سقوط ڈھاکہ برصغیر کی تاریخ کا نہایت المناک سانحہ ہے ۔ سقوط بغداد ‘سقوط بیت المقدس اور سقوط خلافت کے بعد تاریخ اسلام میں کوئی واقعہ اس المیے کی شدت کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔اس سانحے کی کسک تاحال اسلامیان برصغیر اپنے دل کی گہرائیوں میں محسوس کرتے ہیں۔ ہر سال16 دسمبر کو ملک کے طول وعرض میں اس سانحے کے اسباب اور نتائج پر غور وفکر کرنے کے لیے کانفرنسوں اور پروگرامز کا انعقاد بھی کیاجا تا ہے۔سقوط ڈھاکہ کے اسباب کو سمجھنے کے لیے برصغیر کی سیاسی اور نظریاتی تاریخ کوسمجھنے کی ضرورت ہے۔مسلمانانِ برصغیر نے قیام پاکستان کے لیے حضرت قائد اعظم محمد علی جناح‘ علامہ محمد اقبال‘ مولانا ظفر علی خاـں‘ مولانا محمد علی جوہر اور اکابر علمائے اسلام کی زیر قیادت ایک بہت بڑی تحریک کو بپا کیا اور دو قومی نظریے کو اجاگر کیا‘کہ ہندو اور مسلمان برصغیر میں بسنے والی دو علیحدہ علیحدہ اقوام ہیں اور ان اقوام کا فکری ‘نظریاتی اور مذہبی پس منظر ہر اعتبار سے جدا ہے اور اِن کا باہم اکٹھے رہنا مسلمانوں کے سیاسی اور مذہبی استحصال کا باعث بن چکا ہے۔ دو قومی نظریے میں برصغیر کے طول وعرض میں بسنے والے مسلمانوں کی توجہات کو سمیٹ لیا۔
مسلمانان ِ برصغیر نے ہزاروں کی تعداد میں جانی اور مالی قربانیاں دیں‘ اپنے گھروں کو خیرباد کہا‘ بوڑھوں کی داڑھیوں کو لہو میں تربتر کیاگیا‘ ماؤں کے دوپٹوں کو کھینچا گیا‘ بہنوں اور بیٹیوں کی عزتوں کو پامال کیا گیا‘ ان سب قربانیوں کے بعد ہی قیام پاکستان کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوا۔ پاکستان مسلمانوں کا دیس ہے ‘ دو قومی نظریے نے مسلم قومیت کے تصور کو اس انداز میں اجاگر کیا کہ علاقائی‘ لسانی اور صوبائی تعصبات کے اجاگر ہونے کے امکانات تقریباً معدوم ہو گئے۔ لیکن بدنصیبی کی بات یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد بعض ناعاقبت اندیش اور موقع پرست سیاستدانوں نے مذہب اور ریاست کے باہمی تعلق کو درست تصور نہ کیا اور پاکستان کو ایک قومی ریاست کی حیثیت سے چلانے کی کوششیں شروع کر دیں۔ کسی بھی قومی ریاست میں زبان یا نسل کی وحدت کا پایا جانا ضروری ہے‘ جبکہ پاکستان ایک کثیرالقومی ریاست ہے اور اس میں مسلمانوں کے درمیان نکتۂ اتحاد اور اشتراک فقط مسلمانوں کا مذہب ہے۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی وحدانیت ‘ نبی کریم ﷺ کی ختم نبوت ‘ قرآن مجید کے دستور الامر ہونے اور بیت اللہ شریف کی جہت ہونے پر پوری قوم کا یکجا رکھناکچھ مشکل نہیں تھا۔ لیکن بدنصیبی سے اس نظریاتی ریاست میں بعض قوم پرست رہنماؤں نے اپنے سیاسی اہداف کے حصول کے لیے بنگالی‘ غیر بنگالی‘ مشرقی اور مغربی کے نعرے کو فروغ دیا اور ایک ایسا ماحول پیدا کیا جس کے نتیجے میں قوم پرست بنگالیوں کو اس بات کا احساس دلایاگیا کہ متحدہ پاکستان میں ان کے حقوق محفوظ نہیں ہیں۔ اس خلیج کو پاٹنے اور اس اختلاف کو کم کرنے کے لیے ریاستی ‘ سیاسی اور مذہبی سطح پر منظم اور مربوط کوششوں کی ضرورت تھی‘ لیکن دکھ کا مقام یہ ہے کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے سیاسی رہنماؤں نے مشرقی پاکستان میں پیدا ہونے والے احساس محرومی کے ازالے کے لیے مؤثر کردار ادا نہیں کیا۔ بنگالی زبان کو قومی زبان کا درجہ نہ دینے کی بنیاد پر تحریک چلانے والے بنگالی قوم پرست چھوٹی چھوٹی رنجشوں اور غلط فہمیوں کو ہوا دینے میں کامیاب ہوتے چلے گئے اور اس تاثر کو اس وقت بہت زیادہ تقویت ملی جس وقت 1970 ء کو عوامی لیگ بھاری اکثریت سے جیت گئی لیکن ان کو اقتدار منتقل کرنے کی بجائے بعض عناصر نے اقتدار پر براجمان ہونے کے لیے اِدھر ہم اور اُدھرتم کے نعرے کولگایا جس کی وجہ سے بنگال میں ایک علیحدہ وطن کے حصول کے لیے ایک منظم تحریک کو چلانے کی راہیں ہموار ہو گئیں۔اس نازک صورتحال کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے دشمنوں نے اس تحریک کی مکمل پشت پناہی کی۔
چونکہ ہندوستان پاکستان کے وجود کو کسی بھی طور پر گوارا کرنے کے لیے تیار نہ تھا اس لیے اس نے بھی اس موقع کا بھرپورطریقے سے فائدہ اُٹھایا اور سیاسی محرومی کے نتیجے میںپیدا ہونے والی قوم پرستی کے جذبات کو بھرپور انداز میں بھڑکایا اور علیحدہ وطن کے لیے چلنے والی اس تحریک کوکامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے حالات کو سازگار دیکھتے ہوئے ہندوستان نے باقاعدہ طور پر فوجی مداخلت بھی کی۔ اس فوجی مداخلت کی روک تھام کے لیے پاکستان نے اپنی بساط کے مطابق روکنے کے لیے بھرپورکردار ادا کرنے کی کوشش کی لیکن یہ کوشش بنگالی عوام کی تائید نہ ہونے کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکی۔ بنگال میں بسنے والے مذہبی رہنما اور مغربی پاکستان کی مذہبی جماعتوں نے ا س موقع پر وطن کو متحد رکھنے کی عوامی سطح پر پوری کوشش کی‘ لیکن قوم پرست طاقتیں اور ان کی بھڑکائی ہوئی آگ مذہبی جذبات اور کوششوں پرغالب آگئیں اور پاکستان دولخت ہو گیا۔ بعدازاں بنگلہ دیش ایک خود مختار ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ابھر آیا۔ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد شملہ معاہدے میں بھارت‘ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان یہ بات طے کر لی گئی تھی کہ سقوط ڈھاکہ کے دوران ہونے والے واقعات کو نظر انداز کرکے ایک دوسرے کے وجود کو قبول کیا جائے گا۔ لیکن 47 برس کا عرصہ گزر جانے کے باوجودپاکستان کے ہمنوا مذہبی رہنماؤں کو تاحال انتقام کا نشانہ بنایاجا رہا ہے۔ پروفیسر مطیع الرحمن نظامی‘ پروفیسر اعظم‘ ملاعبدالقادر اور جماعت اسلامی کے بہت سے نمایاں رہنماحسینہ واجد کے ظلم‘ تشدد اور انتقام کا نشانہ بن چکے ہیں اور آج تک بھی پاکستان اور دو قومی نظریے سے وابستگی رکھنے والے رہنماؤں کے لیے معافی کی کوئی گنجائش موجود نہیں اور آئے دن ان کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کرکے ان کے خلاف ذہنی طور پر اذیتیں اور تکالیف دی جاتی ہیں۔
سقوط ڈھاکہ کا سانحہ اپنی جگہ پرانتہائی کربناک اور المناک ہے۔ لیکن یہ دکھ اور تاسف کا مقام ہے کہ ہم نے تاحال سقوط ڈھاکہ کے سانحے سے وہ سبق حاصل نہیں کیا جس کو حاصل کرنے کی ضرورت تھی۔ آج بھی پاکستان کو ایک نظریاتی ریاست کی بجائے ایک قومی ریاست کے طور پر چلانے کی باتیں کی جاتیں ہیں۔ اگر ہم اپنے باقی وطن کو متحد رکھنا چاہتے ہیں اور لسانی اور صوبائی تعصبات پر قابو پانا چاہتے ہیں تو ہمارا مذہب قومی اتحاد اور جڑاؤ میں نمایاں کردار ادا کرسکتا ہے۔ اسی طرح دیکھنے میں آیا ہے کہ پاکستان نے 1970ء کے سیاسی معاملات سے بھی سبق حاصل نہیں کیا اور تاحال پاکستان میں انتخابی عمل کو اس انداز میں شفاف نہیں بنایا جا سکا۔ جس کی توقع سقوط ڈھاکہ کے بعد کی جا رہی تھی اور ملک میں 1977ء اور اس کے بعد بھی انتخابی دھاندلیوں کے الزامات سننے کو ملتے رہتے ہیں۔
ہمارا وطن ہمارے لیے ایک اثاثے کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کی آزادی اور استحکام کے ساتھ ہی ہم سب کی بقا اور ترقی وابستہ ہے۔ اگر ہم اس کو حقیقی معنوں میں ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال کے تصورات سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے اوراِس کو ان کے تصورات کے مطابق ایک اسلامی فلاحی ریاست میں تبدیل کرنے کے لیے ہمیں من حیث القوم اپنی توانائیوں کو صرف کرنا چاہیے ۔ وزیر اعظم عمران خان نے مدینہ جیسی ریاست کا نعرہ لگایا ہے ‘لیکن اس حوالے سے خاطر خواہ پیش قدمی نہیں ہو سکی۔ اگر ہم پاکستان کو حقیقی معنوں میں مدینہ جیسی یا اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے سود ‘ جسم فروشی کے اڈے ‘ منشیات فروشی اور شراب نوشی جیسی قباحتوںکا خاتمہ کرنا پڑے گا۔
یہ مقامِ تاسف ہے کہ حال ہی میں ایک ہندو رکن اسمبلی نے شراب نوشی پر پابندی کے حوالے سے ایک بل پیش کیا‘ لیکن اس پر ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے منفی ردّ عمل کا مظاہرکیا‘ جس کی وجہ سے ملک بھر میں اضطراب اور بے چینی کی کیفیت پیدا ہوئی ہے۔ ان منفی رجحانات کے باوجود تاحال مایوسی سے باہر نکلنے اور اپنے اہداف کو حاصل کرنے کے امکانات بہرحال موجود ہیں۔اس موقع پر ملک کی تمام مذہبی اور نظریاتی قوتوں کو متحد اورمنظم ہو کر اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنا چاہیے اور پاکستان کو ایک طاقتور اور توانا ریاست بنانے ‘اس کے نظریاتی تشخص کو اجاگر کرنے اور قومی وحدت کو یقینی بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔