعمتوں کے بارے میں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ اعلیٰ کی آیت نمبر 14 سے 19 تک میں بھی آخرت کی اہمیت کو کچھ اس انداز میں بیان فرمایا: ''یقینا کامیاب ہو گیا ‘جو پاک ہو گیا اور اس نے یاد کیا اپنے رب کا نام پس نماز پڑھی‘ بلکہ تم ترجیح دیتے ہو دنیوی زندگی کو؛ حالانکہ آخرت بہتر اور زیادہ پائیدار ہے ۔ بے شک یہ (بات) یقینا پہلے صحیفوں میں ہے‘ یعنی ابراہیم ؑ اور موسیٰ ؑ کے صحیفوں میں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے سورہ نازعات میں دو طرح کے لوگوں کا ذکر کیا ۔ ایک وہ لوگ‘ جو دنیا کی زندگانی میں کھو کر طغیانی کے راستوں کو اختیار کر لیتے ہیں‘ ایسے لوگوں کو ناکام اور نامراد قرا ر دیا گیا۔ اس کے مدمقابل وہ لوگ جو اپنی خواہشات کو دبا لیتے ہیں ان کے لیے جنت کو تیار کر دیا گیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نازعات کی آیت نمبر37 سے 41 میں اس حقیقت کو کچھ یوں بیان فرماتے ہیں: ''پس رہا وہ جس نے سرکشی کی اور اس نے ترجیح دی دنیوی زندگی کو۔ تو بے شک جہنم ہی (اس کا) ٹھکانا ہے۔ اور رہا وہ جو ڈر گیا اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے اور اس نے روکا (اپنے) نفس کو(بُری) خواہش سے۔ تو بے شک جنت ہی (اُس کا) ٹھکانا ہے۔‘‘
اسی حقیقت کو سورہ آل عمران کی آیت نمبر 185 میں کچھ یوں بیان کیا گیا: ''ہر شخص کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ اور بے شک تمہیں پورا پورا دیا جائے گا‘تمہارے اعما ل کا بدلہ قیامت کے دن۔ پس جو بچالیا گیا (جہنم کی) آگ سے اور وہ داخل کر دیا گیا‘ جنت میں تو یقینا وہ کامیاب ہو گیا اور نہیں ہے دنیاوی زندگی مگر دھوکے کا سامان۔ ‘‘
قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کی آخرت کے لیے کی گئی محنت کو ہرگز ضائع نہیں فرماتے‘ بلکہ جو شخص اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں تگ ودو کرتا ہے‘ اللہ تعالیٰ اس کے تمام اعمال کا اس کو پورا پورا بدلہ عطا فرماتے ہیں؛ چنانچہ سورہ آل عمران ہی کی آیت نمبر 195 میں ارشاد ہوا: ''بے شک میں ضائع نہیں کروں گا‘ کسی عمل کرنے والے کا عمل تم میں سے مرد ہو یاعورت تم ایک دوسرے سے ہو (یعنی سب برابر ہیں) پس جنہوں نے ہجرت کی اور نکالے گئے اپنے گھروں سے اور ستائے گئے میری راہ میں اور انہوں نے جنگ کی (اللہ کی راہ میں) اور مارے گئے؛ البتہ ضرور میں ضرور مٹادوں گا‘ ان سے ان کے گناہ اور البتہ ضرور میں داخل کروں گا انہیں (ایسی) جنتوں میں (کہ) بہتی ہیں‘ اُن(باغات) کے نیچے سے نہریں ‘بدلہ ہے اللہ کی طرف سے۔ اور اللہ (وہ ہے کہ) اس کے پاس بہترین بدلہ ہے۔‘‘
قرآن مجید کامطالعہ اس حقیقت کو بھی واضح کرتا ہے کہ بعض لوگ جن کی تگ ودو کا مقصد فقط دنیا وی زندگی کا حصول ہے اور وہ آخرت کے منکر یا اس سے کلی طور پر غافل ہیں اور ان کا گمان یہ ہے کہ وہ بہترین کام کرنے میں مصروف ہیں درحقیقت وہ کوتاہ بینی کا شکار ہیں؛ چنانچہ سورہ کہف آیت نمبر 103 سے 108 میں ارشاد ہوا: ''کہہ دیجئے کیا ہم خبر دیں تمہیں زیادہ خسارہ پانے والوں کی اعمال کے اعتبار سے۔ وہ لوگ جو (کہ) ضائع ہو گئی ان کی کوشش دنیوی زندگی میں حالانکہ وہ گمان کرتے ہیں کہ بے شک وہ اچھے کام کر رہے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں‘ جنہوں نے انکار کیا اپنے رب کی آیات اور اس کی ملاقات کا تو ضائع ہو گئے ان کے اعمال۔ سو نہیں ہم قائم کریں گے‘ ان کے لیے قیامت کے دن کوئی وزن۔ یہ ان کی سزا ہے جہنم اس وجہ سے کہ انہوں نے کفر کیا اور انہوں نے بنایا (اُڑایا)میری آیات اور میرے رسولوں کا مذاق۔ بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے عمل کیے نیک ہوں گے ان کے لیے فردوس کے باغات بطور مہمانی۔ (وہ) ہمیشہ رہنے والے ہیں اس میں نہیں وہ چاہئیں گے ‘اس جگہ سے بدلنا۔ ‘‘
قرآن مجید کی تمام آیات پر غوروخوض کرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ انسان موت سے فرار نہیں ہو سکتا اور اس کو یقینا دنیا میں کیے گئے اعمال کے بارے میں قیامت کے دن جواب دہ ہونا ہے اور انسان کا دنیوی زندگی میں کھو کر آخرت کو فراموش کر دینے والا رویہ یقینا اس کے لیے تباہ کن ثابت ہو گا۔ اس کے مدمقابل دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کے امور کو انجام دینے کے ساتھ ساتھ اخروی کامیابی کے لیے کی جانے والی تگ ودو کا صلہ انسان کو آخرت میں ضرور حاصل ہو گا۔ وہ لوگ جو فکر آخرت کو مدنظر رکھ کے آخرت کی تیاری کرتے ہیں۔ درحقیقت سمجھ داری اورعقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس کے مدمقابل جو لوگ دنیا کی زندگی کو لا فانی سمجھ کر موت اور اس کے بعد والی زندگی کو فراموش کر دیتے ہیں۔ درحقیقت وہ حقیقت سے فرار کے راستے کو اختیار کرتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صحیح معنوں میں دین اور دنیا میں توازن کو برقرار رکھتے ہوئے دنیاوی امور کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ آخرت کی تیاری کی بھی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین )