ماضی میں جب بھی کبھی دنیا کے کسی مقام پر نبی کریمﷺ کی ذات اقدس کے حوالے سے ناشائستہ یا غیراخلاقی رویے کا اظہار کیا گیا ‘تو دیگر بہت سے مسلمان علماء ‘ طالب علموں اور مبلغین کی طرح میرے ذہن میں بھی مختلف طرح کے خیالات جنم لیتے رہے۔ میں کئی مرتبہ سوچتا ہوں کہ اگر نبی کریمﷺ کے پیغام ‘ سیرت اور تعلیمات سے غیر مسلم صحیح طریقے سے آگاہ ہو جائیں تو آپﷺ کی ذات اقدس پر تنقید کرنے کی بجائے‘ آپﷺ کے احسانات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ نبی کریمﷺ کی ذات اقدس انتہائی بلند مقام کی حامل ہے اور جمیع انسانیت میں سے کسی بھی شخصیت کا مقام اور مرتبہ آپﷺ جیسا نہیں۔
نبی کریمﷺ کی سیرت اورپیغام پر غوروفکر کرنے کے بعد اس بات کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں رہتا کہ آپﷺ نے دنیا والوں کو جو کچھ دیا وہ ہر اعتبار سے انمول‘ بیش بہا اور لائق تحسین ہے۔ نبی کریمﷺ کی سیرت پر غور وفکر کرنے کے بعد بہت سے اہم نکات سامنے آتے ہیں ‘جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1۔بد اعتقادی کا خاتمہ: نبی کریمﷺ جب کائنات میں جلوہ گر ہوئے تو لوگ بت پرستی میں مشغول تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ اجرام سماویہ کی پوجا کرنے والے طبقات بھی موجود تھے‘ اسی طرح شجر‘ حجر کے آستانے پر جھکنے والے لوگ بھی موجود تھے۔ مسیحی تین خداؤں کے تصورات کو اپنے دماغ میں سموئے ہوئے تھے۔ آتش پرست دو خداؤں کا تصور کائنات کے سامنے پیش کر رہے تھے۔ دہریے اللہ تعالیٰ کی ذات ہی کے منکر تھے۔ نبی کریمﷺ نے ان تمام تصورات کا ردّ کیا اور اللہ تعالیٰ کی یکتائی اور وحدانیت کا تصور بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا۔ آپﷺ نے کائنات کے لوگوں کو سمجھایا کہ کائنات کا ایک ہی خالق ومالک ہے اور وہی پوجا اور عبادت کے لائق ہے۔ آپ ﷺنے سورہ اخلاص میں بیان کردہ تصور ِ توحید کو لوگوں کے سامنے رکھا اور ان کو یہ بات سمجھائی کہ اللہ واحد اور بے نیاز ہے ‘ نہ وہ کسی کا باپ ہے اور نہ ہی کسی کا بیٹا اور کوئی بھی اس کا ہمسر نہیں۔ اس تصورِ توحید کے ابلاغ کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ صنم پرستی‘ شجر وحجر کی پوجا ‘ انبیاء اور فرشتوں کی پرستش کو چھوڑ کر ایک اللہ وحدہ لاشریک کے آستانے پر جھکنے والے بن گئے۔
2۔ فحاشی اور بے حیائی کا خاتمہ: نبی کریمﷺ نے جہاں پر بداعتقادی کا خاتمہ کیا ‘وہیں پر آپ ﷺ نے سماج کی سطح پر پائی جانے والی بے حیائی کے خاتمے کے لیے بھی مسلسل جستجو کی۔ آپﷺ نے لوگوں کو پردہ داری کا سبق پڑھایا۔ ان کو ناچ گانے اور اختلاط کے راستوں سے ہٹا کر ایک دوسرے کا ادب اور احترام سکھلایا۔ معاشرے میں حد سے گزر جانے والے لوگوں کے لیے سزاؤں کو مقرر کر کے ہمیشہ کے لیے بے راہ روی کے سدباب کی بہترین تدابیر انسانیت کو عطا فرما دیں۔ غیر شادی شدہ زانی کے لیے 100کوڑے اور شادی شدہ زانی کے لیے سنگسار کی سزا کو مقرر کر دیا۔زنا کی حوصلہ شکنی کے ساتھ ساتھ نکاح کی برکات سے انسانیت کو آگاہ کیا۔ نتیجتاً معاشرے سے بے حیائی اور فحاشی کا کلی طور پر خاتمہ ہو گیا۔
3۔ تمام انسانوں کی برابری کا درس: نبی کریمﷺ نے حسب ونسب ‘ قبیلے اور قوم کی بنیاد پر پائے جانے والے امتیاز اور عصبیتوں کو ہمیشہ کے لیے ختم فرمادیا۔ خطبہ حجۃ الوداع میں آپﷺ نے اس امر کو واضح فرما دیا کہ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں۔ فضیلت اور فوقیت کا اصل سبب تقویٰ کو قرار دیا گیا۔
4۔عورت کی عزت ووقار کی بحالی: نبی کریم ﷺ نے جہاں پر طبقاتی تفاوت کا خاتمہ کیا‘ وہیں پر آپﷺ نے عورت کی عزت اور وقار کی بحالی کے لیے بھی کائنات کے لوگوں کو بہترین تعلیمات عطا فرمائیں۔ ماں کا مقام اتنا بلند کیا کہ ماں کی خدمت اور اس کی اطاعت کو باپ سے بھی کہیںبڑھ کر اہمیت دی‘بہن کو غیرت کی علامت بنادیا‘بیٹی کے لیے جائیداد میں حصہ مقرر کیااور بیٹی کو زندہ درگور کرنے کی شدید انداز میں مذمت کی اور کفار عرب کے سامنے اس حقیقت کو رکھا کہ کل قیامت کے دن زندہ درگور کی جانے والی بیٹی کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ نبی مکرم ﷺ کی آمد سے قبل لوگ اپنی سوتیلی ماؤں کے ساتھ بھی نکاح کر لیا کرتے تھے۔ آپ ﷺ نے اس نکاح کو ناجائز قرار دیا اور عورت کے شرف کی بحالی کے لیے نمایاں تعلیمات لوگوں کو عطا کیں۔ آپﷺ نے نکاح میں ولی کی اجازت کے ساتھ ساتھ عورت کی رضا مندی کو بھی غیر معمولی اہمیت دی اور عورت کی مرضی کو نکاح کی درستگی کے لیے ضروری قرار دیا۔
5۔ غلاموں اور محکوموں کے ساتھ حسن سلوک کی ترغیب: نبی کریمﷺ نے غلاموں اور محکوموں کے ساتھ بھی حسن سلوک کا سبق دیا اور بہت سی غلطیوں اور گناہوں کے کفارے میں غلاموں کی رہائی کو بھی شامل فرمایا۔ اس طریقے سے بتدریج معاشرے میں غلاموں کی تعداد کم کرنے کی طرف رہنمائی فرمائی۔ آپﷺ نے معاشرے میں موجود مساکین اور محروم طبقوں کی بحالی کے لیے زکوٰۃ اور صدقات کی اہمیت کو بھی بھرپور طریقے سے اجا گر فرمایا۔
6۔ عدل وانصاف کا فروغ : نبی کریمﷺ نے معاشرے میں عدل اور انصاف کے فروغ کے لیے بھی مثالی کردار ادا کیا اور قرآن کی تعلیمات کی روشنی میں لوگوں کے سامنے اس بات کو رکھا کہ اگر انسان کو عدل کرنا پڑے تو اس کو اپنے رشتوں کی طرف داری اور اپنی خواہش کو اپنے راستے میں حائل نہیں ہونے دینا چاہیے۔ آپﷺ نے اس حقیقت کا بھی ابلاغ کیا کہ کسی قوم کی دشمنی کی وجہ سے اس قوم کے بارے میں ناانصافی کا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے گویا کہ آپﷺ نے قرابت داری اور دشمنی دونوں صورتوں میں عدل سے تمسک اختیار کرنے کی تلقین فرمائی۔ نبی کریمﷺ کے عہدمبارک میں بنو مخزوم کی ایک بااثر عورت نے چوری کی اور اسامہ بن زیدؓ اس کی سفارش کو لے کے آئے تو نبی کریمﷺ نے اعلان فرمایا ''کہ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے ‘تو میں اس کے بھی ہاتھ کو کاٹ ڈالوں گا۔
7۔ اختیاری جرم پر سزا: نبی کریمﷺ نے صرف ارتکاب جرم ہی کو مجرم ہونے کے لیے کافی قرار نہیں دیا‘ بلکہ اختیار ی طور پر ارتکاب جرم والے کو مجرم قرار دیا؛ چنانچہ جس شخص کو جرم پر مجبور کیا جائے ایسے شخص کو آپﷺ نے مجرم نہیں گردانا۔ قرآن مجید کی سورہ نور سے بھی اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ جن عورتوں کو برائی پر مجبور کیا جاتا اور وہ عورتیں برائی پر آمادہ نہ ہوں‘ـ تو اللہ تبارک وتعالیٰ ایسی عورتوں کو خطاؤں کو معاف کر دیں گے۔
8۔ اموال ‘جان اور آبروکی حفاظت : نبی کریمﷺ نے لوگوں کی عزت ‘ مال اور جان کے تحفظ کو بھی غیر معمولی اہمیت دی؛ چنانچہ چوری کی حد ہاتھ کاٹنے اور قاتل کے لیے قانون قصاص کو مقرر کیا۔ اسی طرح جھوٹی تہمت لگانے والے کے لیے اسی 80 کوڑوں کی سزا کو مقرر کیا گیا۔ ان تمام سزاؤں کو لاگو کرنے کا مقصد یہ تھا کہ کوئی کسی کے مال‘ جان اور آبرو پر حملہ نہ کر سکے۔
9۔ سودی نظام کا خاتمہ: نبی کریمﷺ نے معاشرے میں استحصال کے خاتمے کے لیے سودی نظام کو بھی ختم کر دیا۔ سو د کے خاتمے کا مقصد معاشرے کو سرمایہ دارانہ تسلط سے نجات دلا نا تھا۔ آپﷺ نے سود کے مدمقابل صدقات اور خیرات کی حوصلہ افزائی فرمائی‘ تاکہ معاشرے سے غربت اور مفلوک الحالی کا خاتمہ ہو سکے۔
نبی کریمﷺ کے مذکورہ بالا تمام احسانات پر غور کرنے کے بعد یہ بات مزید واضح ہو جاتی ہے کہ یقینا آپﷺ محسن انسانیت تھے اور دنیا میں کوئی شخصیت بھی آپﷺ کے احسانات کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ دنیا کے جس مقام پر بھی آپﷺ کی مخالفت کی جاتی ہے ۔درحقیقت اس کا سبب جہالت یا تعصب کی انتہا ہوتی ہے؛ اگر انسان دیانت داری اور غیر جانبداری سے حضرت محمد ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کرے‘ تو وہ یہ بات مانے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یقینا انسانیت پر آپﷺ کے احسانات لا تعداد اور بے حساب ہیں اور کسی بھی شخص کے لیے یہ بات جائز نہیں کہ وہ اپنے محسن کے ساتھ احسان فراموشی والا معاملہ کرے‘ بلکہ انسانیت کو آپﷺ کے احسانات کا اعتراف اور ادراک کرتے ہوئے آپﷺ کی ذات پر ایمان لانا چاہیے‘ آپﷺ سے والہانہ محبت کرنی چاہیے‘ آپ ﷺ کی اتباع کرنی چاہیے اور ہر مقام پر آپﷺ کے دفاع کے لیے آمادہ وتیار رہنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صحیح معنوں میں آپﷺ کے احسانات کا اعتراف کرنے والا بنائے۔( آمین)