"AIZ" (space) message & send to 7575

بعض متنازعہ اُمور

کسی بھی جمہوری معاشرے میں حکومت کی پالیسیوں اور فیصلوں پر تنقید کرنا معمول کی بات ہے۔ اس وقت وطن عزیز میں بھی بعض اُمور کے حوالے سے عوامی سطح پر گرما گرم بحث جاری ہے۔ ان میں سے سرفہرست سرکاری حج پیکیج کی قیمت کو بڑھانا ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے حج پیکیج کی مالیت کی قیمت پونے تین لاکھ روپے کے لگ بھگ چلی آ رہی تھی۔ ہر سال لوگ بڑے زورو شورسے سرکاری پیکیج کے ذریعے حج کرنے کی کوششیں کرتے ہیں اور اس مقصد کے لیے لاکھوں کی تعداد میں درخواستیں جمع کروائی جاتی ہیں‘ جس کا اس پیکیج میں نام نکل آتا وہ انتہائی خوش ہوتا۔ سرکاری حج پیکیج استعمال کرنے والوں کی اکثریت مالی طور پر کمزور طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ طبقہ امراء سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ پرائیوٹ گروپوں میں شامل ہو کر اس فریضے کو انجام دیتے رہتے ہیں۔ حج کے شوقین بہت سے غریب لوگ عمر بھر کی جمع پونجی کو جمع کرکے حج کی ادائیگی کو اپنے لیے غنیمت سمجھتے ہیں۔ لیکن حج کی قیمت میں بیک وقت ایک لاکھ چھپن ہزار روپے کے اضافے کی وجہ سے ملک کے طول وعرض میں ایک بحث شروع ہو گئی ہے۔ اس بحث کو وفاقی وزیر اطلاعات کے بیان نے ایک نیارُخ دیا ہے۔انہوں نے یہ بات کہی کہ حج فقط صاحب استطاعت پر فرض ہے اور جو لوگ استطاعت نہیں رکھتے ان کو عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں سے سبسڈی نہیں دی جا سکتی۔ اس موقع پر یہ سوال اُٹھایا گیا ہے کہ ٹیکس کے پیسوں اور سودی قرضوں کے ذریعے حاصل ہونے والی رقم کو حج سبسڈی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ 
یہ ایک حقیقت ہے کہ حج کی قیمتوں کے بڑھانے کا تعلق فقط سبسڈی کے ساتھ نہیں‘ بلکہ روپے کی قدر میں مسلسل کمی واقع ہونے کے سبب ہوٹلوں اور ٹرانسپورٹ کے کرایوں اور دیگر اخراجات میں اضافہ ہو چکا ہے جن کو پورا کرنے کے لیے بین الاقوامی کرنسیوں میں ادا کی جانے والی رقم کو جب روپے میں تبدیل کیا جاتا ہے تو اشیاء کی خریداری کے لیے اضافی رقم ادا کرنی پڑتی ہے؛ چنانچہ معاشی کمزوری کی وجہ سے حج پیکیج کی قیمت میں خاطر خواہ اضافہ ہو چکا ہے۔ جہاں تک تعلق ہے سبسڈی کی بات کا تو ملک میں بہت سے دیگر معاملات کے لیے بھی سبسڈی دی جاتی ہے ‘جن میں علاج معالجہ‘ تعلیمی سہولیات اور حالیہ دور حکومت میں لائیو سٹاک اور پولٹری فارم کے منصوبہ جات شامل ہیں ۔ اسی طرح ٹیکسوں اور قرضوں کے پیسوں سے ہی حکومتی عہدیداران اور ارکان اسمبلی کو تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ اگر یہ سب کچھ قرضوں کی رقم سے کرنا جائز ہے‘ تو حج کے لیے دی جانے والی سبسڈی کو شرعی بنیادوں پر متنازع بنانے کی کوشش درست نہیں۔ یہ مسئلہ انتظامی نوعیت کا ہے اور حکومت کو اس سلسلے میں حاجیوں کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے اپنے اثرورسوخ ‘ تعلقات اور ابلاغی صلاحیتوں کو استعمال کرنا چاہیے۔ سعودی عرب ایک عرصے سے ہمارے ملک کا معاون ہے‘ اگر اس کی معاونت کے ایک حصے کو حاجیوں کے لیے استعمال کرلیا جائے ‘توا س میں بھی کوئی قباحت نظر نہیں آتی۔ 
دوسرا اہم مسئلہ جس پر شدومد سے بحث کی جارہی ہے ‘وہ کم عمری کی شادی کا مسئلہ ہے۔ اسلام میں لڑکی کی رخصتی کا معیار اس کی بلوغت ہے اور بلوغت کا تعلق عمر کے ساتھ نہیں ہوتا اور ہر شخص کی بلوغت کی عمردوسرے شخص سے مختلف ہوسکتی ہے؛ چنانچہ میڈیا ‘ ابلاغ اور گلیمر کے اس دور میں اگر کوئی شخص بلوغت کے بعد اپنے بچے اور بچی کی شادی کرنا چاہتا ہے تو اس پر کسی قسم کی پابندی عائد کرنادرست نہیں۔ ریاستی پالیسی سازوں کو نجی معاملات میں مداخلت کرنے کی بجائے معاشی اور معاشرتی بہتری کے حوالے سے قانون سازی کرنی چاہیے‘ بصورتِ دیگر اس کے نتیجے میں معاشرتی گھٹن کے پیدا ہونے کے امکانات ہو سکتے ہیں۔ 
ہمارا مذہب اسلام بھی بنیادی طور ہر طرح کی بے راہ روی اور مرد و زن کے آزادنہ اختلاط کا مخالف ہے اور صنفی جذبات کے اظہار کو صرف شوہر اور بیوی کے درمیان ہی جائز قرار دیتا ہے ۔اسلام بے راہ روی پر قابو پانے کے لیے کم عمری کی شادی کو بھی درست سمجھتاہے ۔ بااعتماد اور مصدقہ ذرائع سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کی روشنی میں اس حقیقت کو پہچاننا کچھ مشکل نہیں کہ کم عمر کے لڑکے اور لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد غیر اخلاقی سر گرمیوں میں ملوث ہے‘ جن میں سے سرفہرست خودلذتیت ہے۔ خودلذتیت کی لعنت کی وجہ سے بہت سی جسمانی اور روحانی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں‘ جن سے جان چھڑانا کئی مرتبہ بہت مشکل اور بعض صورتوں میں نا ممکن ہو جاتا ہے ۔احساسِ جرم‘ ندامت اور ذہنی انتشار کی وجہ سے کم عمر لڑکے لڑکیوں کی تعلیمی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوتی ہیں ۔
یہ اعدادو شمار اور مشاہدات بلوغت کے فوراً بعد ہونے والی شادی کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کرتے ہیں اور اس امر کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں کہ اگر لڑکا اور لڑکی اپنے اہلخانہ کی مدد یا ان کے تعاون کے بغیر شادی کے بعد کی ذمہ داریوں کو نبھا سکتے ہیں تو انکو فیل الفور ایسا کرنا چاہیے ۔سورۃ نور کی آیت نمبر 32میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''اور شادیاں کرو اپنے درمیان موجود بغیر نکاح کے رہنے والے لوگوں کی اور اپنے نیکو کار غلاموں اور لونڈیوں کی بھی؛ اگر وہ فقیر ہوں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو غنی فرما دے گا اور اللہ تعالیٰ وسعت رکھنے والا با علم ہے ‘‘۔آیت مذکورہ واضح کرتی ہے کہ مردوزن معاشی طور پرمستحکم نہ بھی ہوں تو انکی شادی کرنی چاہیے۔ گویا کہ اسلام میں کردار کی اہمیت معیشت کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرون اولیٰ کے مسلمانوں میں کم عمری کی شادی کا تصور عام تھاجس کا منطقی نتیجہ ایک صحت مند اور انتہائی صاف ستھرے معاشرے کی شکل میںظاہرہوا ۔قرون اولیٰ کی بعض ممتاز صحابیات جن کی کم عمری میں شادی ہوئی درج ذیل ہیں ۔
(1)اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا (2)اُم المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا (3)حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا (4)حضرت اُم کلثوم بنت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا ۔ اگر قرون اولیٰ کے مسلمان اس شادی کو جائز اور درست سمجھتے اور اس پر عمل پیرا تھا توآج کے مسلمان کم عمری کی شادی کو اپنے لیے عیب کیوں سمجھتے ہیں ۔ کم عمری کی شادی کی مخالفت کے پس منظر میں اسلام مخالف قوتوں کی ایک سازش بھی شامل ہے جو اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہیں کہ فحش مواد‘ گندے لٹریچر‘ انٹر نیٹ اور کیبل کے پھیلاؤ کے باوجود جب تک چھوٹی عمر کی شادی نہیں رُکے گی معاشرے میں اخلاقی جرائم کی نشوونما کے لیے مطلوبہ ماحول میسر نہیں آسکتا ۔
مشرقی معاشرے عام طور پریورپ کی ترقی سے مرعوب ہیں جب یورپی معاشروں میں شادی کی قانونی عمر کا جائزہ لیا جاتا ہے تو انسان حیران رہ جاتا ہے کہ بہت سے یورپی معاشروں میں کم عمری کی شادی کو قانونی تحفظ حاصل ہے ۔ وکی پیڈیا سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق یونان ‘سکاٹ لینڈ ‘آسٹریا‘بلغاریہ‘ کروشیا اور چیک ریپبلک سمیت بہت سے ممالک میں لڑکی کے لیے شادی عمر 16برس جبکہ ڈنمارک‘ ایستونیا ‘ جارجیا‘لیتھوانیا میں شادی کی عمر کم ازکم 15برس ہے اسی طرح جنوبی امریکہ کے ممالک بولیویا اور پاراگائے میں شادی کی کم ازکم عمر 14برس ہے ۔ویٹیکن سے شائع ہونے والی کیتھولک چرچ کی معروف قانونی دستاویز '' ڈیری منٹ ایمبیڈیمنٹ‘‘کے مطابق لڑکا 16برس اور لڑکی کی 14برس کی عمر میں شادی کر سکتے ہیں ؛اگر ان دلائل کو سامنے رکھا جائے تو پاکستان جیسے اسلامی ملک میں شادی کے لیے 18 برس کی عمر کو مقرر کرنا کسی بھی طور پر درست نہیں۔ ماضی قریب میں جب ڈاکٹر رمیش کمار نے شراب نوشی کے خلاف پارلیمنٹ میں بل پیش کیا تو ملک کی بہت سی جماعتوں نے اس پابندی کو قبول نہیں کیا تھا اور اس موقع پر یہ بات کہی گئی تھی کہ جس نے شراب پینی ہو وہ پی سکتا ہے‘ جس نے نہیں پینی وہ نہ پیئے۔ سوچنے کی بات ہے کہ اس موقف کا اطلاق نکاح کی عمر کے موقع پر کیوں نہیں کیا جاتا۔ یہ ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے اور اس میں ریاست کو مداخلت کرکے نئے تنازعات کو جنم نہیں دینا چاہیے۔
تیسرا متنازعہ مسئلہ سانحہ ساہیوال ہے‘ جس میں خلیل کے خاندان اور ذیشان کو غیرمصدقہ اطلاعات کی بنیاد پر قتل کر دیا گیا۔ اس سانحہ پر پوری قوم نے شدید غم وغصے کا اظہار کیا۔ اعلیٰ حکام کی طرف سے جے آئی ٹی رپورٹ پیش کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی‘ لیکن سردست اس حوالے سے کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکی۔ مقتول ذیشان کی والدہ بھی اس سانحے پر غم اور بے بسی کی تصویر بنی ہوئی نظر آتی ہیں۔ جہاں پر ان کو اپنے بیٹے کی المناک موت پر تشویش ہے ‘وہیں پر ان کو اس بات کا بھی دکھ ہے کہ ان کے بیٹے کو دہشت گرد قرار دے کر ان کے اہل خانہ کی آئندہ کی زندگی کو مخدوش بنایا جا رہا ہے۔ ریاست کو اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو اد اکرنا چاہیے ‘بے گناہ شہریوں پر لگنے والے الزامات کا ازالہ کروانا چاہیے اور سانحے کے ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دلوانی چاہیے۔ 
اس کے ساتھ ساتھ ملزمہ آسیہ کے مسئلے پر بھی ملک کے طول وعرض میں ایک بحث جاری و ساری ہے۔ آسیہ کی بریت کے خلاف نظر ثانی کی اپیل سپریم کورٹ میں دائر کی گئی تھی‘ لیکن بدقسمتی سے بغیر سماعت کے ہی اس اپیل کو خارج کر دیا گیا۔ جس پر ملک بھر کی دینی جماعتوں کو شدید تشویش اور تحفظات ہیں۔اس تشویش کے ازالے کے لیے بھی حکومت اور عدالتوں کو اپنا کردارادا کرنا چاہیے‘ تاکہ ملک میں دینی اور لبرل طبقات کے درمیان کشمکش کو فروغ حاصل نہ ہو اور ملک امن وسکون کا گہوارہ بنا رہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں