زندہ ضمیر انسان ‘کبھی اپنے محسن کو فراموش نہیں کرتا۔ اسی طرح زندہ قومیں کبھی ان قائدین اور رہنماؤں کو نہیں بلا سکتیں جنہوں نے ان کی مذہبی‘ سیاسی ‘ سماجی زندگی کی تعمیر وترقی میں نمایاں کردار ادا کیا ہو۔ بحیثیت ِمسلمان ہم سب اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ محسن انسانیت ہیں اور اُن کے ہم پر بے شمار احسانات ہیں ‘جن کا بدلہ ہم ساری زندگی کوشش کے باوجود بھی نہیں چکا سکتے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی دین کی نشرواشاعت کے لیے انگنت اور بے مثال قربانیاں دیں۔تمام مسلمان ہمہ وقت ان قربانیوں کو تسلیم کرتے اور سراہتے رہتے ہیں۔ محدثین کرام اور آئمہ دین نے دین کی تدوین اور فقہ کی ترتیب کے لیے شبانہ روز محنتیںکیں‘ جس کی وجہ سے آج کتاب وسنت کی معرفت حاصل کرنا ہمارے لیے چنداں مشکل نہیں۔ گھریلو سطح پر ہمارے والدین بھی ہمارے محسن ہیں اور ہمیں کسی بھی موقع پر ان کی خدمات اور قربانیوں کو نظر انداز نہیں کرناچاہیے۔
قوموں کی زندگی میں بھی ایسے رہنما آتے رہتے ہیں کہ جن کی خدمات کو سنہرے حروف کے ساتھ لکھنا چاہیے۔ بانی ٔپاکستان کا شمار بھی انہی ہستیوں میں ہوتا ہے کہ آپ نے برصغیر کے مسلمانوں کی اس وقت رہنمائی کی‘ جب انگریزی استحصال اپنے پورے عروج پر تھا۔ انگریز سامراج کے چلے جانے کے بعد مسلمانوں کے ہندوؤں کی مکاری اور جبر کے زیر اثر آنے کے قوی امکانات موجود تھے۔ قائد اعظم اور علامہ اقبالؔ نے ایسے عالم میں قوم کی نظریاتی ‘ فکری اور سیاسی رہنمائی کی اور انہیں اپنے مذہب کی بنیاد پر بحیثیت قوم اس انداز میں مجتمع کیا کہ انگریز اور ہندوؤں کے نہ چاہنے کے باوجود بھی پاکستان دنیا کے نقشے پر سب سے بڑی اسلامی ریاست بن کر ابھر آیا۔ قائد اعظم نے اس مقصد کے حصول کے لیے ایک طویل جدوجہد کی اور مسلم لیگ کو مسلمانوں کی نمائندہ جماعت کے طور پر برصغیر کے طول وعرض میں منظم کیا۔ تحریک پاکستان کے اس طویل سفر کے دوران کئی نشیب وفراز آئے اور کئی مرتبہ حوصلوں اور اُمیدوں پر یاسیت اور دباؤکے اندھیروں کا تسلط ہوتا ہوا نظر آیا‘ لیکن حضرت محمد علی جناح نے اپنے عزم اور ہمت کے ذریعے تمام بحرانوں پر بڑے ہی خوبصورت انداز میں قابوپایا۔ آپ نے اپنے رفقاء کے ہمراہ دو قومی نظریے کی اہمیت اور افادیت کو اجاگر کیا اور پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست کی حیثیت سے منظر عام پر لانے کے لیے بڑے بھرپور انداز میں جدوجہد کی۔
آج پاکستان‘ جس سیاسی بحران سے دو چار ہے‘ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کے قیام کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ سکے‘ نتیجتاً قیادت کا بڑا بحران سامنے آیا ‘جو تاحال پُر نہیں ہوسکا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی تقاریر کو سننے کے بعد ہر باشعور انسان اس بات کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ ان کے پیش نظر کوئی قومی یا لا دین ریاست نہ تھی ‘بلکہ وہ ایک ایسی نظریاتی ریاست کا قیام چاہتے تھے‘ جس میں قرآن مجید کے مسلّمہ اصولوں اور نبی مہرباں حضرت محمدﷺ کی سیرت اور سنت ِمطہرہ کو لاگوکیا جا سکے؛ اگر پاکستان قائد اعظم کے خطوط پر ہی رہتا‘ تو پاکستان کی سمت کے حوالے سے پائے جانے والے اشکالات باقی نہ رہتے اور نہ ہی بانت بانت کی بولیاں سننے کو ملتیں۔ قائد اعظــم نے جہاں پر اسلامی فلاحی ریاست کا تصور بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا‘ وہیں پر ''اتحاد‘ ایمان اور تنظیم ‘‘کی شکل میں قوم کی تعمیر اور ترقی کے لیے جو لائحہ عمل پیش کیا‘ درحقیقت اسی لائحہ عمل پر چل کر ہی پاکستان صحیح معنوںمیں ایک ترقی یافتہ ریاست کی حیثیت سے اپنا آپ منوا سکتا ہے۔
قوموں کی تعمیرو ترقی میں اتحاد کی اہمیت کوکسی بھی طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا‘ جوقوم فرقہ واریت لسانی تعصبات ‘ پارٹی بازی اور برادر ی ازم کاشکار ہو وہ قوم کبھی بھی داخلی اورخارجی چینلجز کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نساء کی آیت نمبر 103میں ارشاد فرمایا : ''اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑو۔‘‘ لیکن یہ تاسف کا مقام ہے کہ پاکستان ‘قائدا عظم کی وفات کے بعد مختلف طرح کے تعصبات کا شکار ہوتا چلا گیا۔ بنگالی‘ غیر بنگالی اور مشرقی اور مغربی کے نعروں کی وجہ سے بدنصیبی سے پاکستان دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا۔ باقی ماندہ پاکستان کی تعمیر وترقی کے لیے بھی پاکستان کا متحدرہنا اور اللہ تبارک وتعالیٰ کو اپنا پروردگار ‘کتاب اللہ کو دستو ر العمل ‘نبی مہرباں حضرت محمدﷺ کو آخری نبی اور قبلے کو اپنی جہت سمجھتے ہوئے ؛ اگر پوری قوم متحد ہو جائے اور آپس کے فروعی سیاسی اختلافات اور لسانی تعصبات کو نظر انداز کر دیا جائے ‘تو یقینا پاکستان آنے والی دہائیوں میں دنیا میں ایک ترقی یافتہ اور مستحکم مملکت کی حیثیت سے سامنے آسکتا ہے۔
ایمان کی قوموں کی زندگی میںبہت زیادہ اہمیت ہے ۔ ایمان ایک ایسی کیفیت وقوت کا نام ہے‘ جو انسانی زندگی کے اندھیروں کو دُور کر دیتی اور اس کو ایسے جذبوں اور ولوں سے آشنا کرتی ہے کہ جن کی بنیاد پر نفاق اور کفر کی تمام قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ نفسِ انسانی میں درحقیقت اتنی صلاحیت اور قوت موجود نہیں ہے کہ وہ زندگی کے تمام نشیب وفراز‘ اُتار اور چڑھاؤ ‘ پریشانیوں اور تکالیف اور مخالفتوں کا تنہا مقابلہ کر سکے۔ ان تمام بحرانوں کا مقابلہ ایمانی قوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ایمان ہی کی قوت تھی کہ جس نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کفار مکہ کے ظلم وستم سہنے کے قابل بنایا اور ہجرت مدینہ کے بعد ان کو ـمختلف جنگوں میں کافروں کی یلغار کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی استعداد عطا کی۔ اسی ایمان کی طاقت کی وجہ سے اہل ایمان کو قیصروکسریٰ کی مضبوط سلطنتوں کو پاش پاش کرنے کی صلاحیت حاصل ہوئی۔ ایمان کی دولت یقینی معنوں میں سے بڑی دولت ہے اور اگر ایمان نہ ہو تو دنیا کی تمام نعمتیں بے معنی اور بلامقصد ہیں۔ فرعون صاحب ِ اقتدار‘ ہامان صاحبِ منصب‘ قارون صاحبِ سرمایہ ‘شداد صاحب ِجاگیر اور ابو لہب صاحب ِ قبیلہ ہونے کے باوجود اس لیے ناکام اور نامراد ٹھہرے کہ وہ ایمان کی نعمت سے محروم تھے اور ان کے مدمقابل غربت اور مفلوک الحالی کے باوجود حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مقام بلند حاصل ہوا تو ایمان کی دولت کی وجہ سے حاصل ہوا۔ آج اُمت مسلمہ کے بہت سے مسائل کاسبب ایمان کی کمزوری ہے۔ القدس کا سانحہ ہو یابرما میں جلتی ہوئی مسجدیں اور مکانات ہوں یا کشمیر میں ہونے والا ظلم وبربریت ہو‘ درحقیقت ان تمام محاذوں پر‘ اگر آج ہم صحیح لائحہ عمل دینے سے قاصر ہیں‘تو اس کی وجہ یہ ہے کہ آج اُمت مسلمہ ایمان کے نور سے محروم ہے یا ہم ایمانی اعتبار سے شدید کمزوری کاشکار ہیں۔
تنظیم کی بھی قوموں کی زندگی میں بہت زیادہ اہمیت ہے۔ منظم اقوام غیر منظم اور منتشر اقوام پر ہمیشہ غالب رہتی ہیں؛ چنانچہ اس بات کامشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ چند منظم لوگ سینکڑوں منتشر لوگوں پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ قرآن مجید میں جناب طالوت کاواقعہ موجود ہے کہ جس وقت وہ اپنے لشکر کو لے کر نکلے تو انہوں نے راستے میںآنے والے دریا کو عبور کرنے سے قبل اپنے لشکریوں کو اس بات کی نصیحت کی کہ آپ نے صبر سے کام لینا ہے اور اگر آپ کو زیادہ پیاس ستائے تو ایک چلو بھر پانی پینے کی گنجائش موجود ہے۔ لشکریوں کی ایک بڑی تعداد امیر لشکر کی اس بات پر عمل پیر ا نہ ہو سکی‘ نتیجتاً جب لشکر جالوت سے مقابلہ ہوا تو انہوںنے اپنے اندر بڑی کمزوری کو محسوس کیا‘ لیکن وہ لوگ جنہوں نے جناب طالوت کے اس حکم کی تعمیل کی تھی ‘وہ جالوت کے لشکر کامقابلہ کرنے کے قابل ہو گئے اور اللہ کے حکم سے انہوں نے جالوت کے لشکر پر غلبہ حاصل کر لیا۔
آج اگر ہم پاکستان کی تعمیر وترقی چاہتے ہیں تو اتحاد اور ایمان کے بعد ہمیں اس کو ایک منظم ریاست کی شکل دینا ہو گی۔ پاکستان میں تنظیمی اعتبار سے بہت سی کمزوریاں اور نقائص پائے جاتے ہیں۔ سرکاری اداروں سے لے کر نجی دفاتر تک اور کاروباری منڈیوں سے لے کر گھریلو سطح تک بہت سے معاملات عدم تنظیم کی وجہ سے اُلجھے اور بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں؛ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک صحیح معنوں میں کامیاب اور مستحکم ریاست بن جائے ‘تو ہمیں نظام الاوقات اور محکمانہ اصولوں پر سختی کے ساتھ پابندی کرنی چاہیے۔ اگر ہم ایسا کریںگے ‘تو یقینا پاکستان کو مثالی ریاست بنانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں قائد اعظم کے فرمودات پر عمل پیر اہو کر قومی زندگی میں درپیش بحرانوں کا مقابلہ کرنے کی توفیق عطافرما دے ۔( آمین )