ہرانسان زندگی میں کامیابی کا طلبگار ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اپنے مثبت انداز کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔
قرآن وسنت کا مطالعہ کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کامیاب ہونے کے لیے بعض اہم کام کرنے کی ضرورت ہے‘ جو درج ذیل ہیں:۔
1۔تکالیف اور مشکلات پر صبر کرنا:ہر انسان کو انفرادی اور اجتماعی سطح پر اپنے مثبت اہداف کو حاصل کرنے کے لیے مختلف طرح کی مشکلات کا سامنا کرتا ہے۔ بعض لوگ مشکلات پر دل گرفتہ اور دل شکستہ ہو کر اپنے راستے کو چھوڑ دیتے ہیں‘ جب کہ قرآن مجید کا مطالعہ اور انبیاء علیہم السلام کی سیرت ہمیں یہ بات سمجھاتی ہے کہ انسان کو اپنے مثبت اہداف کو حاصل کرنے کے لیے ہمہ وقت خندہ پیشانی کے ساتھ مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ حضرت نوح‘ حضرت ہود‘حضرت صالح‘ حضرت ابراہیم ‘ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام نے اپنی قوم کی طرف سے آنے والی مشکلات کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا۔ حضرت نوح علیہ السلام کو ساڑھے نو سو برس تک دیوانہ اور مجنوں کہا گیا اور ان کو مسلسل ظلم وستم کا نشانہ بنایا گیا۔ اسی طرح حضرت صالح علیہ السلام کو بھی ان کے قوم کے ناعاقبت اندیش لوگوں نے (معاذاللہ) کج فہمی اور کم عقلی کا طعنہ دیا۔ اسی طرح حضرت صالح علیہ السلام کے لوگ بھی آپؑ کی دعوت کو قبول کرنے کی بجائے وہ آپ کی مخالفت پر آمادہ وتیار رہے۔ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کے لوگوں نے بھی ان کو سخت تکالیف دیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کی رعونت‘ قارون کے سرمائے‘ ہامان کے منصب اور شداد کی جاگیر کا پوری خندہ پیشانی سے سامنا کیا اور آپ ؑ پوری استقامت اور حوصلے کے ساتھ ان تمام تکالیف کو سہتے رہے۔ نبی مہرباں حضرت محمدﷺ کی زندگی بھی اس حوالے سے ہمارے لیے ایک نمونے کی حیثیت رکھتی ہے کہ آ پﷺنے بھی تبلیغ دین کے راستے میں آنے والی تکالیف کو بڑی خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔آپﷺکے راستے میں کانٹے بچھائے گئے‘ آپﷺ کے گلوئے اطہر میں چادر کو ڈال کر کھینچا گیا۔ حالت سجدہ میں آپﷺ کی بے ادبی کی گئی ‘ طائف کی وادی میں آپﷺ پر ظلم کی انتہاء کر دی گئی ؛حتیٰ کہ جبرائیل علیہ السلام پہاڑوں کے فرشتے کے ہمراہ آپﷺ کی خدمت میں تشریف لائے اور عرض کی کہ اے حبیب اگر آپﷺ حکم دیں تو طائف کی اس وادی کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس کر رکھ دیاجائے ‘تو آپ ﷺ نے فرمایا:اے اللہ! میری قوم کے لوگوں کو ہدایت دے دے ‘یہ مجھ کو جانتے نہیں ہیں۔ آپﷺ کو شعب ابی طالب کی گھاٹی پر محصور کیا گیا‘ آپﷺ کو سرزمین مکہ سے ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔ کفار نے مدینہ طیبہ کی ریاست میں بھی آپﷺ کو ایذاء پہنچانے میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی اور آپﷺ پر مختلف جنگوں کو مسلط کیا گیا۔ نبی کریمﷺ نے ان تمام تکالیف کو بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا۔ آپﷺ کے صحابہ اور تلامذہ کو بھی دین حق کی قبولیت کی پاداش میں بڑی سختیوں کا سامنا کرنا پڑا‘ لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ہر طرح کی تکالیف اور اذیتوں کو جھیلنا گوارہ کر لیا‘ لیکن ان کے پائے استقلال میں کسی قسم کی کپکپاہٹ اور لرزش پیدا نہ ہوئی۔
2۔ جہد مسلسل: انبیاء اور رسل اللہ کی سیرت ہمیں اس بات کا بھی سبق دیتی ہے کہ انسان کو مثبت اہداف کے حصول کے لیے اپنی جدوجہد کو جاری رکھنا چاہیے؛ چنانچہ انبیاء سابقہ نے جہاں پر تکالیف اور مشکلات پر صبر کیا وہیں پر مسلسل جدوجہد کو بھی جاری رکھا۔ سورہ نوح کی آیت نمبر5 میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کی اس بات کو درج فرمایا: ''اے میرے رب ! بے شک میں نے اپنی قوم کو رات اور دن دعوت دی۔‘‘ انبیاء سابقہ اپنی قوموں کو لوگوں کو دعوت دینے کے عمل سے کسی بھی حالت میں دستبردار نہ ہوئے اور مسلسل ان کو سیدھے راستے کی دعوت دیتے رہے۔ نبی کریمﷺ کی پوری زندگی میں آنے والی تکالیف کے دوران ہم اس بات کا باآسانی مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ جہاں پر آپﷺ نے تمام تکالیف کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا وہیں پر آپ ﷺ نے دعوت دین کے عظیم عمل کو پوری استقامت کے ساتھ جاری رکھا۔
3۔ اللہ تبارک کی ذات پر توکل اور بھروسہ: انبیاء سابقہ ‘ صحابہ کرام ؓ اور اکابرین اُمت کی زندگیوں سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ وہ ہمہ وقت اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کیا کرتے تھے اور دعوت وجہاد اور نجی زندگی کے دوران پیش آنے والی تکالیف کے دوران ہمہ وقت اس کی طرف سے آنے والی مدد کے حاصل ہونے کے بارے میں یقین رکھا کرتے تھے۔ان کی زندگیوں میں کسی بھی قسم کی مایوسی اور نا اُمیدی کے اثرات موجود نہ تھے؛ چنانچہ جب ہم حضرت یعقوب علیہ السلام کی زندگی پر غور کرتے ہیں تو ہمیں یہ بات سمجھ میں آتی ہے ‘جہاں پر آپ ؑ نے صبر اور خندہ پیشانی سے حضرت یوسف علیہ السلام کی جدائی کو برداشت کیا‘ وہیں پر آپؑ نے اللہ کی ذات پر ہمہ وقت بھروسہ بھی کیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی گمشدگی کے بعد آپؑ حضرت بنیامین علیہ السلام سے بہت زیادہ محبت کیا کرتے تھے‘ لیکن حضرت بنیامینؑ کی جدائی کے بعد بھی آپؑ نے اپنی اولاد کو اللہ کی راہ میں پر امید رہنے کا سبق دیا اور ان کو سمجھایا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمت سے ناامید نہیں ہونا کہ بے شک اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نا امید فقط کافر ہی ہوتے ہیں۔ ہمہ وقت امید اور توکل انسان کی قوت عمل کو بڑھاتے ہیں۔ مایوس انسان قوت عمل سے محروم ہو جاتا ہے‘ جب کہ پرامید اور متوکل انسان مشکلات اور تکالیف کے دوران بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمتوں سے نا امید نہیں ہوتا؛چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ طلاق کی آیت نمبر 3میں ارشاد فرماتے ہیں:''اور جو کوئی اللہ تبارک وتعالیٰ پر توکل کرتا ہے تو پس وہ اس کے لیے کافی ہو جائے گا‘‘۔
قو ت عمل اور توکل کا آپس میں بہت ہی گہرا تعلق ہے ۔ حدیث پاک ان میں پرندوں کا بھی ذکر آیا ‘جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر توکل کرکے اپنے گھروں سے رزق کی تلاش میں نکلتے ہیں تو اللہ تبارک وتعالیٰ ان کو رزق کی نعمتوں سے نواز دیتا ہے۔ انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر توکل کرنے کے لیے اس بات کو اپنے ذہن میں اتارنا انتہائی ضروری ہے کہ جتنی بھی مصیبتیں آتی ہیں ‘وہ درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم سے آتی ہیں اور مصیبت کو ٹالنے والی ذات بھی فقط اللہ احکم الحاکمین ہی کی ذات ہے۔
4۔ دعا:صبر‘ جہدمسلسل اور توکل کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ سے مسلسل دعا کرنا بھی کامیابی حاصل کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام حمید میں مختلف انبیاء علیہم السلام کی دعاؤں کا ذکر کیا جنہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ سے مانگیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان دعاؤں کو قبول ومنظور فرماتے ہوئے ان کی مشکلات کو دور کر دیا؛چنانچہ اللہ تبار ک وتعالیٰ نے حضرت ابراہیم اور حضرت زکریا علیہما السلام کو پیرانہ سالی کے عالم میں اولاد کی نعمت سے نواز دیا۔ حضرت ایوب علیہ السلام کی بیماری کو رفع فرما دیا ‘ حضرت یونس علیہ السلام کے غم کو دور کر دیا۔ حضرت نوح علیہ السلام کی پریشانیوں کو ختم کر دیا اور حضرت آدم علیہ السلام کے اشکوں کو قبول فرماتے ہوئے ان پر مغفرت اور رحمتوں کا نزول فرما دیا۔نبی کریمﷺ بھی ساری زندگی اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا فرماتے رہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ آپﷺ کی دعاؤں کو قبول ومنظور فرماتے رہے۔ نبی مہرباں حضرت محمد ﷺ نے اپنی امت کو بھی بہت سے دعائیں پڑھنے کا سبق دیا۔ قرآن مجید میں سابقہ انبیاء کے ساتھ ساتھ اہل ایمان کی بھی درجنوں دعاؤں کا ذکر کیا۔ جن میں سے بہترین دعا سورہ بقرہ کی آیت نمبر 201 میں درج ہے کہ:''ا ے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا بھی اچھی عطا فرما اور آخرت بھی اچھی عطا فرماء اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچالے۔‘‘
جب مذکورہ بالا چاروں اعمال جمع ہو جائیں ‘تو اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کی تمام مشکلات کو ٹال کر اسے دنیا اور آخرت کی کامیابیوں سے ہمکنار فرما دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو دنیا اور آخرت کی کامیابیوں سے ہمکنار فرمائے۔ آمین
ہرانسان زندگی میں کامیابی کا طلبگار ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اپنے مثبت انداز کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ قرآن وسنت کا مطالعہ کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کامیاب ہونے کے لیے بعض اہم کام کرنے کی ضرورت ہے۔