"AIZ" (space) message & send to 7575

خو نِ ناحق

19 جنوری کا دن پاکستانی قوم کے لیے انتہائی تکلیف دہ تھا۔ ساہیوال میں ایک ادارے کو ملنے والی غیر مصدقہ اطلاعات کی وجہ سے بوریوالہ شادی میں شرکت کے لیے جانے والے ایک گھرانے کے سربراہ خلیل کو اس کی اہلیہ اور 13 سالہ بچی سمیت بے دردی کے ساتھ قتل کر دیا گیا۔ گاڑی کا ڈرائیور بھی موقع پر جاں بحق ہوگیا۔ اس واقعہ پر متعلقہ ادارے نے یہ عذر پیش کیا کہ گاڑی میں دہشت گرد موجود تھے‘ جنہیں مخبری کی بنیاد پر کیفر کردار تک پہنچایا گیا ہے۔ گاڑی کے شیشوں کو کالا قرار دیا گیا اور گاڑی میں اسلحے کی موجودگی کا بھی ذکر کیا گیا‘ لیکن ویڈیو فوٹیج اور تصویروں سے یہ بات ثابت نہ ہو سکی۔ بعد ازاں مقتولین کے محلہ داروں نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ نوجوان ڈرائیور ذیشان اور خلیل شریف الطبع اور نیک لوگ تھے اور ان کا کسی بھی قسم کی دہشت گردی سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اس واقعہ نے پورے ملک میں اضطراب اور بے چینی کی کیفیت پیدا کر رکھی ہے۔ اس موقع پر میں انسانی جان کی حرمت اور خون ناحق سے متعلقہ کتاب وسنت میں مذکور بعض اہم حقائق کو قارئین کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں: 
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ مائدہ کی آیت نمبر 32میں ارشاد فرمایا ''جس نے قتل کیا کسی جان کو بغیر کسی جان (قصاص) کے یا زمین میں فساد مچانے کے تو گویا کہ اس نے قتل کیا تمام لوگوں کو اور جس نے (کسی کو ناحق قتل سے بچا کر) زندگی دی اُسے تو گویا کہ اس نے زندگی دی تمام لوگوں کو ۔‘‘اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نساء کی آیت نمبر93میں مومن کے قتل کی سنگینی کے حوالے سے ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جو قتل کر ڈالے کسی مومن کو جان بوجھ کر تو اس کی سزا جہنم ہے ہمیشہ رہے گا اُس میں اور اللہ نے اُس پر غضب کیا اُس پر لعنت کی اور تیار کر رکھا ہے اُس کے لیے بڑا عذاب۔‘‘ صحیح بخاری میں مومن کے ناحق قتل کے بارے میں ایک توجہ دلانے والی حدیث یوں مذکور ہے :حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ جہینہ کی ایک شاخ کی طرف ( مہم پر ) بھیجا۔ بیان کیا کہ پھر ہم نے ان لوگوں کو صبح کے وقت جا لیا اور انہیں شکست دے دی۔ راوی نے بیان کیا کہ میں اور قبیلہ انصار کے ایک صاحب قبیلہ جہینہ کے ایک شخص تک پہنچے اور جب ہم نے اسے گھیر لیا تو اس نے کہا 'لا إلہ إلا اللہ‘‘انصاری صحابی نے تو ( یہ سنتے ہی ) ہاتھ روک لیا‘ لیکن میں نے اپنے نیزے سے اسے قتل کر دیا۔ راوی نے بیان کیا کہ جب ہم واپس آئے تو اس واقعہ کی خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی۔ بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ''اسامہ! کیا تم نے کلمہ ''لا إلہ إلا اللہ‘‘ کا اقرار کرنے کے بعد اسے قتل کر ڈالا۔" میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس نے صرف جان بچانے کے لیے اس کا اقرار کیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا ''تم نے اسے ''لا إلہ إلا اللہ‘‘کا اقرار کرنے کے بعد قتل کر ڈالا۔‘‘بیان کیا کہ نبی کریم اس جملہ کو اتنی دفعہ دہراتے رہے کہ میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہو گئی کہ کاش میں اس سے پہلے مسلمان نہ ہوا ہوتا۔صحیح بخاری میں یہ بھی مذکور ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''مسلمان کو گالی دینا گناہ ہے اور اس کو قتل کرنا کفر ہے۔‘‘ 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ قیامت سے پہلے قتل بہت بڑھ جائے گا؛ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :قیامت اس وقت تک نہ آئے گی جب تک علم دین نہ اٹھ جائے گا اور زلزلوں کی کثرت نہ ہو جائے گی اور زمانہ جلدی جلدی نہ گزرے گا اور فتنے فساد پھوٹ پڑیں گے اور ''ہرج‘‘کی کثرت ہو جائے گی اور ''ہرج‘‘سے مراد قتل ہے اور تمہارے درمیان دولت و مال کی اتنی کثرت ہو گی کہ وہ ابل پڑے گا۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان ریاست میں بے گناہ غیر مسلم کو قتل کرنا بھی حرام ہے ؛چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا ''جس نے کسی ذمی کو (ناحق ) قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پا سکے گا؛ حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی راہ سے سونگھی جا سکتی ہے۔‘‘صحیح بخاری ہی میں ایک اور حدیث حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے یوں روایت ہے کہ ایک عورت‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کسی غزوے میں مقتول پائی گئی ‘تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرمایا ( تو انہوں نے اس کا اقرار کیا ) ۔صحیح بخاری کی حدیث کے مطابق ؛جب بھی کوئی انسان ظلم سے قتل کیا جاتا ہے ‘تو آدم علیہ السلام کے سب سے پہلے بیٹے ( قابیل ) کے نامہ اعمال میں بھی اس قتل کا گناہ لکھا جاتا ہے‘ کیونکہ قتل ناحق کی بنا سب سے پہلے اُسی نے قائم کی تھی۔
معاشرے میں قتل کی روک تھام کے لیے قاتل کو قرار واقعی سزا ملنا انتہائی ضروری ہے؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 178میں ارشاد فرماتے ہیں : ''اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو فرض کر دیا گیا ہے تم پر قصاص لینا مقتولین (کے بارے) میں آزاد (قاتل) کے بدلے آزاد (ہی قتل ہو گا) اور غلام (قاتل) کے بدلے غلام (ہی قتل ہو گا) اور عورت کے بدلے عورت (ہی قتل کی جائے گی) پس جو (کہ) معاف کر دیا جائے اس کو اپنے بھائی کی طرف سے کچھ بھی تو (لازم ہے اس پر ) پیروی کرنا دستور کے مطابق اور ادائیگی کرے اس کو اچھے طریقے سے۔ یہ (دیت کی ادائیگی) تخفیف ہے تمہارے رب کی طرف سے اور رحمت ہے پس جو زیادتی کرے اس کے بعد (بھی) تو اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘اسلام میں اگرچہ دیت کی گنجائش موجود ہے‘ لیکن سورہ بقرہ ہی کی آیت نمبر 179میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے قصاص کو زندگی کا باعث قرار دیتے ہوئے کہا: ''اور تمہارے لیے قصاص میں ز ندگی ہے اے عقل والو! تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ ۔‘‘
نبی کریمﷺ نے اپنے عہد مبارک میں خود بھی قاتلوں کو قرار واقعی سزا دینے کے لیے بہترین مثالیں قائم کیں‘جو احادیث طیبہ میں مذکور ہیں‘جن میں سے دو اہم درج ذیل ہیں: 
صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کچھ لوگ عکل یا عرینہ ( قبیلوں ) کے مدینہ میں آئے اور بیمار ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں لقاح میں جانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ وہاں اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پئیں؛ چنانچہ وہ لقاح چلے گئے اور جب اچھے ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کو قتل کر کے وہ جانوروں کو ہانک کر لے گئے۔ علی الصبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ( اس واقعہ کی ) خبر آئی۔ تو آپ نے ان کے پیچھے آدمی دوڑائے۔ دن چڑھے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پکڑ کر لائے گئے۔ آپ کے حکم کے مطابق ؛ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دئیے گئے اور آنکھوں میں گرم سلاخیں پھیر دی گئیں اور ( مدینہ کی ) پتھریلی زمین میں ڈال دئیے گئے۔ 
صحیح بخاری میں مذکور ہے کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کو اس کے چاندی کے زیور کے لالچ میں مار ڈالا تھا۔ اس نے لڑکی کو پتھر سے مارا پھر لڑکی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائی گئی تو اس کے جسم میں جان باقی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تمہیں فلاں نے مارا ہے؟ اس نے سر کے اشارہ سے انکار کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ پوچھا‘ کیا تمہیں فلاں نے مارا ہے؟ اس مرتبہ بھی اس نے سر کے اشارے سے انکار کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب تیسری مرتبہ پوچھا تو اس نے سر کے اشارہ سے اقرار کیا؛ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی کو دو پتھروں میں کچل کر مار کر دیا۔ 
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد مبارک کا بھی ایک واقعہ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ ابن عمر ؓسے یوں مذکور ہے کہ ''ایک لڑکے اصیل نامی کو دھوکے سے قتل کر دیا گیا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سارے اہل صنعاء ( یمن کے لوگ ) اس کے قتل میں شریک ہوتے تو میں سب کو قتل کرا دیتا۔‘‘
کتاب وسنت کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ معاشرے میں کسی بھی طو ر پر کسی کا خون ناحق نہیں ہونا چاہیے اور خون ناحق کی روک تھام کے لیے یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ قتل کرنے والا خواہ کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو اس کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ ماضی میں اس حوالے سے بہت زیادہ تساہل کا مظاہرہ کیا گیا ۔ عوام اس کیس کو عمران خان کی حکومت کے لیے ٹیسٹ کیس سمجھتی ہے اور اس بات کی توقع کرتی ہے کہ اس کیس میں مظلوموں کی شنوائی ہو گی اور ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا اور معاشرے کی بے چینی اوربے قراری کو دور کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں