"AIZ" (space) message & send to 7575

نت نئے فتنے

جھوٹ کی ہر قسم قابلِ مذمت ہے‘ لیکن جب جھوٹ اللہ تبارک وتعالیٰ اور نبی کریمﷺ کی ذات اقدس کے بارے میں بولا جائے ‘تو یہ جھوٹ عام حالات میں بولے گئے جھوٹ کے مقابلے میں کہیں زیادہ تباہ کن ہو سکتا ہے۔ ایسا جھوٹ جہاں پر بولنے والے کی عاقبت کو تباہ وبرباد کر دیتا ہے۔ وہاں پراس جھوٹ کو تسلیم کرنے والے لوگ بھی دنیا اور آخرت میں ناکام اور نامراد ہو جاتے ہیں۔ جب ہم تاریخ اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں‘ تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ نبی مہرباں حضرت محمدﷺ کی رحلت کے بعد مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی کا فتنہ بڑی شدومد کے ساتھ سامنے آیا‘ تاہم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نبوت کے جھوٹے دعویداروں کا قلع قمع کر دیا۔ 
لیکن اس کے بعد بھی بہت سے لوگ نبوت اور مہدویت کا دعویٰ کرتے رہے۔ خلافت اسلامیہ کے زوال کے بعد اس قسم کے فتنوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوا؛ چنانچہ حسین علی مازندانی‘ علی محمد باب‘ غلام احمد قادیانی‘ علی جاہ محمد‘ راشد الخلیفہ نے گزشتہ دو صدیوں کے دوران دعویٰ نبوت کیا۔ یہ جھوٹے لوگ لوگوں کو اپنے جال میں پھنسانے میں کامیاب بھی ہو گئے۔ 
نبوت اور مہدویت کے جھوٹے دعویداروں یقینا انسانوں کے لیے بہت بڑا فتنہ ہیں۔ حال ہی میں پاکستان میں ایک شخص نے امام مہدی ہونے کا دعویٰ کیا اور وہ اپنے دعویٰ کے بعد گرفتار بھی ہو گیا۔ اور اسے جیل منتقل کر دیا گیا۔ ابھی چند دن قبل احمد عیسیٰ نامی شخص نے بھی انٹر نیٹ پر بڑی ڈھٹائی کے ساتھ نبوت اور رسالت کا دعویٰ کیا ہے اور اپنے دعویٰ کو قبول نہ کرنے والے لوگوں کو عذاب کی نوید سنائی ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے فتنہ اور فساد پھیلانے والے اس کذاب کو عنقریب قانون کے شکنجے میں لے آئیں گے اور یہ شخص بھی مہدویت کا جھوٹا دعویٰ کرنیوالے شخص کی طرح کیفر کردار تک پہنچ جائے گا۔
مقام افسوس ہے کہ نبوت کے جھوٹے دعویدار بغیر کسی دلیل کے انتہائی ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ نبوت کا دعویٰ کرتے ہیں‘ لیکن بہت سے سادہ لوح لوگ ان کے دعووں اور باتوں کو بھی تسلیم کرنے پر آمادہ وتیار ہو جاتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ دینی علم کی کمی اور احادیث میں موجود علامات قیامت سے ناشناسائی ہے۔ اگر حقیقی معنوں کتاب وسنت کا علم ہو تو انسان حقیقی معنوں میں اس بات کو با آسانی سمجھ سکتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کو آخری کتاب کے طور پر ناز ل فرما دیا ہے اور سورہ حجر کی آیت نمبر 9 میں ارشاد فرمایا: ''بے شک ہم نے ہی ذکر کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘اسی طرح سورہ مائدہ کی آیت نمبر3 میں اس بات کا اعلان فرما دیا ''آج (کے دن )میں تمہارے لیے تمہار ہ دین مکمل کر دیا ہے اور میں نے پوری کر دی ہے تم پر اپنی نعمت ‘اور میں نے پسند کیا ہے تمہارے لیے اسلام کو بطور دین۔‘‘ ہمیں قرآن مجید کی آیات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نبی کریمﷺ کے بعد کسی نبی کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ سورہ اعراف کی آیت 158اور سورہ سبا کی آیت 28 میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ رسول اللہﷺ جمیع انسانیت کے لیے اللہ کے پیغمبر ہیں اور تمام انسانیت کے لیے خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجے گئے ہیں۔
مذکورہ آیات واضح کرتی ہیںکہ جمیع انسانیت کی ہدایت اور نگہبانی کے لیے اب کسی رسول اور نبی کی ضرورت نہیں‘اس لیے کہ یہ فریضہ اللہ تعالیٰ جناب رسول اللہ ﷺ کو تفویض فرماچکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ احزاب کی آیت 40 میں بھی واضح فرمادیا کہ '' محمد(ﷺ) تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں‘ لیکن اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں اور اللہ ہر چیزکو جاننے والا ہے۔‘‘ یعنی جس طرح وہ کسی مردکے باپ نہیں‘اسی طرح آپﷺ کے بعدکوئی نبی بھی نہیں ہوسکتا۔ ختم نبوت کا انکارکرنے والے گروہ نے آیت میں''خاتم النبین‘‘ کا ترجمہ نبیوںکی مہرکرکے لوگوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کی؛ حالانکہ ہرذی شعوراس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ کسی چیز پر مہر اس کی تکمیل کے بعد ہی لگائی جاتی ہے۔ جب کسی پیمانے یا دستاویز کو سیل بند کردیا جاتا ہے تو مہرکوتوڑے بغیراس میںکسی چیزکو داخل نہیں کیا جاسکتا۔ جب نامکمل چیز پر مہر نہیں لگ سکتی اور مہر لگ جانے کے بعد اس میںکوئی چیز داخل نہیں ہوسکتی تو یہ بات بھی بالکل واضح ہوگئی کہ رسول کریم ﷺ کے آنے کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہوگیا ہے اور آپ ؐکی آمدکے بعدکوئی دوسرا نبی نہیں ہوسکتا۔ یہی گروہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ دنیا میں تشریف آوری کو بنیاد بناکر لوگوںکو دھوکہ دینے کی کوشش کرتا ہے کہ اگرحضرت رسول اللہﷺکے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا ‘تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کیونکرآئیںگے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبوت حضرت محمدﷺ سے پہلے ملی اور آپؑ کے زندہ آسمانوں کی طرف اٹھائے جانے کے بعد اس دنیا میں دوبارہ نازل ہونے سے حضرت محمدﷺ کے بعدکسی نئے شخص کو نبوت ملنے کا ثبوت نہیں ملتا۔ جب نبوت کا دروازہ بند ہوا تو اس سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نبی بن چکے تھے۔ نبوت کا دروازہ بند ہوجانے کے بعدکسی کو نبوت ملنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔
جہاں قرآن مجید نے مسئلہ ختم نبوت کو واضح کردیا‘ وہیں احادیث مبارکہ سے بھی اس مسئلے کی خوب وضاحت ہوتی ہے۔ بعض احادیث درج ذیل ہیں : صحیح بخاری و صحیح مسلم ‘ مسند احمد بن حنبل اور سنن الکبریٰ للبیہقی میںحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: میری اور سابق نبیوںکی مثال ایک شخص کی ہے ‘جس نے ایک خوب صورت گھر بنایا‘ مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی چھو ڑ دی۔ لوگ اس گھرکو دیکھ کراس کی خوبصورتی پر تعجب کرتے ہیں‘ مگر کہتے ہیں کہ کیا خوب ہو اگر اینٹ اپنی جگہ پر لگا دی جائے‘ پس میں وہ اینٹ ہوں اور میں آخری نبی ہوں ۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میںحضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک تیس بڑے جھوٹے نہیں آئیں گے اور ان میں سے ہر ایک کا یہ دعویٰ ہوگاکو وہ اللہ کا رسول ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ جب جنگ تبوک کے لیے نکلے تو آپ ؐنے حضرت علیؓ کو مدینہ میں اپنانائب مقررکیا۔ حضرت علی ؓ نے عرض کی کہ کیا آپ مجھے بچوں اور عورتوں کے پاس چھوڑکرجانا چاہتے ہیں تو آپ ؐنے فرمایاکہ اے علی! کیا آپ اس بات پر خوش نہیںکہ آپ کو مجھ سے وہی نسبت ہو جو موسیٰ ؑکی ہارون ؑ سے ہے‘ مگر میرے بعدکوئی نبی نہیں۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ بنی اسرائیل کے لوگوں پر انبیا حکومت کرتے رہے اور ان کی رہنمائی بھی کرتے رہے۔ جب ایک نبی کا انتقال ہوجاتا تو دوسرا نبی ان کی جگہ لے لیتا۔ میرے بعدکوئی نبی تو نہیں ہوگا ‘تاہم خلفاء ہوںگے اورتعداد میں بہت ہوںگے۔ صحیح بخاری میں حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے رسول کریم ﷺ سے ایک روایت نقل کی ‘جس میں نبی ﷺ نے اپنے متعدد نام بتائے ‘جن میں سے ایک نام عاقب ہے‘ جس کا مطلب نبی ﷺ نے یہ بتلایا کہ عاقب وہ ہے‘ جس کے بعدکوئی نبی نہ ہو۔ صحیح مسلم میں حضر ت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے ایک روایت نقل کی ہے ‘جس میں آپ نے سابق انبیاء پر اپنی فضیلت کے چھ اسباب بیان کیے اوران میںسے دواسباب یہ ہیں کہ آپ کو پوری انسانیت کے لیے بھیجاگیا اور آپ پر سلسلہ نبوت بند کردیاگیا۔ 
سنن ابن ماجہ میں حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : میں آخری نبی ہوں اور تم (مسلمانو) آخری امت ہو۔ ان احادیث کے علاوہ بھی دیگر بہت سی احادیث سے عقیدہ ختم نبوتﷺ کی وضاحت ہو تی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اجماع امت سے بھی اس اجتماعی عقیدے کی توثیق ہوتی ہے۔ تمام مکاتب فکر کے جید علماء کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نبی کریم ﷺکے بعد نبوت کا دعویٰ کرنے والا ہر شخص جھوٹا اور کذاب ہے اور اس کے دعویٰ کو تسلیم کرنا اپنی دنیا اور آخرت کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ مسلمانوں کو کتاب وسنت کا مطالعہ کرنا چاہیے اور عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے ۔ اس کے ساتھ ساتھ علامات قیامت سے متعلقہ احادیث پر بھی غوروخوض کرنا چاہیے؛ اگر مسلمان یہ تمام کام کرلیں تو نت نئے فتنے یقینا مسلمانوں کو بہکانے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ عہد حاضر کا مسلمان زیادہ وقت اپنی معیشت کو سنوارنے میں گزار رہا ہے لیکن مسلمانوں کو اپنی اخروی فلاح وبہبود کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کے لیے بھی بھر پور محنت کرنی چاہیے اور فتنوں سے بچنے کے لیے علمی اعتبار سے استحکام حاصل کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ انسان کو اس بات کو بھی سمجھ لینا چاہیے کہ میرے جملہ معاملات اور مشکلات کو حل کرنے والی ذات فقط اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی کی ذات ہے اور اس کو اپنے مسائل کے حل کے لیے کسی کے جھوٹے دعووں پر کان نہیں دھرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو دھوکے بازوں سے محفوظ ومامون فرمائے۔( آمین )

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں