"AIZ" (space) message & send to 7575

دو بڑے فتنے

قرآن مجید کی سورہ آل عمران کی آیت نمبر میں 14اللہ تبارک وتعالیٰ ارشادفرماتے ہیں : ''مزین کر دی گئی لوگوں کیلئے خواہشات نفس سے محبت (مثلاً) عورتوں سے اور بیٹوں اور جمع کیے ہوئے خزانوں سے سونے اور چاندی اور نشان زدہ گھوڑوں سے اور چوپاؤں اور کھیتی سے یہ (سب کچھ) دنیوی زندگی کا سامان ہے اور اللہ اس کے پاس بہترین ٹھکانہ ہے۔‘‘ اس آیات مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے دل میں عورت اور مال کی بہت زیادہ محبت ہے‘ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ عادیات کی آیت 8نمبر میں ارشاد فرماتے ہیں:''اور بے شک وہ مال کی محبت میں یقینا بہت سخت ہے۔ ‘‘ انسانی فطرت میں ودیعت کیے جانے والی محبت کا نتیجہ یہ ہے کہ بالعموم انسان مال اور عورت کو پانے کی ہر ممکن جستجو کرتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کو مال اور عورت تک رسائی دینے کے جو طریقہ رکھا ہے ‘وہ نکاح اور حلال کمائی ہے۔ نکاح کے بغیر عورت تک رسائی حاصل کرنے کا کوئی بھی طریقہ مذہب اور انسانی سماج کی نظروں میں ناقابل قبول ہے‘ اسی طرح مال کو غلط طریقے سے کمانے کی کسی بھی کوشش کو اسلام پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام اللہ میں بہت سی مغضوب اقوام کا ذکر کیا‘ جن میں سے قوم لوط اور قوم مدین کے لوگ جنسی بے راہ روی اور مالی بدعنوانی کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ کے عذاب کا نشانہ بنے۔ قوم سدوم کے لوگ ہم جنسی پرستی کی عادت میں مبتلا تھے۔ حضرت لوط علیہ السلام ان کو اس فعل قبیح سے باز آنے کی تلقین کرتے رہے‘ لیکن وہ لوط علیہ السلام کی نصیحتوں کو ماننے پر آمادہ نہ ہوئے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت لوط علیہ السلام اور ان کے قوم کے واقعہ کو قرآن مجید میں کئی مقام پر بیان کیا‘ جن میں سے سورہ ہود کا مقام درج ذیل ہے :
''اور جب آئے ہمارے قاصد(فرشتے) لوط کے پاس وہ مغموم ہوئے ان کی وجہ سے اور تنگ ہوئے‘ ان کی وجہ سے دل میںاور کہا یہ دن بہت سخت ہے اور آئے اس کے پاس ‘اس کی قوم (کے لوگ) (گویا کہ) وہ سختی سے ہانکے جار ہے تھے‘ اس کی طرف اور پہلے سے ہی وہ برے کام کیا کرتے تھے۔ اس نے کہا: اے میری قوم ! یہ میری بیٹیاں ہیں‘ وہ زیادہ پاکیزہ ہیں؛ تمہارے لیے‘ تو اللہ سے ڈرو اور نہ رسوا کرو ‘مجھے میرے مہمانوں میں۔ کیا نہیں ہے تم میں کوئی بھلا آدمی؟انہوںنے کہا :بلاشبہ یقینا تو جان چکا ہے (کہ) نہیں ہے‘ ہمارے لیے تیری(قوم کی) بیٹیوں میں کوئی حق (رغبت) اور بے شک تو یقینا جانتا ہے‘ جو ہم چاہتے ہیں۔ اس نے کہا: کاش! واقعی ہوتی میرے لیے تمہارے مقابلے کی طاقت یا میں پناہ لیتا کسی مضبوط سہارے کی طرف۔ انہوں نے کہا: اے لوط! بے شک ہم قاصد ہیں‘ تیرے رب کے ہرگز نہیں‘ وہ پہنچ سکیں گے آپ تک‘ سو لے چل اپنے گھر والوں کو رات کے کسی حصے میں اور نہ پیچھے مڑ کر دیکھے تم میں سے کوئی ایک سوائے تیری بیوی کے‘ بے شک یہ (یقینی بات ہے کہ ) پہنچنے والا ہے اسے(وہ عذاب) جو پہنچے گا انہیں۔ بے شک ان کے وعدے کا وقت صبح ہے کیا نہیں ہے صبح بالکل قریب؟ پھر جب آیا ہمارا حکم ہم نے کر دیا اس کے اوپر والے حصے کو اس کے نیچے والا اور ہم نے برسائے اس (بستی) پر پتھر کھنگر (کی قسم) سے تہہ بہ تہہ۔ (جو) نشان زدہ تھے تیرے رب کے ہاں سے اور نہیں وہ (بستی ان) ظالموں سے ہرگز دور۔‘‘
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قوم مدین کا ذکر بھی قرآن مجیدکے متعدد مقامات پر کیا ہے‘ جن میں سے سورہ ہود کا مقام درج ذیل ہیں:
''اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو(بھیجا) انہوں نے کہا: اے میری قوم! (ایک) اللہ کی عبادت کرو۔ نہیںـ ہے تمہارے لیے کوئی معبود‘ اس کے سوا اور نہ کمی کرو ماپ اور تول میں۔ بے شک میں دیکھتاہوں تمہیں اچھے حال میں اور بے شک میں ڈرتا ہوں تم پر گھیر لینے والے دن کے عذاب سے اور اے میری قوم! پورا کرو ماپ اور تول کو انصاف کے ساتھ اور نہ کم دو لوگوں کو ان کی چیزیں اور مت پھر و زمین میں فسادی بن کر۔ اللہ کا باقی بچا ہوا (جائز منافع) بہتر ہے‘ تمہارے لیے اگر تم ایمان لانے والے ہو اور نہیں ہوں میں تم پر ہرگز کوئی نگہبان۔ انہوں نے کہا: اے شعیب! کیا تیری نماز تجھے حکم دیتی ہے کہ ہم چھوڑ دیں (وہ معبود) جن کی عبادت کرتے تھے‘ ہمارے آباء واجداد یا یہ کہ ہم کریں اپنے مالوں میں جو ہم چاہیں۔ بے شک تو یقینا بہت بردبار بڑا سمجھ دار ہے۔ انہوں نے کہا: اے میری قوم! کیا تم نے دیکھا(غور کیا) اگر ہوں ‘میں واضح دلیل پر اپنے رب کی طرف سے اور اس نے مجھے رزق دیا ہو‘ اپنی طرف سے اچھا رزق (اسے چھوڑ کر میں حرام کیوں کھاؤں) اور نہیں میں چاہتا کہ میں تمہارے خلاف (ارتکاب) کروں اس کی طرف جو میں منع کرتا ہوں‘ تمہیں اس سے ‘نہیں میں چاہتا مگر (تمہاری) اصلاح جتنی میں کر سکوں اور نہیں ہے میری توفیق مگر اللہ (کی طرف ) سے‘ اسی پر میں بھروسہ کیا اور اس کی طرف میں رجوع کرتا ہوں اور اے میری قوم! ہرگز نہ اکسائے تمہیں میری مخالفت (اس بات پر ) کہ پہنچے تمہیں (اس عذاب کے ) مثل جو پہنچا قوم نوح یا قوم ہود یا قوم صالح کو اور نہیں ہے قوم لوط تم سے ہرگز کچھ دور اور بخشش طلب کرو‘ اپنے رب سے‘ پھر تم توبہ (رجوع) کرو اسی کی طرف بے شک میرا رب بہت رحم کرنے والا نہایت محبت کرنے والا ہے۔ انہوںنے کہا :اے شعیب! نہیں ہم سمجھتے بہت کچھ (ان باتوں ) سے جو تو کہتا ہے اور بے شک ہم یقینا دیکھتے ہیں تجھے۔ اپنے درمیان کمزور اور اگر نہ ہوتی تیری برادری (تو) ضرور ہم سنگسار کر دیتے تجھے اور نہیں ہے تو ہم پر ہرگز غلبہ پانے والا۔ اس نے کہا: اے میری قوم! کیا میری برادری زیادہ زبردست ہے تم پر اللہ سے ؟اور تم نے کر رکھا ہے اس (اللہ) کو اپنی پیٹھ پیچھے۔ بے شک میرا رب اس کو جو تم عمل کرتے ہو گھیرنے والا ہے اور اے میری قوم ! تم عمل کرو اپنی جگہ پر بے شک میں (بھی) عمل کر رہا ہوں‘ عنقریب تم جان لو گے (اسے) جو (کہ) آتا ہے اس پر (ایسا) عذاب (جو) اسے رسوا کرے گا اور (اسے) جو (کہ) وہ جھوٹا ہے اور تم انتظار کرو بے شک میں (بھی) تمہارے ساتھ انتظار کرنے والا ہوں اور جب آیا ہمارا حکم (عذاب کاتو) ہم نے نجات دی‘ شعیب کو اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے اس کے ساتھ اپنی طرف سے رحمت کے ساتھ اور پکڑ لیا ‘ان لوگوں کو جنہوں نے ظلم کیا چیخ نے تو ہو گئے‘ وہ اپنے گھروں میں۔ اوندھے منہ گرے ہوئے۔ گویا کہ نہیں وہ رہے ان (گھروں) میں خبردار دوری ہے (اہل )مدین کیلئے جیسا کہ دور ہوئے ثمود (رحمت سے)۔ ‘‘
ان واقعات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ جنسی بے راہ روی اور مالی بدعنوانی کو شدید ناپسند کرتے ہیں اور یہ جرائم اللہ تبارک وتعالیٰ کے غضب کو دعوت دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جہاں پر قوم سدوم اور قوم مدین کی گمراہی اوربرے انجام کا ذکر کیا‘وہیں پر کلام حمید اور نبی کریم ﷺ کی احادیث مبارکہ میں مالی اور اخلاقی بدیانتی پر قابو پانے کی کئی تدابیر بتلائی گئیں ہیں؛ اگر ہم معاشرے سے جنسی بے راہ روی کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے بروقت نکاح ‘اختلاط سے پرہیز‘ پردہ داری کو فروغ اور جنسی بے راہ روی کے خاتمے کیلئے تجویز کی گئی‘ شرعی سزاؤں کو دینا ہو گا۔ اس وقت انٹر نیٹ پر مخرب الاخلاق مواد بکثرت پایا جاتا ہے‘ اس کی روک تھام کیلئے بھی حکو مت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ 
مالی کرپشن کے مرتکبین کو بھی قرار واقعی سزائیں ملنی چاہئیں۔ نبی کریم ﷺ کے عہد مبارک میں بنو مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی اور حضرت اسامہ ابن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کی سفارش لے کر بارگاہ رسالت مآبﷺ میں تشریف لائے‘ تو نبی مہرباں ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں گا۔ہمارے ملک میں مالی کرپشن کے خاتمے کے لیے ایسا نظام ہونا چاہیے کہ کوئی بھی کرپشن کا ارتکاب کرے تو اس کو قرار واقعی سزا ملے‘لیکن ہم اس بات کو محسوس کرسکتے ہیں کہ عام طور اس حوالے سے جانبرداری سے کام لیا جاتا ہے اورسیاسی وا بستگیوں کو اہمیت دی جاتی ہے‘ جبکہ یہ تمام کام میرٹ پر بلاتفریق ہونے چاہئیں۔
دیکھنے میں آیا ہے‘ ان دو فتنوں کا مقابلہ کرنے والا شخص دنیا میں نیک نامی اور عزت کو کماتا ہے‘ جبکہ آخرت میں بھی اس کو اپنے اچھے اعمال کا بدلہ ضرور ملے گا‘ اس لیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ انسانوں کے اچھے اعمال کو ضائع نہیں کرتے ‘بلکہ ان کو ان کے کیے کا بہترین اجر عطا فرماتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے معاشرے کو ان دو فتنوں سے محفوظ ومامون فرمائے۔ (آمین )

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں