12 جنوری کو بعد از نماز عصر مکہ مکرمہ سے مدینہ طبیہ کے لیے روانگی ہوئی۔ مدینہ طیبہ کی زیارت یقینا بڑے شرف کی بات ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہر مسلمان اور مومن کے دل میں مکہ مکرمہ کے ساتھ ساتھ مدینہ طیبہ کی محبت کو ودیعت کیا ہے‘ جس طرح مکہ مکرمہ کا رسول کریمﷺ کی ذات گرامی سے گہرا تعلق ہے کہ مکہ آپ کا مولود و مسکن ہے‘ اسی طرح مدینہ طیبہ کی بھی حضورﷺ کی ذات بابرکات کے ساتھ انتہائی گہری نسبت ہے۔ آپ ﷺمکہ مکرمہ سے ہجرت فرما کر مدینہ طیبہ تشریف لائے اور آپ ﷺنے اپنی حیات مبارکہ کے آخری 10 برس مدینہ منورہ میں ہی بسر کیے ۔ آپﷺ نے فتح مکہ کے باوجود مدینہ طیبہ کو خیر آباد کہنا گوراہ نہیں کیا۔ نبی کریم ﷺکو مدینہ منورہ اور اہل مدینہ سے والہانہ محبت تھی۔ اہلِ مدینہ نے آپﷺ اور مہاجر صحابہ کرامؓ سے جس محبت‘ خلوص اور ایثار کا مظاہرہ کیا اس کی مثال پیش نہیں کی جا سکتی۔
نبی کریم ﷺ نے مدینہ طیبہ کی اہمیت کو اجاگر فرمانے کے لیے ارشاد فرمایا ''اللہ تعالیٰ نے مدینہ کا نام طابہ رکھا ہے۔‘‘ بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ ؓسے یہ روایت مروی ہے کہ مدینہ کے راستوں پر فرشتے مقرر ہیں۔ اس میں نہ کبھی طاعون پھیل سکتا ہے‘ نہ دجال داخل ہو سکتا ہے۔ ‘‘ مدینہ منورہ میں قیام کرنا اور یہاں پر مرنے کی آرزو کرنا بڑی سعادت کی بات ہے۔جامع ترمذی میں حضرت عبداللہ ابن عمر ؓکی راویت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:'' جو شخص مدینہ طیبہ میں رہ سکتا ہے (یعنی آخری ایام یہاں گزار سکتا ہے) اسے ضرور مدینہ میں مرنا چاہیے‘ کیونکہ میں اس شخص کے لیے سفارش کروں گا‘ جو مدینہ میں مرے گا۔ ‘‘ اسی وجہ سے امیر المومنین حضرت عمر فاروق ؓ ہمیشہ یہ دعا مانگتے تھے کہ اے اللہ! مجھے شہادت کی موت اور اپنے نبی کے شہر میں دفن ہونے کی سعادت عطا فرما۔ اللہ تعالیٰ نے امیر المومنین حضرت عمر فاروق ؓکی دونوں دعاؤں کو قبول فرما لیا۔ ان پر مسجد نبوی شریف میں مصلہ ٔ رسول پر حالت ِ نماز میں قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ آپؓ نے مدینہ طیبہ میں ہی جام شہادت کو نوش کیا اور حجرہ عائشہ ؓمیں نبی کریم ﷺاور جناب صدیق اکبر ؓکے ہمراہ دفن ہونے کی سعادت کو حاصل کی۔ نبی کریم ﷺنے مدینہ طیبہ کے لیے دعا فرمائی کہ اس میں مکہ مکرمہ کے مقابلے میں دو گنا برکت عطا فرما۔ ‘‘ اسی طرح نبی کریم ﷺنے یہ بھی فرمایا کہ ''جس نے مدینہ طیبہ میں مشکلات اور مصائب پر صبر کیا ‘میں اس کی گواہی دوں گا (فرمایا)میں اس کی سفارش کروں گا۔‘‘ مدینہ طیبہ کے شرف میں یہ بات بھی شامل ہے کہ فتنوں کے دور میں مدینہ میں ایمان اور اسلام پوری طرح سلامت رہے گا۔ بخاری شریف میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: '' ایمان مدینہ میں اس طرح واپس آ جائے گا ‘جس طرح سانپ پھر پھرا کر اپنے بل میں واپس آجاتا ہے۔‘‘
مدینہ طیبہ میں ابتدائے اسلام کی دو مساجد موجود ہیں ۔ مسجد نبوی شریف بیت اللہ شریف کے بعد دیگر تمام مقامات سے زیادہ افضل ہے اور اس میں ادا کی گئی نماز بیت اللہ کے بعد سب سے زیادہ افضل ہے۔ رسول کریم ﷺکی لحد مبارک مسجد نبوی شریف ہی کے ایک گوشے میں ہے‘جو درحقیقت رسول ﷺکی رہائش گاہ تھی اور یہیں پر آپ ﷺکا انتقال ہواتھا۔ انبیاء علیہم السلام جس زمین پر انتقال فرماتے ہیں‘ ان کی تدفین اسی مقام پر کی جاتی ہے؛ چنانچہ آپ کی تدفین بھی آپ ﷺکے حجرہ مبارک میں ہوئی۔آپﷺ کے گھر اور منبر کے درمیان موجود زمین کا ٹکڑا جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔
اسی طرح مدینہ طیبہ میں مسجد قباء بھی ہے‘ جس میں دو نفلوں کی ادائیگی کا ثواب عمرہ کے ثواب کے برابر ہے۔ مسجد نبوی میں جہاں پر انسان کو نماز کی ادائیگی کا شرف ملتا ہے‘ وہیں پر اسے نبی کریمﷺکی لحد مبارک پر آکر درود شریف پڑھنے کا موقع بھی میسر آتا ہے‘ جو شخص ایک مرتبہ نبی کریم ﷺکی ذات گرامی پر درود بھیجتا ہے‘ اللہ تعالیٰ دس مرتبہ اس کی ذات پر درود بھیجتے ہیں اور جو بھیجتا ہی رہتا ہے ‘اللہ تعالیٰ اس کی تمام خطاؤں کو معاف فرما دیتے ہیں۔ مسجد نبوی شریف کے کچھ فاصلے پر بقیع کا قبرستان بھی ہے‘ جس میں امہات المومنین ؓ‘ہزاروں صحابہ کرام اور کئی ائمہ مدفون ہیں‘ اسی قبرستان میںوالد گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیر اور دادا حاجی ظہور الٰہی بھی مدفون ہیں۔ مدینہ طیبہ میںاُحد پہاڑ بھی ہے۔ یہ ایک ایسا پہاڑ ہے ‘جو رسول کریم ﷺ کا محب اور محبوب تھا۔ مدینہ منورہ میں مسجد قبلتین بھی ہے‘ اس مسجد میں دوران نماز صحابہ کرام نے رسول کریمﷺ کی اتباع میں اپنے چہروں کا رُخ بیت المقدس سے بیت اللہ شریف کی طرف کر لیا تھا۔ مدینہ طیبہ کی کھجور انتہائی خوش ذائقہ ہے اور اس میں پیدا ہونے والی کھجوروں میں سے ایک خاص قسم عجوہ کھجور ہے‘ جس میں اللہ نے یہ تاثیر رکھی ہے کہ اس میں زہر اور جادو کا علاج ہے۔ جامع ترمذی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ عجوہ کھجور جنت کا پھل ہے اور اس میں زہر کے لیے شفاء ہے۔ بخاری شریف میں حضرت سعد ابن وقاص ؓسے مروی ہے کہ رسول کریم ﷺنے فرمایا کہ ''جو ہر روز صبح سات عجوہ کھجوریں کھائے گا‘ اس کو زہر اور جادو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔‘‘مدینہ منورہ اور مسجد نبوی شریف کی زیارت انسان کی روح کو ترو تازہ کر دیتی ہے اور شہر حبیبﷺکے سفر کے دوران انسان اپنے دل میں رسول کریمﷺکی محبت کے جذبات کو اُبلتے ہوئے محسوس کرتا ہے۔
مدینہ منورہ کی زیارت کے دوران جہاں پر ہمیں مسجد نبوی شریف میں نمازوں کی ادائیگی کا موقع ملا‘ وہیں پر ہمیں مسجد نبوی شریف کے مؤذن ڈاکٹرایاد الشکری اور مسجد نبوی شریف کے امام اور خطیب شیخ صلاح البدیر سے ملاقات کا موقع بھی میسر آیا۔ ڈاکٹر ایاد الشکری کچھ عرصہ قبل پاکستان کے دورے پر تشریف لائے تو آپ نے جہاں پر دیگر بہت سی اہم تقریبات میں شرکت کی ‘وہیں پر آپ نے مرکز قرآن وسنہ لارنس‘ روڈ لاہور میں بھی بڑے خوبصورت انداز میں خطاب فرمایا۔ حالیہ ملاقات کے دوران آپ کی پاکستان آمد کی یادیں بھی تازہ ہوئیں اور آپ نے پاکستان کے بارے میں بہت خوبصورت جذبات کا اظہار کیا۔ شیخ صلاح البدیر نے بھی دعوت دین‘ قرآن مجید اور سنت نبوی شریف کی نشرواشاعت کی اہمیت کو اجاگر کیا‘ وہیں پر پاکستانیوں کی دین سے محبت کو بھی سراہا۔آپ نے اس موقع پر یہ بات بھی بتلائی کہ مسجد نبوی شریف میں رمضان المبارک کے دوران اعتکاف کرنے والوں میں ایک بڑی تعداد پاکستانیوں کی ہوتی ہے‘ آپ نے پاکستان اور سعودی عرب کے طویل اور گہرے تعلقات کی اہمیت کو بھی بہت خوبصورت انداز میں بیان کیا۔ مدینہ منورہ میں قیام کے دوران مجھے مدینہ یونیورسٹی کے طلباء سے گفتگو کرنے کا موقع بھی میسر آیا ۔اس گفتگو کے دوران جہاں پر مدینہ یونیورسٹی کے طلباء نے بہت زیادہ محبت کا اظہار کیا‘ وہیں پر مستقبل میں دعوت وتبلیغ کو درپیش چیلنجز کے حوالے سے بھی سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ دور حاضر کا ایک بہت بڑا فتنہ الحاد ہے اور اس فتنے کے اسباب اور تدارک کے حوالے سے بہت اچھی تجاویز سامنے آئیں۔ الحاد درحقیقت اللہ تبارک و تعالیٰ کے قرآن اور نبی کریم ﷺکے فرامین کو چھوڑ کر عقل پرستی کے راستے پر چلنے کے نتیجے میںپیدا ہوتا ہے؛ اگر انسان حقیقی معنوں میں کائنات کی تخلیق پر غوروفکر کرے ‘ایمان بالغیب کے راستے پر کاربند رہے اور اعمال صالحہ کے راستے کو اپنائے رہے تو وہ الحاد کے فتنے سے بچ سکتا ہے۔ اس موقع پر میں نے علم کی اہمیت اور داعی کی ذمہ داریوں کے حوالے سے اپنی گزارشات کو مدینہ یونیورسٹی کے طالب علموں کے سامنے رکھا اور ان کے سامنے اس بات کو پیش کیا کہ کائنات کی سب سے بڑی نعمت ایمان ہے اور ایمان کے بعد علم کا بھی ایک امتیازی مقام ہے۔ ایک داعی کو ہمہ وقت علم کے ابلاغ میں مصروف رہنا چاہیے اور نفع بخش علم کی نشرواشاعت کے ساتھ ساتھ خو د بھی علم پر عمل کرنا چاہیے۔ داعی کو دعوت کے اجروثواب کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دینا چاہیے اور اس سلسلے میں اگر دنیا والے حوصلہ افزائی نہ بھی کریں تو مایوس ہونے کی بجائے دعوت کے عمل کو پورے استقلال سے جاری رکھنا چاہیے ۔داعی کو دعوت دین کے راستے میں آنے والی تکالیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا چاہیے۔ انبیاء علیہم السلام کا طریقہ کار یہی تھااور اسی پر صحابہ کرام ‘ ائمہ دین اور اکابرین اُمت پوری شدومد سے کاربند رہے۔
مدینہ منورہ کا قیام ہر اعتبار سے باعث سعادت رہا۔یہاں قیام کے دوران روح سرسبز وشاداب رہی اور مدینہ طیبہ میں ملنے والے دوستوں کا پیار اور محبت ہمیشہ کے لیے دل پر گہرے نقوش چھوڑ گیااور یہ ایام اپنے جلو میں بہت سی حسین یادوں کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے دل ودماغ کو معطر کرگئے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو اپنی بندگی اور نبی کریم ﷺکی ذات گرامی ‘آپ کی تعلیمات ‘ آپ ﷺکی مسجد مبارک اور آپ ﷺکے شہر سے محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین )