چند روز قبل قصور کے ایک بڑے قصبے سے تعلق رکھنے والے بزرگ احباب بابایحییٰ اور ماسٹر احمد علی نے مجھ سے رابطہ کیا اور مجھے یہ بات کہی کہ ان کے علاقے کے نمبردار کی بیٹی کا نکاح ہے‘ جس کے حوالے سے انہوں نے قصبے کی مرکزی مسجد میں ایک تقریب کا انعقاد کیا ہے۔ان کی یہ خواہش تھی کہ اس تقریب میں اور نکاح اور اُس کے تقاضوں کے حوالے سے اپنی گزارشات کو سامعین کے سامنے رکھوں؛ چنانچہ وقت مقررہ پر میں قصبے میں پہنچا تو ماسٹر احمد علی نعیم‘ بابایحییٰ ‘حافظ مشتاق‘ حاجی شفیع نجم اور دیگر دوست احباب نے بڑے پرتپاک انداز میں میرا استقبال کیا۔ مرکزی مسجد میں عوام کی کثیر تعداد موجود تھی ۔ میں نے اس موقع پر اپنی چند گزارشات کو سامعین کے سامنے رکھا‘جن کو میں قارئین کی نظر کرنا چاہتا ہوں:
اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کو جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا اور انسانوں کی غالب اکثریت زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر نکاح کے بندھن میں ضرور بندھ جاتی ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپؑ کی پسلی سے اماں حواؑ کو پیدا کیااور حضرت آدم علیہ السلام اور آپؑ کی زوجہ کو جنت میں مقیم کیا۔ جہاں پر وہ ایک عرصے تک جنت کی نعمتوں سے فیض یاب ہوتے رہے اور بعدازاں شجر ممنوعہ کے دانے کو کھانے کے سبب ان کو دنیا میں منتقل ہونا پڑا۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نباء کی آیت نمبر 8 میں اس بات کا اعلان فرمایا ''اور ہم نے تمہیں جوڑا جوڑا پیدا کیا۔‘‘
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ روم کی آیت نمبر 21 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے نفسوں سے بیویوں کو پیدا کیا‘ تاکہ تم سکون کو حاصل کرو ان کی طرف اور اس نے بنا دی تمہارے درمیان محبت اور مہربانی۔‘‘ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں میں صنف مخالف کی جو کشش رکھی ہے‘ اس کے سبب انسانی معاشرے میں نئے خاندان تشکیل پاتے ہیں اور انسان اپنی شریک حیات کے ساتھ اپنے معاملات کے اشتراک کے سبب زندگی کی سرگرمیوں میں احسن طریقے سے حصہ لیتے ہوئے نظر آتا ہے۔ انسانی معاشروں کی یہ خوبی رہی ہے کہ ہر دور میں انسانوں کی اکثریت نے بدکرداری اور غیر محرموں سے شناسائی کو کبھی بھی پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا اور ہمیشہ مہذب معاشروں میں نکاح ہی کو مردوزن کے تعلقات کا درست راستہ قرار دیا گیا ہے۔ دنیا کے مختلف مذاہب کے پیروکار اپنے اپنے انداز میں نکاح اور شادیاں کرتے ہیں‘لیکن ہر مذہب نکاح ہی کو مردوزن کے تعلقات کے لیے صحیح اور جائز راستہ سمجھتا ہے۔ اسلام میں بھی نکاح کی بہت اہمیت ہے۔ اس حوالے سے چند اہم امور کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
1۔ معاشی مسئلہ: ہمارے معاشرے میں بالعموم لوگ مختلف وجوہات کی بنا پر نکاح کو مؤخرکرتے رہتے ہیں۔ ان میں سے ایک اہم سبب معاشی عدم استحکام بھی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نور کی آیت نمبر 32 میں ارشاد فرمایا ''اور نکاح کرو بے نکاح(مردوں اور عورتوں کا) اپنے میں سے‘ اور جو نیک ہیں تمہارے غلاموں اور تمہاری لونڈیوں میں سے ‘ اگر وہ محتاج ہوں گے (تو)اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔‘‘ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے ‘فقیری اور معاشی تنگ دستی کے خوف کی وجہ سے نکاح کو ملتوی یا مؤخر کرنا کسی بھی طور پر درست نہیں ہے۔ اسلام کے ابتدائی دور میں لڑکیوں کے نکاح جلدی کر دیے جاتے تھے ‘جس وجہ سے معاشروں میں خیر اور بھلائی کا چلن عام تھا‘ لیکن عصر حاضر میں مردوں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کی تعلیم اور دیگر امور کی وجہ سے نکاحوں میں تاخیر کی جاتی ہے۔ اس تاخیر کی وجہ سے بہت سی برائیاں جنم لیتی ہیں۔ اس لیے نکاح میں بلا وجہ تاخیر سے بچنا چاہیے۔
2۔جہیز: ہمارے معاشرے میں نکاح کی تاخیر کا ایک اور بڑا سبب جہیز کی طلب بھی ہے۔ والد یا لڑکی والے اپنی بہن یا بیٹی کو رضامندی یا خوشی سے بطور تحفہ اگر کوئی چیز دیتے ہیں تو اس میں کوئی حرج اور قباحت والی بات نہیں‘ لیکن اگر لڑکے والے کسی چیز کو زبردستی لڑکی والوں سے طلب کرتے ہیں تو ایسی چیز کو درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نساء کی آیت نمبر 29 میں یہ اعلان فرماتے ہیں: ''اے ایمان والو! تم اپس میں اپنے مال باطل طریقے سے مت کھاؤ‘مگر یہ کہ تجارت ہو باہمی رضا مندی سے تمہاری۔‘‘ ایسا مال‘ جسے دوسرے سے زبردستی حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہو ‘اسے درست مال نہیں کہا جاسکتا اور گداگری اور بھیک مانگنے کی مذمت میں آنے والی احادیث کا اطلاق اس مال پر بھی ہو سکتا ہے۔
3۔ہم پلہ رشتے : ہمارے معاشرے میں نکاح کی تاخیر کی ایک اور وجہ ہم پلہ رشتے کی تلاش میں کیا جانے والا تکلف بھی ہے۔ ایک حدیث پاک میں اس بات کا ذکر ہے '' اگر تمہارے پاس کوئی ایسا شخص آئے ‘جس کا دین اور اخلاق تمہیں پسند ہو تو اس سے (اپنی بہن اور بیٹی کو )بیاہ دو؛ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو زمین پر فتنہ اور بہت بڑا فساد ظاہر ہو جائے گا۔‘‘ ابتدائی عمروں میں جب ہمارے معاشرے میں رشتہ آتا ہے‘ تو اس میں چھوٹے چھوٹے عیب تلاش کیے جاتے ہیں اور عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت سی اہم اور بنیادی باتوں پر بھی سمجھوتہ کر لیا جاتا ہے۔ ابتدائی طور پر ہی اگر نکاح میں دین اور اخلاق کو ترجیح دے دی جائے‘ تو ہمارا معاشرہ بہت سی قباحتوں سے بچ سکتا ہے۔
4۔رشتے کے چناؤ میں دین کی اہمیت:بہو اور داماد کے چناؤ کے حوالے سے بھی اسلام کی تعلیمات بہت واضح ہیں۔ احادیث کے مطالعے اور سماج کا مشاہدہ کرنے کے بعد یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نکاح‘ مال‘ حسب ونسب‘ حسن وجمال اور دین کی بنیاد پر کیا جاتا ہے؛ اگر دین دار لڑکی صاحب جمال بھی ہو تو یہ ایک اضافی فائدے والی بات ہے اور اس کو اہمیت دینے میں کوئی حرج نہیں‘ لیکن اگر صورت اور سیرت کا ٹکراؤ ہو تو انسان کو کبھی بھی صورت کو سیرت پر ترجیح نہیں دینی چاہیے۔ صورت کی چمک دمک عارضی اور سیرت کی چمک دمک دائمی ہوتی ہے؛ چنانچہ جو رشتے سیرت وکردار کی وجہ سے کیے جاتے ہیں ان میں بہت زیادہ پختگی ہوتی ہے اور جو رشتے فقط مال اور ظاہری چمک دمک کی وجہ سے کیے ان کے نتائج اکثر وبیشتر مثبت نہیں نکلتے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آپ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عدم موجودگی میں جب ان کی بیوی سے شکوہ سنا تو آپ نے ان کو اپنے گھر کی دہلیز بدلنے کا‘ یعنی اپنی بیوی کو طلاق دینے کا حکم دیا۔ اس کے بعد حضرت اسماعیل علیہ السلام نے جس عورت سے نکاح کیا تو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عدم موجودگی میں ان کو صابرہ اور شاکرہ پایا تو ان کو گھر کی دہلیز کو مضبوطی کے ساتھ قائم رکھنے کا حکم دیا۔
5۔ولی کی اجازت اور لڑکی کی رضامندی :نکاح میں ولی کی اجازت اور لڑکی کی رضا مندی کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں افراط وتفریط پائی جاتی ہے۔ بعض لوگ فقط ولی کی اجازت ہی کو کافی سمجھتے ‘جبکہ بعض لوگ فقط لڑکی کی رضامندی کو ہی نکاح کے لیے ضروری تصور کرتے ہیں۔ احادیث کے مطالعے اور مشاہدے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کامیاب ازدواجی زندگی کیلئے لڑکی کی رضامندی اور ولی کی اجازت دونوں کا ہونا لازم ہے۔ نہ تو ولی کو لڑکی پر جبر کرنے کی اجازت ہے اور نہ ہی لڑکی کو خود سری کرکے اپنے گھر سے نکلنے کی اجازت ہے؛ اگر اس حوالے سے توازن اختیار کر لیا جائے‘ تو معاشرے میں ناخوش گوار واقعات کو روکا جا سکتا ہے۔
6۔ نکاح میں جلدی: نکاح میں جلدی کرنا ہر اعتبار سے مستحسن عمل ہے۔ بلوغت نکاح کی ضرورت کی نشاندہی کرنے والی فطری علامت ہے۔ہمارے معاشرے میںجو عمر کی حد بندی کی گئی ہے۔ اس پر بھی نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے؛ اگر کوئی والدین اپنے بالغ لڑکے اورلڑکی کا نکاح کرنا چاہتے ہیں‘ تو اس میں عمر کی اضافی قید لگانا محلِ نظر ہے۔
اگر ان تمام اہم امورپر نظر کرلی جائے اور سے متعلقہ تقریبات کو سادگی سے انجام دیا جائے اور تکلفات سے بچ جایا جائے تو نکاح اور بعد میں آنے والی زندگی پر انتہائی خوش گوار اثرات مرتب ہوسکتے ہیںاور نکاح کے بعد آنے والی زندگی میں پیچیدگیوں اور دشواریوں سے بچا جا سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے معاشرے کے سماجی ڈھانچے کو مضبوط فرمائے اور اس حوالے سے پائی جانے والی پیچیدگیوں سے معاشرے کو محفوظ رکھے۔