ہر انسان اس بات کو سمجھتا ہے کہ انسانی صحت پر منفی ماحول‘ ماحولیاتی آلودگی‘ ناقص غذا اور جراثیموں کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار کوئی شخص بھی نہیں کر سکتا۔ اسی طرح بری صحبت‘ غلط پروگرام ‘ دکھوں اور پریشانیوں کے انسانی نفسیات پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ان تمام چیزوں کے منفی اثرات کا انکار کرنا کسی بھی ذی شعور انسان کے لیے ممکن نہیں ۔انسانی صحت اور طبیعت پر جس طرح ان تمام چیزوں کے اثرات مسلّم ہیں اسی طرح گناہوں کے بھی انسانی زندگی پر انتہائی گہرے اثرات ہیں۔ لیکن تاسف کا مقام ہے کہ انسانوں کی اکثریت گناہوں کے منفی اثرات سے بے خبر ہے اور بہت سے انسان گناہوں کے منفی اثرات کو تسلیم کرنے پر آمادہ وتیار نہیں۔ کتاب وسنت سے بھی یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ انسانی زندگی پر گناہوں کے بہت سے منفی اثرات ہوتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ شوریٰ کی آیت نمبر 30 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جو (بھی) تمہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ اسی کی وجہ سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا ‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ روم کی آیت نمبر 41میں اس امر کا اعلان فرمایا: ''فساد ظاہر ہو گیا خشکی اور سمندر میں اس وجہ سے جو کمایا لوگوں کے ہاتھوں نے تاکہ (اللہ) مزہ چکھائے اُنہیں بعض (اس کا) جو انہوں نے عمل کیا تاکہ وہ رجوع کریں (یعنی باز آ جائیں)‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نحل میں ایک بستی کا ذکر کیا جس کو رزق اور امن کی نعمتیں میسر تھیں ‘لیکن جب انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی نافرمانی کی تو نعمتیں چھن گئیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نحل کی آیت نمبر 112میں ارشاد فرماتے ہیں: '' اور بیان کی اللہ نے مثال ایک بستی کی (جو) تھی امن والی اطمینان والی ‘ آتا تھا اس کے پاس اس کا رزق کھلاہر جگہ سے تو اس نے ناشکری کی اللہ کی نعمتوں کی‘ تو چکھایا (پہنایا) اس کو اللہ نے بھوک اور خوف کا لباس اس وجہ سے جو وہ کرتے تھے‘‘۔تمام مذکورہ آیات اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ گناہوں کے انسانی زندگی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور انسان گناہوں کی وجہ سے مختلف طرح کی تکالیف اور پریشانیوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں زندگی گزارنے والے بہت سے نیک لوگ بھی مختلف طرح کی تکالیف میں مبتلا ہوتے ہیں ‘اور انبیاء علیہم السلام بھی مختلف طرح کی تکالیف کا سامنا کرتے رہے۔ لیکن حقیقی بات یہ ہے کہ انبیاء اور صلحاء کی زندگی میں آنے والی تکالیف درحقیقت بطور آزمائش ان کی زندگی میں آتی رہیں۔ ہر دور کے صلحاء بھی مختلف طرح کی آزمائشوں میں مبتلا ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ان آزمائشوںـمیں کامیابی سے ہمکنا ر بھی ہوئے ۔ لیکن انبیاء اور صلحاء کے برعکس لوگوںکی بڑی تعداد درحقیقت گناہوں ہی کی وجہ سے مصیبتوں میں مبتلا ہوتی ہے۔ گناہوں کے اثرات بد کا انسانی زندگی پر مرتب ہونا ایک حقیقت ہے‘ لیکن انسانوں کی بہت بڑی تعداد اس سے غافل ہے۔ اگر انسان کو یہ بات سمجھ میں آجائے کہ اس کی زندگی میں آنے والی بہت سی تکالیف کا تعلق درحقیقت اس کے گناہوں کے ساتھ ہے تو وہ ان گناہوں سے نجات حاصل کرنے کی بھی کوشش کر سکتا ہے۔
کتاب وسنت کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ مختلف تدابیر کو اختیار کرکے انسان اپنی گناہوں سے تلافی کر سکتا ہے ۔ جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
1۔ توبہ: جب انسان کسی گناہ کا رتکاب کرتا ہے اور اس کے بعد اپنے گناہوں سے نادم ہو کر اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں آکر توبہ کرتا ہے یعنی اس کی طرف پلٹتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی خطاؤں کو معاف کر دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ فرقان میں شرک‘ قتل اور زنا کا ذکر کیا اس کے بعد اس بات کا ذکر کیا کہ جو لوگ ایمان ‘ عمل صالح اور توبہ کے راستے کو اختیار کریں گے اللہ تبارک وتعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف ہی نہیں کریں گے بلکہ نیکیوں سے تبدیل فرما دیں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ فرقان کی آیت نمبر68سے 71 میں ارشاد فرماتے ہیں: '' اور وہ لوگ جو نہیں پکارتے اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو اور نہ وہ قتل کرتے ہیں اس جان کو جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ اور نہ وہ زنا کرتے ہیں اور جو یہ (کام) کرے گا وہ ملے گا سخت گناہ (کی سزا) کو ۔ دگنا کیا جائے گا اس کے لیے عذاب قیامت کے دن اور وہ ہمیشہ اس میں ذلیل ہو کر رہے گا۔ مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور عمل کیا نیک عمل تو یہی لوگ ہیں (کہ) بدل دے گا اللہ ان کے گناہوں کو نیکیوں سے اور اللہ بہت بخشنے والا بہت رحم والا ہے۔ اور جو توبہ کرے اور نیک عمل کرے توبے شک وہ رجوع کرتا اللہ کی طرف۔‘‘
2۔ قرآن مجید پر ایمان : قرآن مجیدکے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اگر قرآن مجید پر انسان کا ایمان مضبوط ہو تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی خطاؤں کو معاف کر دیتے ہیں۔ سورہ محمد کی آیت نمبر 2میں ارشاد ہوا: '' اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے اور وہ ایمان لائے اس (قرآن) پر جو نازل کیا گیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور وہی حق ہے ان کے رب کی طرف سے (اللہ نے) دور کردیں ان سے ان کی برائیاں اور ان کے حال کی اصلاح کر دی‘‘۔قرآن مجید پر ایمان کا تقاضا یہ بھی ہے کہ انسان اس کی آیات کی تلاوت کرتا رہے ۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 121میں اس بات کا اعلا ن فرماتے ہیں: ''وہ لوگ جنہیں ہم نے دی کتاب وہ اس کی تلاوت کرتے ہیں جو اس کی تلاوت کرنے کا حق ہے وہ لوگ ایمان لاتے ہیں اس (قرآن) پر اور جو انکار کرتا ہے اس (قرآن) کا تو وہی لوگ ہی نقصان اُٹھانے والے ہیں ‘‘۔
3۔ نبی کریم ﷺ کی اتباع: قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نبی کریمﷺ کی اتباع سے بھی انسان کے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت نمبر31 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''آپ کہہ دیں اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا اور وہ معاف کر دے گا تمہارے لیے تمہارے گناہ اور اللہ بہت بخشنے والا بہت مہربان ہے‘‘۔
4۔ تقویٰ: اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے یعنی اللہ سے ڈرنے یا گناہوں سے اجتناب کرنے سے انسان کے گناہ معاف ہوتے ہیں ۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ طلاق کی آیت نمبر 5 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جو اللہ سے ڈرے گا (تو) وہ دور کر دے گا اُس سے اُس کی برائیاں اور وہ زیادہ دے گا اُس کو اجر‘‘۔
5۔ استغار: توبہ کے ساتھ ساتھ استغفار یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ سے مغفرت طلب کرنے سے بھی انسان کی خطائیں معاف ہوتی ہیں؛چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نساء کی آیت نمبر 110میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جو کر لے کوئی برائی یا ظلم کر لے اپنے نفس پر پھر بخشش مانگے اللہ سے وہ پائے گا اللہ کو بخشنے والا‘ رحم کرنے والا‘‘۔
6۔ سچی اور سیدھی بات: سچی اور سیدھی بات کہنے سے بھی انسان کے گناہ معاف ہوتے ہیں ۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ احزاب کی آیت نمبر70،71 میں ارشاد فرماتے ہیں : ''اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور بالکل سیدھی بات کہو وہ درست کر دے گا تمہارے لیے تمہارے اعمال اور وہ بخش دے گا تمہارے لیے تمہارے گناہ اور جوکوئی اطاعت کرے اللہ اور اُس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)کی تو یقینا اُس نے بہت بڑی کامیابی حاصل کی‘‘۔
7۔ رمضان کے روزے: رمضان کے روزوں سے بھی انسان کے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ چنانچہ حدیث پاک میں ارشاد ہوا ''جو ایمان اور ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے گا اس کے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے‘‘۔
8۔ لیلۃ القدر کا قیام: لیلۃ القدر کے قیام سے بھی انسان کے سابقہ گناہ معاف ہوتے ہیں۔ چنانچہ حدیث پاک میں ارشاد ہوا: ''جو لیلۃ القدر کا قیام ثواب کی نیت سے کرے گا اس کے سابقہ گناہ معاف ہو جائیں گے۔
9۔ حج مبرور : سنت طریقے سے حج کرنے سے بھی انسان کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور انسان اس طرح ہو جاتا ہے جس طرح آج ہی اپنی ماں کے گھر پیدا ہوا ہو۔
اگر ان تمام تدابیر پر عمل کر لیا جائے تو انسان کے گناہ معاف ہو جائیں گے اور انسان گناہوں کے برے اثرات سے محفوظ ہو سکتا ہے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو گناہوں کے منفی اثرات سے محفوظ فرمائے۔ آـمین ثم آمین