انسان کی زندگی میں ـمختلف ادوار آتے ہیں‘ لیکن ان ادورا میں بچپن کا ایک خاص مقام ہے۔ انسان بچپن میں مستقبل کی فکر سے بے نیاز ہوتا ہے اور ماضی میں لگنے والی چوٹوں یا بیماریوں کو فراموش کر چکا ہوتا ہے۔ وہ اپنے حال میں مست ہوتا ہے۔ دنیا وما فیہا میں خواہ کچھ بھی ہو رہا ہو بچے کا دماغ اور دل ان حوادث سے متاثر نہیں ہوتا۔ بچہ ہمہ وقت تروتازہ ہوتا ہے اور منافقت ‘ جھوٹ ‘ دکھلاوے اور ملاوٹ والی باتوں سے کوسوں دور ہوتا ہے۔ بچے میں پیسہ جمع کرنے کا لالچ نہیں ہوتا اور جو چیز اس کو میسر آ جائے وہ اس پر خوش اور مسرور ہو جاتا ہے۔ بچہ کسی کا برا نہیں سوچتا اور وقتی طور پر غصے میں آکر کسی سے لڑائی جھگڑے پر بھی آمادہ ہو جائے تو کچھ وقت گزرنے کے بعد اس کو فراموش کر دیتا ہے۔ بچہ اپنے والدین کی محبت میں غرق ہوتا ہے اور ان کے ساتھ مل جل کر رہنا اور ان کی توجہ کو حاصل کرنا اور قربت کو پانے کی کوشش کرنا بچے کی زندگی کا ایک بڑا مقصد ہوتا ہے۔ اسی طرح بچہ اپنے خاندان کے بڑوں‘ یعنی اپنے ماموں ‘ چچا‘خالا اور ان کی اولادوں سے ملنا بھی بہت زیادہ پسند کرتا ہے۔ بچہ ہر قسم کی ڈپریشن‘ افسردگی اور اعصابی تناؤ سے پاک ہوتا ہے۔ اس لیے بچپن کے ایام زندگی کے سب سے زیادہ حسین ایام ہوتے ہیں۔
انسان اپنے زندگی اور کاروبار میں مصروف ہونے کی وجہ سے کئی مرتبہ اپنے بچپن کی کیفیات کو بھول جاتا ہے اور ماضی کے صدمات‘ حال کے دباؤ اور مستقبل کے اندیشے اس کی زندگی کو کچھ اس انداز میں جکڑ لیتے ہیں کہ وہ ماضی کو فراموش کر دیتا ہے‘ لیکن خوشی کا کوئی موقع‘ شادی کی تقریب یا عید کے موقع پر جب اس کو خاندان کے بزرگ اور عزیز واقارب ملتے ہیں تو ماضی کی محبتیں اور حسین یادیں اُبھر کر سامنے آ جاتی ہیں۔ اسی طرح کوئی سانحہ‘ حادثہ یا خاندان میں کسی پیار کرنے والے بزرگ کا انتقال بھی انسان کو اپنے بچپن کے حسین لمحات کی یادوں کو تازہ کر دیتا ہے۔
میںنے بھی دیگر بچوں کی طرح اپنے بچپن میں بھرپور خاندانی اور بڑی پیار‘ محبت ‘ خوشی اور مسرت والی زندگی گزاری۔ میرے والد علامہ احسان الٰہی ظہیر اپنے وقت کے معروف عالم دین اور مشہور رہنما تھے۔ آپ کو معاشرے میں بڑی عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھاجاتا تھا۔ آپ کی اس عزت اور احترام کی وجہ سے لوگ ہم سے بھی پیار اور محبت والا برتاؤ کرتے۔ معاشرے میں ملنے والے پیار کے ساتھ ساتھ اپنے خاندان کے لوگ بھی ہم سے بڑے پیار اور شفقت کا مظاہرہ کرتے۔ ان شفقتوں اور محبتوں والا اظہار کرنے والی شخصیات میں سے ایک پیاری شخصیت میرے چچا شیخ محبوب الٰہی تھے۔ ان کو والد گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیر کے ساتھ بہت زیادہ پیار تھا اور وہ پیار صرف ایک چھوٹے اور بڑے بھائی کے درمیان نہ تھا‘ بلکہ اس میں ایک عقیدت مند اور رہنما کی جھلک بھی نظر آتی تھی؛ چنانچہ وہ ان کی ‘ تحاریر‘ تقاریر اور قیادت سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ وہ ہم سے ان کی زندگی میں بھی بڑے توجہ اورپیار سے ملتے رہے‘ لیکن میری عمر کے سولہویں سال میں جب علامہ احسان الٰہی ظہیر ایک حادثے کے نتیجے میں شہید ہوکر دنیا سے رخصت ہو گئے تو اس کے بعد چچا محبوب الٰہی کے پیار میں پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا۔ وہ ہمہ وقت ہمارے حالات سے باخبر رہنے کی کوشش کرتے اور ہر دکھ سکھ کے موقع پر ہم تک پہنچنے کی بھر پور جستجو کرتے۔ آپ ایک تاجر پیشہ انسان تھے اور گوجرانوالہ میں آپ کو اللہ تعالیٰ نے کپڑے کا بہت باعزت روزگار عطا کیا ہوا تھا۔ اللہ نے آپ کو اولاد کی نعمت سے نواز سے بھی نواز رکھا تھا اور ماشاء اللہ آپ کی اولاد میں ہمارے بھائی حافظ فرقان الٰہی ایک جید عالم دین اور ان کے علاوہ دو بھائی سلمان اور ریحان قرآن مجید کے حافظ ہیں‘ جبکہ بھائی انعام الٰہی سیالکوٹ میں اچھے پیمانے پر تجارت کرنے والے ہیں۔ اپنی عیال داری اور کاروباری مصروفیات کے باوجود وہ گاہے بگاہے ہمارے حالات کی خبر گیری کے لیے لاہور پہنچا کرتے تھے۔ ان کو ہماری تعلیم ‘ دینی زندگی اور معاشی معاملات سے گہری دلچسپی ہوا کرتی تھی ۔ وہ ہماری تعلیمی‘ سماجی اور معاشی ترقی کے بارے میں جہاں پر استفسار کیا کرتے تھے‘ وہاں پر بڑے معقول انداز میں جچا تلے مشورے بھی دیا کرتے تھے۔ ان کی محبت میں والہانہ انداز پایا جاتا تھا۔ جس کا اظہار ان کی بے ساختہ مسکراہٹ اور کئی مرتبہ ماضی کی یادوں کے حوالے سے کی جانے والی باتوں کے درمیان رندھے ہوئے لہجے سے ہوا کرتا تھا۔ گوجرانوالہ اور اس کے گردوپیش میں ہونے والے جلسے کے سلسلے میں جب بھی کبھی مجھے گوجرانوالہ جانے کا موقع ملتا ‘وہ بڑے شوق سے ان اجتماعات میں شریک ہوتے اوران اصرار ہوا کرتا تھا کہ میں انہی کے گھر رات کا کھانا کھاؤں۔ میرے ہمراہ جو رفقاء سفر ہوتے وہ ان کا استقبال بھی اپنے بیٹوں کی طرح کرتے تھے اور پرتکلف کھانا کھلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جاتے دیتے تھے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو دین داری کی نعمت سے بھی نواز رکھا تھا۔ آپ صوم وصلوٰۃ کے پابند اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے والے انسان تھے ؛ چنانچہ ہمیں دین کی طرف مائل دیکھ کر انہیں بہت خوشی ہوتی اور وہ مختلف اجلاسوں ‘ اجتماعات اور تقاریر کے بعد اپنی پیار بھری رائے سے ہمیں ضرور آگاہ کیا کرتے تھے۔ زندگی کے مختلف اُتار چڑھاؤاور پریشانیوں کے دوران اگر انہیں کہیں سے کوئی دکھ یا تکلیف کی اطلاع ملتی تو وہ فوراً سے پہلے ٹیلی فون پر رابطہ کرتے اوردرد دل مظاہرہ کرتے اور اس حوالے سے بات کرنے کے دوران کئی مرتبہ ان کا لہجہ آنسوؤں کے سانچے میں ڈھل جاتا تھا۔ یقینا ان کا وجود بچپن کی بہت سی حسین یادوں تازہ کرنے کا سبب تھا۔ انہوں نے میرے دادا دادی کی پوری زندگی بالخصوص بڑھاپے میں بھر پور خدمت کی اور اُن کے انتقال پر بڑے صبر اور تحمل کا مظاہرہ کیا۔ میری والدہ مرحومہ کے انتقال پر بھی وہ ہمیں دلاسہ دینے کے لیے لاہور پہنچے اور انہوں نے والدہ کی وفات پر ایسے رویے کا مظاہرہ کیا گویا کہ ان کی سگی بہن کا انتقال ہو گیا ہو۔ بچپن ان حسین یادوں کو تازہ کرنے والی یہ خوبصورت اور دلکش شخصیت بدھ کے روز 12بجے اچانک ہمیں داغ مفارکت دے گئے اور آپ کی وفات ایک مرتبہ پھر اس احساس کو تازہ کر گئی کہ دنیا میں جو کوئی بھی آیا ہے اس کو دنیا سے رخصت ہونا پڑے گا اور دنیا میں کسی بھی شخص کو ثبات اوردوام حاصل نہیں۔بقاء اور دوام اگر کسی کو حاصل ہے تو تنہا پروردگار عالم کی ذات کو ہے۔ چچا شیخ محبوب الٰہی کا جنازہ جامع مسجد الفتح گوجرانوالہ میں ہوا۔ جنازے میں ان کی سماجی اور دینی خدمات اور روابط کی وجہ سے گوجرانوالہ اور گردوپیش کے لوگوں نے ہزاروں کی تعداد شرکت کی۔ ان کا جنازہ محترم چچا فضل الٰہی نے بڑی رقت کے ساتھ پڑھایا اور بعد ازاں انہیں گوجرانوالہ کے مقامی قبرستان میں دفن کیا گیا۔دفن کرنے کے بعد سنت طریقے کے مطابق‘ میں نے جب ان کے لیے دعا مانگی تو جہاں میرے دل میں اُن کی آخروی نجات کی شدید خواہش موجود تھی‘ وہیں پر اس بات کا یقین بھی پختگی سے میرے دل میں اتر رہا تھا کہ ایک دن ہم سب کو بھی قبر میں اُترنا ہوگا اور اس برزخی اور قبر والی زندگی میں ہماری کامیابی کی بنیاد درحقیقت ایسی زندگی ہو گی جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی تابعداری میںگزری ہو گی اور جو بچوں کی طرح معصومیت ‘ بے غرضی اور کینے سے پاک ہو گی۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کو احسن طریقے سے ادا کرنے والے لوگ ہی اخروی نجات سے ہمکنار ہوںگے۔
چچا شیخ محبوب الٰہی کی تدفین کے ساتھ ہی بچپن کی حسین یادوں سے وابستہ ایک قیمتی وجود ہم سے جدا ہو گیا ۔ یقینا ہم سب کو ایک دن دنیا سے جانا ہے۔ اور ہم سب کو اپنے اعزاء واقارب کی موت سے عبرت حاصل کرتے ہوئے ‘آخروی نجات کے لیے آج ہی سے بھرپور انداز میں تیاری کرلینی چاہیے۔