انسانی زندگی مختلف ادوار سے گزرتی رہتی ہے۔ اس میں کہیں خوشیاں ہیں تو کہیں غم ہیں۔ جو انسان عوامی زندگی گزارتا ہو اس کو خوشیوں اور غموں کے مختلف رنگوں کو دوسرے لوگوں کے مقابلے میں دیکھنے کا زیادہ موقع ملتا ہے۔ چند روز قبل ہونے والے سانحہ ساہیوال نے پوری قوم کو غم میں ڈبو دیا ۔وہی گھر جو سانحہ سے قبل امن وسکون کا گہورا ہ تھے وہ سانحے کے بعد زخموں اور غموں میں ڈوب گئے۔ خلیل اپنے خاندان سمیت اور ڈرائیور ذیشان کے ہمراہ شادی میں شرکت کے لیے جا رہا تھا۔ ان کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ موت راستے میں ان کا انتظار کر رہی ہے۔ خوشیوں اور غموں کے یہ لمحات ہر انسان کی زندگی میں آتے رہتے ہیں۔ عمرے سے واپسی پر 28 جنوری کو قریبی دوست وقاص ظہیر اوکاڑوی کی شادی کی تقریب میں اوکاڑہ جانے کا موقع میسر آیا۔ وہاں پر محبت کرنے والے دوست احباب کی ایک کثیر تعداد موجود تھی ۔ جنہوں نے بڑے والہانہ اور پرتپاک انداز میں استقبال کیا۔ شادی کی اس تقریب میں حاضرین مجلس کے سامنے شادی کی اہمیت اور فوائد کے حوالے سے اپنی چند گزارشات کو رکھنے کا موقع ملا جنہیں میں قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نباء کی آیت نمبر 8میں ارشاد فرمایا:''اور ہم نے تمہیں جوڑا جوڑا پیدا کیا۔ ‘‘چنانچہ انسانوں کی اکثریت کو زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر شادی کے مقدس بندھن میں بندھنا پڑھتا ہے۔ شادی کے اس مقدس بندھن میں بندھنے کی وجہ سے جہاں پر انسان اپنے جبلی تقاضوں اور نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے قابل ہو جاتا ہے‘ وہیں پر اس مقدس بندھن میں بندھنے کی وجہ سے انسان برائی اور غلط راستوں پر چلنے سے بھی محفوظ ہو جاتا ہے۔
اسلام میں صنفی محبت کی تمام اقسام منع ہیں اور صنفی محبت کو صرف شوہر اور بیوی ہی کے درمیان جائز قرا ردیا گیا ہے۔ انسان کو اس تعلق کی وجہ سے جہاں پر اپنی پاکدامنی اور عفت وعصمت کو برقرار رکھنے کے مواقع میسر آتے ہیں‘ وہیں پر ا س کو اچھی بیوی کی شکل میں ایک مونس اور غمخوار ساتھی بھی میسر آجاتا ہے۔ زندگی کی تکالیف کو اس ساتھی کو بتانے کے بعد انسان اپنے غموں کو ہلکا محسوس کرتا ہے اور زندگی کی تلخیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے نئی استعداد کو حاصل کرتا ہے۔ نکاح کی مقدس تقریب میں خطبہ نکاح کے بعد عجاب وقبول کا مرحلہ آتا ہے۔ جس کے بعد مرد اور عورت نکاح کے مقدس بندھن میں باندھ دیے جاتے ہیں۔
خطبہ نکاح کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جن آیات کی تلاوت فرمایا کرتے تھے ‘وہ درج ذیل ہیں:
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ سے (ایسے)ڈرو (جیسا کہ) اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ اور تمہیں ہر گز موت نہ آئے‘ مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو۔‘‘
''اے لوگو! ڈرو اپنے رب سے جس نے تمہیں پیدا کیا ہے اور ایک جان (آـدم) سے اور اس نے پیدا کیا اُس (جان)سے اُس کا جوڑا اور پھیلا دیے اُن دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں ۔ اور ڈرتے رہو اللہ سے جو(کہ) تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اس کا واسطہ دے کر اور رشتوں (کو توڑنے) سے (بھی ڈرو) بے شک اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔‘‘
''اللہ سے ڈرو اور بالکل سیدھی بات کہو۔ وہ درست کر دے گا تمہارے لیے تمہارے اعمال اور وہ بخش دے گا تمہارے لیے تمہارے گناہ اور جو کوئی اطاعت کرے اللہ اور اس کے رسول کی تو یقینا اس نے کامیابی حاصل کی بہت بڑی کامیابی۔‘‘
ان تینوں آیات میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے ڈر کا حکم دیا؛ چنانچہ دولہا دلہن کے لیے بھی ان آیات میں انتہائی مفید نصیحتیں موجود ہیں‘ اگر دولہا اللہ تبارک وتعالیٰ کا ڈر اختیار کر لے تو وہ کبھی بھی بیوی کا استحصال اور اس سے زیادتی نہیں کرے گا۔ اسی طرح اگر دلہن اللہ سے ڈرنا شروع کر دے تو وہ دولہا اور اس کے گھر والوں کے بگاڑ کے لیے کبھی کوشاں نہیں ہو گی‘ بلکہ ہمہ وقت ان کی خیرخواہی پر آمادہ وتیار رہے گی۔ ہمارے خاندانوں میں خوف خدا کی کمی ہے ‘جس کی وجہ سے خاندان بگاڑ اور انتشار کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اسی طرح ان آیات مبارکہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر فرمایا کہ پروردگار عالم نے ہمیں ایک نفس سے پیدا کیا۔ شادی کے موقع پر ان آیات پر غوروفکر کرنے کا موقع ملتا ہے کہ برادریاں اور خانوادے فقط تعارف کے لیے ہیں‘ وگرنہ سچی بات یہ ہے کہ ہم سب کی اصل ایک ہے اور اگر ہم اپنی اصل کو فراموش نہ کریں تو کبھی بھی جھوٹی عزت ‘ وقار اور انا کے لیے باہم دست وگریبان ہونے پر آمادہ و تیار نہیں ہو سکتے۔
اسی طرح ان آیات میں سیدھی بات کہنے حکم دیا گیا۔ شادی بیاہ کے موقع پر بالعموم لڑکے کی آمدن اور لڑکی کی تعلیم اور عمر کے حوالے سے جھوٹ بولا جاتا ہے۔ یہ جھوٹ بعد میں آنے والے زندگی میں انا کو ٹھیس پہنچاتا اور شرمندگی کا باعث بنتا ہے؛ اگر انسان نے سچائی سے کام لیا ہو تو باہمی اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے اور انسان ندامت سے بچ جاتا ہے ۔ ان آیات میں اس بات کا ذکر کیا گیا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ سچائی کی برکت سے ہمارے معاملات کو سنوار دے گا اور ہمارے گناہوں کو معاف فرما دے گا۔ شادی بیاہ کے موقع پر کئی مرتبہ ایسی رسومات کا اہتمام کیا جاتا ہے‘ جن میں فضول خرچی‘ تکبر ‘ خودپسندی‘ خود نمائی اور اختلاط کو پروان چڑھایا جاتا ہے‘ یہ تمام چیزیں اللہ تبارک وتعالیٰ کی ناراضی کا باعث ہیں؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں‘ جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی اس نے بڑی کامیابی حاصل کی۔ نکاح کی تقریبات کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی خشیت اور پیغمبر علیہ السلام کے طریقے کے مطابق کرنے کے نتیجے میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا فضل ‘رحمت اور تائید شامل حال ہو جاتی ہے اور انسان غلط راستوں پر چلنے سے بچ جاتا ہے۔ شادی کی تقریب کے اختتام پر خوش ذائقہ کھانے کا اہتمام کیا گیا تھا‘ جس کو تناول کرنے کے بعد دوست احباب نے بڑی محبت سے الوداع کیا۔
شادی کی تقریب کے اگلے روز جب قریبی مسجد میں نمازظہر کی ادائیگی کے پہنچا تو وہاں پر ایک میت کو بھی جنازے کے لیے لایا گیا تھا۔ نماز کے بعد جنازے میں شرکت کا موقع ملا۔ قاری صاحب نے بڑے ہی رقت آمیز میں انداز میں جنازہ پڑھایا اور جنازے سے پہلے اس بات کا ذکر کیا کہ ہر شخص نے فنا کے گھاٹ اترنا ہے باقی رہنے والی ذات فقط اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ہے اور ہر نفس نے موت کا مزہ چکھنا ہے اور اسی طرح ہم سب کو بھی ایک دن موت کے مراحل سے گزرنا پڑے گا۔ جنازے کے اختتام پر طبیعت پر غم کے اثرات مرتب ہو رہے تھے اور یہ سوچ آ رہی تھی کہ رات کو ایک عزیز دوست کی شادی کی تقریب میں شرکت کا موقع میسر آیا اور اب اس وقت ایک جنازہ پڑھنے کا موقع مل رہا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ انسانی زندگی اسی طرح خوشیوں اور غموں آمیزش کا نام ہے۔ زندگی کے کسی ایک مرحلے پر ملنے والی خوشیاں دائمی نہیں ہوتیں بلکہ ان کے بعد کوئی سانحہ کوئی جدائی اور غم انسان کا منتظر ہوتا ہے۔ اسی طرح ان جنازوں‘ مشکلات اور تکالیف کے ساتھ ساتھ انسان کی زندگی میں خوشیاں اور کامیابیاں بھی آتی رہتی ہیں۔ درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ زندگی کے ان بدلتے ہوئے رنگوں کے دوران اپنے بندوں سے بندگی کے صحیح انداز کو طلب کرتے ہیں۔ خوشی کے موقع پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرنا اور نفس کی اکساہٹ کو دبانا اور اس کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی تابعداری کے راستے پر چلانا اصل کامیابی ہے۔ اسی طرح غم کو دیکھ کر مایوسی اور نا امیدی کے راستے کو اختیار کرنے کی بجائے غم کے موقع پر صبر کرنا ہی درحقیقت کامیابی کا راستہ ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ شکراور صبر کرنے والوںکے ساتھ ہوتے اور ان کی تائید فرماتے ہیں اور اس امر کا اظہار اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 155,156,157 میں یوں فرماتے ہیں : ''اور البتہ ضرور ہم آزمائیں گے تمہیں کچھ خوف سے اور بھوک سے اور مالوں میں سے اور جانوں میں کمی کرکے اور پھلوـ ں میں (کمی کرکے) اور خوشخبری دے دیں صبر کرنے والوں کو۔ وہ لوگ جب پہنچتی ہے انہیں کوئی مصبیت تو کہتے ہیں بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں وہی لوگ ہیں (کہ) ان پر عنایات ہیں ان کے رب کی طرف سے اور رحمت ہے اور وہی لوگ ہی ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘
اور شکر کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نساء کی آیت نمبر 147میں یہ ارشاد فرماتے ہیں: ''کیا کرے گا اللہ تمہیں عذاب دے کر اگر تم شکر کرو اور (صحیح طور پر) ایمان لے آؤ اور اللہ قدردان خوب علم رکھنے والا ہے ۔‘‘
اور سورہ ابراہیم کی آیت نمبر7 میں یوں فرماتے ہیں :''اور جب آگاہ کر دیا تمہارے رب نے یقینا اگر تم شکر کرو گے (تو) بلاشبہ ضرور میں تمہیں زیادہ دوں گا اور بے شک اگر تم ناشکری کرو گے (تو) بلاشبہ میرا عذاب یقینا بہت ہی سخت ہے۔‘‘اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں زندگی کے اتار اورچڑھا ؤ کے دوران صبر اور شکر کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔(آمین)
انسانی زندگی مختلف ادوار سے گزرتی رہتی ہے۔ اس میں کہیں خوشیاں ہیں تو کہیں غم ہیں۔ جو انسان عوامی زندگی گزارتا ہو اس کو خوشیوں اور غموں کے مختلف رنگوں کو دوسرے لوگوں کے مقابلے میں دیکھنے کا زیادہ موقع ملتا ہے۔ چند روز قبل ہونے والے سانحہ ساہیوال نے پوری قوم کو غم میں ڈبو دیا ۔