ہر شخص کو اپنے وطن سے محبت ہوتی ہے۔ مجھے بھی اپنے وطن پاکستان سے والہانہ محبت ہے۔ اس کی تعمیر وترقی اور اس میں امن وامان کے لیے ہمیشہ لبوں پر دعائیں اور دل میں نیک تمنائیں رہتی ہیں۔ 25جنوری کو سرزمین حجاز سے واپسی ہوئی تو لاہور ائیر پورٹ پر دوست احباب کی ایک بڑی تعداد استقبال کے لیے موجود تھی۔ استقبال کے لیے آنے والے دوستوں کی محبت اور سرزمین پاکستان پر قدم رکھنے سے طبیعت پر بڑے خوشگوار اثرات مرتب ہوئے اور سفر کی تھکاوٹ دُور ہو گئی۔ وطن عزیز میں ایک عرصے سے مختلف جماعتیں حکومت کر رہی ہیں اور ہر جماعت اپنے اپنے ویژن کے مطابق وطن عزیز کی تعمیر و ترقی کے لیے کوشاں ہونے کی دعویدار ہے‘ لیکن یہ حقیقت ہے کہ جس مقصد اور نعرے کی بنیاد پر پاکستان کو بنایا گیا ‘وہ تاحال شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا۔
وطن عزیز کی تعمیر اور ترقی کے لیے ہمیں قائدین ِتحریک پاکستان کے نظریات او ر افکار کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ قائدین تحریک پاکستان نے پاکستان کا قیام ایک اسلامی فلاحی ریاست کے طور پر کیا تھا‘ لیکن سچی بات یہ ہے کہ تاحال وطن عزیز حقیقی معنوں میں ایک اسلامی فلاحی ریاست کی شکل اختیار نہیں کر سکا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ پاکستان کا آئین اسلامی آئین ہے اور اس میں کتاب وسنت کی بالادستی کی واضح طور پر ضمانت دی گئی ہے ۔یہ ضمانت ملک کے تمام اسلام پسند عناصر اور جماعتوں کے لیے اُمید اور حوصلے کا باعث ہے۔ گو پاکستان میں ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں‘ جس سے اسلام پسند جماعتوں کو تشویش لاحق ہوتی ہے‘ لیکن حقیقی بات یہ ہے کہ قرار داد مقاصد میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا جو احساس دلایا گیا ہے اور آئین میںکتاب وسنت کی بالا دستی کی جو ضمانت دی گئی ہے‘ اس کے سبب ہمیشہ اسلامی فلاحی معاشرے کے قیام کے لیے کام کرنے والی جماعتوںکو نیا حوصلہ اور توانائی حاصل ہوتی رہتی ہے۔ پاکستان کا آئین جہاں کتاب وسنت کی بالا دستی کی ضمانت دیتا ہے وہاں پر یہ پاکستان میں بسنے والے تمام شہریوں کو اُن کے بنیادی حقوق کی ضمانت بھی دیتا ہے۔ بدنصیبی سے ہمارے ملک میں وقفے وقفے سے بعض ناخوشگوار واقعات ہوتے رہتے ہیں ‘جس کی بہت سی خارجی اور داخلی وجوہ ہیں۔ پاکستان کے دشمن پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں‘ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے قومی اتحاد اور یکجہتی کے سبب وہ اپنی سازشوں اور منفی منصوں کو عملی جامہ پہننانے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔ وطن عزیز میں بدامنی کے خاتمے کے لیے نظام عدل کا مستحکم اور تمام طبقات کے لیے یکساں ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے؛ اگر قانون کا نفاذ ہمہ گیر ہو اور غریب اور امیر کے لیے عملی طور پر یکساں قوانین ہوں‘ تو وطن عزیز میں بد امنی اور نا انصافی کا با آسانی خاتمہ ہو سکتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں جب بنو مخزوم کی ایک بااثر عورت نے چوری کی اور حضرت اسامہ ابن زیدرضی اللہ عنہما اس کی سفارش لے کر آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ اگر میری بیٹی فاطمہ ؓ بھی چوری کرے تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں گا۔ آپ نے اس موقع پر سابقہ اقوام کی تباہی کے ایک بڑے سبب کا بھی ذکر کیا کہ جب ان میں کوئی چھوٹا جرم کرتا تو اس کو سزا دی جاتی اور کوئی بڑا جرم کرتا تو اُس کو چھوڑ دیا جاتا ؛ اگر ہم پاکستان کو حقیقی معنوں میں فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں یہاں پر قوانین کے یکساں نفاذ کی یقین دہانی کرانا ہوگی۔ مجھے مختلف ممالک کے سفر کرنے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ دنیا کے بہت سے ممالک جن میں سعودی عرب اوربرطانیہ سرفہرست ہے وہاں پر قانون کی حقیقی عملداری دیکھنے کو ملتی ہے ۔ان ممالک میں کسی بھی شخص کو اپنی جان ‘ مال اور املاک کے تحفظ کی فکر نہیں ہوتی؛ حتیٰ کہ بیرون ملک سے جانے والے مسافر بھی وہاں پر احساس عدم تحفظ کا شکار نہیں ہوتے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے وہاں پر ہر وقت متحرک رہتے ہیں اور قانون کے خوف کی وجہ سے لوگ جرائم سے احتراز کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں بھی اگر قوانین کی تنفیذ کے لیے سنجیدہ کوششیں کی جائیں تو پاکستان حقیقی معنوں میں فلاحی ریاست میں تبدیل ہو سکتا ہے۔
ایک اسلامی جمہوری معاشرے کی جب بات ہوتی ہے تو بہت سے لا دین عناصر تشویش میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ایسے تصورات پیش کرتے ہیں کہ جن سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ایک اسلامی ریاست فرقہ وارانہ تشدد پر مبنی تنگ نظر ریاست ہو گی لیکن یہ تاثر درست نہیں ہے۔ ایک اسلامی فلاحی ریاست کسی بھی اعتبار سے مذہبی تصاد م اور فرقہ وارانہ تشدد کی حوصلہ افزائی نہیں کرتی‘ بلکہ ایک اسلامی فلاحی ریاست میں بسنے والے مختلف مذاہب کے لوگوں کو اپنے اپنے مذاہب کے مطابق زندگی گزارنے کی مکمل آزادی ہوتی ہے۔ اسلام ریاست کا مذہب ضرور ہوتا ہے‘ لیکن اس کے باوجود ریاست باقی تمام مذاہب کے پیر وکاروں کو جینے کا مکمل حق دیتی ہے اور پرسنل لاز کے مطابق ان کے معاملات کو طے کیا جاتا ہے۔ اسلامی ریاست میں اسلامی قوانین کے نفاذ کا بنیادی مقصد ایک پر امن معاشرے کو قائم کرنا اور معاشرے میں موجود سنگین نوعیت کے جرائم کی بیخ کنی کرنا ہوتا ہے؛ اگر اسلام کے نظام حدود و تعزیرات پر غور کیا جائے تو اس سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ زناکی حد کا مقصد نسب کی حفاظت کرنا‘ شراب کی حد کا مقصد عقل کی حفاظت کرنا ‘ چوری کی حد کا مقصد مال کی حفاظت کرنا‘حد قذف کا مقصد انسانوں پر لگنے والی جھوٹی تہمتوں کا انسداد کرنا اور قانونِ قصاص کا مقصد انسانی جان کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔
یہاں پر اس بات کو بھی ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ ایک اسلامی فلاحی ریاست کا مقصد لوگوں کی آزادیوں کو سلب کرنا نہیں ہوتا بلکہ معاشرے میں موجود فواحش اور منکرات کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے تمام انسانوں کو بہترین انداز میں ان کے حقوق کو فراہم کرنا ہوتا ہے۔ اسلام اقلیتوں اور دیگر مذاہب کے پیرو کاروں کے حقوق کا علمبردار ہونے کے ساتھ ساتھ عورتوں اور بچوں کے لیے بھی تعلیم اور تربیت کے تمام امکانات کی مکمل حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ عورت کا پردہ اگرچہ اسلامی ریاست کے اہداف میں شامل ہے‘ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ عورت پردے کی حدود میں رہتے ہوئے اپنی جائز خواہشات‘ ضروریات اور تعلیم کے مراحل کو مکمل نہیں کر سکتی۔ ایک اسلامی معاشرے میں بسنے والی عورت طب‘ ادب‘ مذہب‘ سماجی علوم‘ کیمیا‘ حساب‘ طبعیات اور تجارت سمیت تمام علوم کو حاصل کر سکتی ہے۔ پردے کا مقصد بنیادی طور پر اس کو بری نظر سے بچانا اور معاشرے میں بد اخلاق عناصر کی اس کی سمت پیش قدمی کو روکنا ہے۔ اسلامی معاشرے میں بسنے والے لوگ کسی بھی طور پر قبائلی طرزثقافت کے پابند نہیں ہوتے۔ اسلامی فلاحی ریاست کے شہروں میں رہنے والے لوگ شہری انداز میں ‘ دیہات میں رہنے والے لوگ دیہی انداز میں اور قبائلی زندگی گزارنے والے لوگ قبائلی انداز میں اپنی زندگی کے ایام کو گزارتے ہوئے بھی اسلامی تعلیمات پر مکمل طور پر عمل پیرا ہو سکتے ہیں۔
یہ سوال بھی بالعموم لوگوں کے ذہنوں میں ابھرتا ہے کہ شاید مذہب سائنسی ترقی اور علوم کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ یہ اعتراض بھی فقط تعصب اور پروپیگنڈا پر مبنی ہے۔ تاریخ اسلام اور تاریخ انسانیت اس بات پر شاہد ہے کہ جس وقت یورپ سائنسی علوم میں نابالغ تھا اس وقت مسلمان سائنسدان ان علوم میں دنیا کی رہنمائی کر رہے تھے۔ مسلمان حکمرانوں نے فلکیات‘ کیمیائ‘ ہندسہ‘ طب اور حیاتیات کے علوم کے فروغ کے لیے ماہرین کی احسن انداز میں حوصلہ افزائی اور سرپرستی کی تھی۔
جب اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کی بات کی جاتی ہے تو بہت سے لوگ یہ بھی گمان کرتے ہیں شاید دینی تحریکوں کو چلانے والے اس مقصد کے حصول کے لیے تشدد‘ قتل وغارت گری اور دہشت گردی کا راستہ اپنانا چاہتے ہیں۔ یہ الزام بھی حقیقت پر مبنی نہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان میں کام کرنے والی دینی جماعتوں کی اکثریت آئینی ‘دستوری جدوجہد اور فلسفہ ٔ عدم تشدد پر یقین رکھتی ہے‘ لیکن اس کے باوجود بعض عناصر خوامخواہ دینی تحریکوں کو بدنام کرنے کے لیے غلط قسم کی افواہوں کو اڑاتے رہتے ہیں۔ ریاست میں جہاں جدت پسندی‘ آزاد خیالی اور یورپی طرز ثقافت کے علمبردار افراد اپنے اپنے دائرے میں کام کرنے کے لیے آزاد ہیں اسی طرح مذہب کی بالا دستی اور ایک اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کہ جس میں بسنے والے تمام شہریوں کو بنیادی انسانی حقوق حاصل ہوں کے لیے کام کرنے والی دینی تحریکوں کو بھی کام کرنے کی مکمل آزادی ہو نی چاہیے اور ان کے خلاف بلاجواز پروپیگنڈا اور افواہ سازی کا عمل بند ہونا چاہیے۔ بعض لوگ دینی تحریکوں کے منشور کو شدت پسندی سے جوڑتے ہیں یہ تاثر درست نہیں دین بقائے باہمی ‘ مساوات‘ احترام اور رواداری کا درس دیتا ہے اور سمجھ دار زیر ک علماء اور دانشور کبھی بھی اپنے نظریات کو جبراً دوسروں پر مسلط نہیں کرتے۔ میر ی اور بہت سے دیگر دینی رہنماؤں کی یہ خواہش رہی ہے کہ پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست کے طور پر کام کرے اور اس مقصد کے لیے جدوجہد کرنے والی تمام جماعتوں کو اشتراک عمل کے ساتھ اس مقصد کے حصول کے لیے کوشش کرنی چاہیے‘ تاکہ پاکستان صحیح معنوں میں حضرت محمد علی جناح اور علامہ اقبال ؔکے ویژن کے مطابق اکیسویں صدی میں صرف برصغیر نہیں بلکہ عالم اسلام کی قیادت کا فریضہ انجام دے سکے۔