انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بہت سی صلاحیتوں سے نوازا ہے‘ جن میں سے ایک مستقبل کے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے منصوبہ بندی کی صلاحیت ہے۔ اس صلاحیت کی وجہ سے انسان نے موسمی تغیرات‘ ماحولیاتی آلودگیوں‘ قسم ہا قسم کے جراثیموں اور مختلف قسم کی بیماریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بہت سی احتیاطی تدابیر کو وضع اور اختیار کیا ہے۔ اس صلاحیت کی وجہ سے انسانی معاشروں کو بہت سے فوائد بھی حاصل ہوئے ہیں اور انسان کی زندگی میں آسودگی اور سہولیات کے مختلف مواقع اور امکانات بھی پیدا ہوئے ہیں‘ لیکن یہ مقام تاسف ہے کہ وہی انسان‘ جو ممکنہ خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے بڑی منظم منصوبہ بندی کرتا ہے‘ وہ اپنی اخروی زندگی کے حوالے سے نہ جانے کیوں غفلت کا شکار ہے۔
موت وہ واحد حقیقت ہے‘ جس پر تمام مذاہب کے پیروکاروں کا اتفاق ہے‘ لیکن اس کے باوجود نجانے انسان موت کیوں فراموش کر دیتا ہے اور اس کے ذہن میں یہ بدگمانی کیوں موجود ہے کہ وہ مرجانے کے بعد مٹی کے ساتھ مل کر مٹی ہو جائے گا اور اس کو دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام حمید میں انسان کے ذہن میں پیدا ہونے والے ان اشکالات کا جواب بہت خوبصورت انداز میں دیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ مومنون کی آیت نمبر 115,116 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''تو کیا تم نے سمجھ لیا کہ بے شک ہم نے تمہیں بے مقصد (ہی) پیدا کیا اور یہ کہ بے شک تم ہماری طرف تم نہیں لوٹائے جاؤ گے۔ پس بہت بلند ہے اللہ (جو) حقیقی بادشاہ ہے۔نہیں ہے ‘کوئی معبود مگر وہی رب ہے عزت والے عرش کا ۔‘‘اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ یٰسین کی آیت نمبر 77 سے 79میں ارشاد فرمایا:''اور (بھلا) کیا انسان نے نہیں دیکھا (غور کیا) کے بے شک ہم نے اسے پیدا کیا ہے ایک قطرے سے‘ تو اچانک وہ صریح جھگڑالو (بن بیٹھا) ہے اور اس نے ہمارے لیے مثال بیان کی اور اپنی (اصل) پیدائش کو وہ بھول گیا۔ اس نے کہا (کہ) کون زندہ کرے گا‘ ہڈیوں کو جب کہ وہ بوسیدہ ہو چکی ہوں گی۔ آپ کہہ دیجئے (کہ) زندہ کرے گا ان کو (وہی اللہ) جس نے پیدا کیا انہیں پہلی مرتبہ اور وہ ہرطرح کی پیدائش کو خوب جاننے والا ہے۔‘‘
اسی حقیقت کو اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر49 سے 51 میں یوں بیان فرماتے ہیں: '' اور انہوں نے کہا کیا جب ہم ہو جائیں گے ہڈیاں اور ریزہ ریزہ (تو) کیا بے شک ہم واقعی اُٹھائے جانے والے ہیں نئے سرے سے پیدا کرکے۔ کہہ دیجئے تم ہو جاؤ پتھر یا لوہا یا کوئی مخلوق (اور) مخلوق اس میںسے جو بڑی معلوم ہو‘ تمہارے سینوں میں ‘ پس عنقریب وہ کہیں گے کون دوبارہ لوٹائے گا ہمیں ‘ کہہ دیجئے (وہ) جس نے پیدا کیا تمہیں پہلی مرتبہ پس عنقریب وہ ہلائیں گے‘ آپ کی طرف اپنے سروں کو اور وہ کہیں گے کب ہو گا وہ۔ کہہ دیجئے ہو سکتا ہے کہ وہ قریب ہو۔‘‘
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ قیامۃ کی آیت نمبر3,4میں بھی انسان کی اس کج روی کا ذکر کیا کہ وہ اس بات کا شک کرتا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اُس کی ہڈیوں کو کیونکر جمع کرے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کی اس غلط فکر کا جواب نہایت خوبصورت انداز میں دیتے ہیں۔ '' کیا گمان کرتا ہے انسان یہ کہ ہر گز نہیں ہم جمع کریں گے‘ اس کی ہڈیاں ۔ ہاں کیوں نہیں (ہم تو) قدرت رکھنے والے ہیں (اس) پر کہ ہم درست کر دیں‘ اس کے بور بور کو ۔‘‘
مذکورہ بالا آیات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ جو ہر چیز پر قادر ہیں اور ہر مخلوق کو بنانے والے ہیں ان کے لیے انسانوں کو دوبارہ پیدا کرنا کچھ مشکل نہیں؛ چنانچہ انسان کو اپنی آخروی زندگی کے بارے میں فکر مند رہنا چاہیے اور اس کے حوالے سے اپنی تیاریوں کو مکمل رکھنا چاہیے۔ دنیا میں جب بھی کسی مقام پر کوئی قدرتی آفت زلزلہ‘ سیلاب یا آتش زدگی کا واقعہ ہوتا ہے تو انسان اس کے مقابلے میں انتہائی بے بس اور کمزور نظر آتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ قدرتی آفات‘ جن کے مقابلے میں انسان کی ذہنی ‘ طبعی یا جسمانی صلاحیتیں ماند پڑ جاتی ہیں اور انسان ان کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے۔ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ قائم کردہ قیامت کا مقابلہ کیسے کر پائے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کے مختلف مقامات پر قیامت کی ہولناکیوں کا بہت ہی پر اثر نقشہ کھینچا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ تکویر کی آیت نمبر 1 سے 13میں ارشاد فرماتے ہیں : '' جب سورج لپیٹ دیا جائے گااور جب ستارے بے نور ہوجائیں گے اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے اور جب دس ماہ کی حاملہ اونٹنیاں بے کار چھوڑ دی جائیں گی اور جب جنگلی جانور اکٹھے کیے جائیں گے اور جب سمندر بھڑکائے جائیں گے اور جب روحیں (بدنوں سے) ملا دی جائیں گی اور جب زندہ دفن کی گئی (لڑکی) سے پوچھا جائے گا (کہ) کس گناہ کے بدلے وہ قتل کی گئی اور جب اعمال نامے پھیلائے (کھولے) جائیں گے اور جب آسمان کی کھال اُتار دی جائے گی اور جب جہنم بھڑکائی جائے گی اور جب جنت قریب لائی جائے گی ۔‘‘
اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ انفطار کی آیت نمبر1 سے5 میں فرماتے ہیں: ''جب آسمان پھٹ جائے گا اور جب تارے بکھر جائیں گے‘ اور جب سمند پھاڑ دیے جائیں گے اور جب قبریں اُلٹ جائیں گی‘ جان لے گی ‘ہر جان جو اُس نے آگے بھیجا اور (جو) پیچھے چھوڑا۔ ‘‘
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ انشقاق کی آیت نمبر 1 سے 5میں قیامت کی ہولناکیوں کی یوں منظر کشی کی : '' جب آسمان پھٹ جائے گا اور وہ کان لگائے گا اپنے رب (کے حکم) پر اور (یہی) اس کا حق ہے اور جب زمین پھیلا دی جائے گی اور (باہر) پھینک دے گی ‘جو کچھ اس میں ہے اور وہ خالی ہو جائے گی اور وہ کان لگائے گی‘ اپنے رب (کے حکم) پر اور اس کا حق بھی (یہی) ہے۔‘‘سورہ قارعۃ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے قیامت کی ساعتوں کا منظر یوں بیان فرمایا :کھٹکھٹانے والی۔ کیا ہے کھٹکھٹانے والی اور آپ کیا جانیں کیا ہے کھٹکھٹانے والی۔ اس دن لوگ پروانوں کی طرح بکھرے ہوئے ہوں گے اور پہاڑ دُھنکی ہوئی رنگین اون کی طرح ہوں گے ۔ پس رہا وہ جو (کہ) بھاری ہو گئے‘ اس کے پلڑے۔ تو وہ پسندیدہ زندگی میں ہو گا اور رہا وہ جو (کہ) ہلکے ہو گئے اس کے پلڑے۔ تو اس کا ٹھکانا ہاویہ ہے۔ اور آپ کیا جانیں‘ وہ (ہاویہ) کیا ہے۔ دہکتی ہوئی آگ ہے ۔‘‘
سورہ حج کی آیت نمبر1 اور2میں اللہ تبارک وتعالیٰ قیامت کی ہولناکیوں کا ذکر یوں فرماتے ہیں : ''اے لوگو! ڈرو‘ اپنے رب سے۔ بے شک قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے۔ جس دن تم دیکھو گے‘ اسے غافل ہو جائے گی‘ ہر دودھ پلانے والی اس سے جسے اس نے دودھ پلایا۔ اور گرا دے گی ہر حمل والی اپنا حمل اور آپ دیکھیں گے‘ لوگوں کو مدہوشی میں؛ حالانکہ نہیں ہوں گے‘ وہ ہرگز مدہوش اور لیکن اللہ کا عذاب بہت سخت ہے۔‘‘
قیامت کی ان گھڑیوں کے دوران انسان کے کام نہ تو اس کے والدین آئیں اور نہ ہی بیوی بچے‘ بلکہ اس دن ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہو گا اور ہر جان کو اپنے بچاؤ سے غرض ہو گی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس منظر کا نقشہ سورہ عبس کی آیت نمبر 33 سے 42 تک میں یوں کھینچتے ہیں : ''پھر جب آ جائیگی کان بہرہ کردینے والی(قیامت) اس دن بھاگے گا آدمی اپنے بھائی سے اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے اور اپنی بیوی اور اپنے بیٹوں سے۔ اُن میں سے ہر شخص کے لیے‘ اُس دن ایک (ایسی) حالت ہوگی (جو دوسروں سے) بے پروا کر دے گی اسے۔ کچھ چہرے اس دن چمکنے والے ہوں گے ۔ ہنسنے والے بہت خوش (ہوں گے) اور کچھ چہرے اس دن ان پر غبار ہو گا۔ ڈھانپتی ہو گی ان کو سیاہی ۔ وہ لوگ ہی کافر (اور) نافرمان ہیں۔ ‘‘
ان آیات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ قیامت کے دن جو انسان آگ سے بچ کر جنت میں داخل ہو گیا‘ حقیقی فلاح اور کامیابی اسی کو حاصل ہو گی۔ اس حقیقت کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ آل عمران کی آیت نمبر185 میں یوں بیان فرمایا : ''ہر شخص کو موت کا مزہ چھکنا ہے اور بے شک تمہیں پورا پورا دیا جائے گا‘ تمہارے اعمال کا بدلہ قیامت کے دن۔ پس‘ جو بچالیا گیا (جہنم کی) آگ سے اور وہ داخل کر دیا گیا‘ جنت میں تو یقینا وہ کامیاب ہو گیا اورنہیں‘ دنیاوی زندگی‘ مگر دھوکے کا سامان ۔ ‘‘
یہ آیات انسان کو سمجھاتی ہیں کہ انسان کو جہاں پر مستقبل قریب کے بحرانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے حکمت عملی کو اختیار کرنا چاہیے‘ وہیں پر قیامت کے دن اور بعد میں آنے والی زندگی کے حوالے سے بھی ابھی سے تیاریاں کرنی چاہئیں‘ جو لوگ اُس زندگی کے لیے دنیا میں تیاری کریں گے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے احکامات کی تعمیل کریں گے‘ یقینا وہ کامیاب اور کامران رہیں گے اور اس کے مدمقابل وہ لوگ‘ جو اس دن کو نظر انداز کر دیں گے اور اپنی خواہشات کو حرف آخر سمجھ لیں گے‘ اس دن وہ لوگ ناکام اور نامراد ہو جائیں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو آخروی زندگی کے لیے تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین