ہر سال پانچ فروری کو دنیا بھر میں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے پاکستانی مختلف تقریبات‘ جلسوں اور جلوسوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ ان تقریبات میں انڈیا کے غیر جمہوری اور آمرانہ رویوں پر تنقید بھی کی جاتی ہے اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کے جائز مطالبے کے ساتھ اظہار یکجہتی بھی کیا جاتا ہے۔ کشمیری اس اعتبار سے لائق تحسین ہیں کہ 1947ء میں پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک 72 برس گزرنے کے باوجود کشمیریوں نے اپنے اصولی موقف سے انحراف نہیں کیا اور ہر دور میں پاکستان کے ساتھ اظہار وابستگی کیا ہے۔ مجھے دنیا کے مختلف مقامات پر کشمیری بھائیوں سے ملاقات کرنے کا موقع میسر آتا رہا ہے۔ برطانیہ میں بھی بڑی تعداد میں آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں اور انہوں نے یہ مطالبہ تواتر کے ساتھ مختلف فورمز پر اُٹھایا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں ان کے بھائیوں کے ساتھ ہونے والے ظلم وبربریت کا ازالہ ہونا چاہیے۔ گزشتہ ماہ مجھے عمرے پر جانے کا موقع ملا تو مدینہ منورہ میں بعض کشمیری احباب بڑے ہی پرجوش انداز میںملے۔ بعد ازاں یہ کشمیری احباب مجھ سے ملاقات کے لیے بھی ہوٹل میں تشریف لائے‘ جہاں میرا قیام تھا۔ انہوں نے اس ملاقات میں کشمیریوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کو نقشہ کھینچا تو دل ودماغ پر ایک افسردگی کی کیفیت طاری ہو گئی۔ انہوں نے بتلایا کہ جب کشمیر میں تحریک آزادی کی لہر زور پکڑتی ہے‘ تو کئی کئی ماہ تک کاروباری معاملات معطل ہو جاتے ہیں اور خشک میوہ جات اور گھر میں ذخیرہ کیے ہوئے اناج پر ہی کشمیری لوگ گزارہ کرتے ہیں اور حالات میں اگر قدرے اعتدال بھی آجائے تو صبح نو بجے سے لے کر شام پانچ بجے تک کاروباری مراکز اور دفاتر تک آمدورفت ہوتی ہے اور اس کے بعد تمام معاملات کو معطل کر دیا جاتا ہے۔ بدنصیبی سے دفاتر یا تجارتی مراکز سے واپس آنے میں تاخیر ہو جائے تو زندہ گھر واپس آنے کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ کسی مجبوری کے تحت شام ڈھلے گھر سے باہر نظر آنے والے شخص کو مشکوک سمجھ کر بغیر کسی جرم کے شہید کر دیا جاتا ہے۔ سرینگر کے ان دوستوں میں پاکستان کے ساتھ والہانہ محبت نظر آئی اور یہ دوست احباب پاکستان کے مستقبل کے بارے میں بہت زیادہ متفکر نظر آئے۔ کشمیریوں کے اس پیار اور محبت کو دیکھ کر میرے ذہن میںیہ خیال آیا کہ ہم پانچ فروری کو اہل کشمیر کے ساتھ جس یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں ؛اگر اسی یکجہتی کو پورا سال برقرار رکھا جائے تو وہ دن دور نہیں‘ جب کشمیر بھارت کے پنجہ ظلم وستم سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ کشمیریوں کے حوالے سے اقوام عالم نے اپنی ذمہ داری کو ادا نہیں کیا جو ان کا حق بنتا تھا۔ اقوام متحدہ میں پاس ہونے والی استصواب رائے کی قرار داد کو بھارت ٹال مٹول کے ذریعے ملتوی کرتا رہا اور مسئلہ طول پکڑنے کی وجہ سے الجھاؤ کا شکار ہو تا رہا‘ لیکن اس حوالے سے اقوام متحدہ کی جو ذمہ داریاں بنتی تھیں انہوں نے ادا نہیں۔ انڈونیشیا اور سوڈان کے معاملات میں مسیحیوں کی ریاست کے قیام کے لیے تو اقوام متحدہ اپنے اثرورسوخ کو استعمال کرنے کے لیے آمادہ نظر آتی ہے‘ لیکن فلسطین ‘ برما اور کشمیر کے مسائل کے حوالے سے اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی انجمنوں نے دوہرا معیار اختیار کرنا چاہیے۔ اسی طرح ہم اس بات کا بھی تجزیہ کر سکتے ہیں کہ اُمت مسلمہ کی اس حوالے سے جو ذمہ داریاں بنتی ہیں وہ بھی صحیح طریقے سے ادا نہیں کی گئیں۔ کچھ عرصہ قبل رابطہ عالم اسلامی کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری پاکستان تشریف لائے تو ان کے اعزاز میں آزاد کشمیر کے سیاسی رہنماؤں نے ایک تقریب کا اہتمام کیا تھا اس تقریب میں رابطہ عالم اسلامی کے جنرل سیکرٹری نے مسئلہ کشمیر کو پوری طرح اجاگر کیااور اپنی ہمدردیوں کی یقین دہانی کروائی۔ اگرچہ اس مسئلے کو رابطہ عالم اسلامی اور او آئی سی تسلیم کرتے ہیں‘ لیکن اس کے باوجود بھارت ظلم وبربریت سے دستبردار ہونے پر آمادہ وتیار نہیں۔ 72 برسوں کے دوران جو ظلم وبربریت بھارت نے کیا وہ تو اپنی جگہ ایک حقیقت ہے؛ اگر ہم 2018ء کا جائزہ لیں تو بھارتی مظالم کے حوالے سے سال 2018ء بھی بد ترین رہا‘اس سال 425 بے گناہ کشمیری شہید ہوئے‘ جبکہ پیلٹ گن کے استعمال سے بھی ہزاروں شہری بینائی سے محروم ہو چکے ہیں جن میں معصوم بچوں اور خواتین کی بڑی تعداد شامل ہے۔سرینگر‘ شوپیاں‘ کلگام‘ پلوامہ اور بارہ مولا سمیت ریاست بھر میں گھر گھر تلاشی اور محاصروں کے دوران انسانیت سوز مظالم کا سلسلہ جاری رہا۔ سال کا شاید ہی کوئی ایسا دن گزرا جب بھارتی فوج نے سرحد کے دونوں جانب رہنے والے کشمیریوں کے خون سے اپنی پیاس نہ بجھائی ہو۔جنوری کے مہینے میں بھارتی فوج نے فائرنگ اور تشدد کر کے 25 افراد کو شہید کر دیا۔ فروری کے مہینے میں 16 جبکہ مارچ میں 35 نہتے کشمیریوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔اپریل اور مئی میں بھارتی فوج نے ظلم کی ہر حد پار کر دی۔ اپریل میں 43 ‘جبکہ مئی میں 47 کشمیریوں کو شہید کیا گیا۔ جون 2018ء میں 36‘ جولائی میں 21‘ اگست میں 35 جبکہ ستمبر میں 43 کشمیریوں کو شہید کر دیا گیا۔بھارتی فوج نے کشمیریوں کو اپنی وحشیانہ طاقت کا نشانہ بناتے ہوئے اکتوبر میں 43‘ نومبر میں 52 جبکہ دسمبر میں مزید 29 بے گناہ کشمیریوں کو شہید کیا۔ قتل وغارت کے باجود بھارت آج تک کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو دبا نہ سکا۔ ہر روز کشمیری اپنے پیاروں کو اس عہد کے ساتھ قبروں میں اتارتے ہیں کہ کشمیر کی آزادی تک تکمیل پاکستان کی یہ جنگ جاری رہے گی۔اہل پاکستان کو اس حوالے سے کتاب وسنت کی تعلیمات کو بھی پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ حجرات کی آیت نمبر10میں ارشاد فرماتے ہیں: '' بے شک تمام مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔‘‘ اسی طرح بخاری ومسلم کی ایک روایت جس کے راوی حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیںمیں مذکور ہے:'' مومن کی مثال آپس میں ایک دوسرے سے رحم کا معاملہ کرنے ایک دوسرے سے محبت و تعلق رکھنے اور ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی و معاونت کا سلوک کرنے میں ایک جسم کی طرح ہیں کہ اگر جسم کے کسی ایک عضو میں کانٹا لگنے یا بخار کی وجہ سے درد ہو تو پورے جسم میں وہ محسوس ہوگا۔‘‘
اگر حقیقت پسندی سے تجزیہ کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اقوام متحدہ اور اُمت مسلمہ سے کہیں بڑھ کر مسئلہ کشمیر کو منطقی انجام تک پہنچانے کی ذمہ داری پاکستان پر عائد ہوتی ہے اس لیے کہ پاکستان کا کشمیریوں کے ساتھ مذہبی‘ انسانی اور قومی تعلق ہے۔ کشمیر کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کی بہت بڑی وجہ پاکستان کے ساتھ ان کی والہانہ وابستگی ہے۔ پاکستان کو مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اپنے سفارتی مشن کو تیز کرنا چاہیے اور بھارت کو ظلم وبربریت سے روکنے کے لیے اقوام عالم پر دباؤ دینا چاہیے تاکہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دلوایا جا سکے۔ ماضی کی مختلف حکومتوں کی طرح مودی حکومت کشمیریوں کو ورغلانے اور دبانے کی زبردست کو ششوں میں مصروف ہے لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود اہل کشمیر اپنے اصولی موقف سے ہٹتے ہوئے نظر نہیں آ رہے۔
یوم یکجہتی کشمیر پر پاکستانی قوم کا طرز عمل یقینا اہل کشمیر کے لیے حوصلہ افزائی کا باعث ہوتا ہے اور میں نے اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ اہل کشمیر پاکستان کے عوام اور مذہبی رہنماؤں کے رویوں سے نالاں نہیں ہے ‘انہیں شکوہ ہے تو پاکستان کے حکمرانوں سے ہے کہ وہ اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا نہیں ہورہے۔ یہ تاسف کا مقام ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں جب اپوزیشن میں ہوتی ہیں تو مسئلہ کشمیر کو کھل کر اجاگر کرتی ہیں‘ لیکن جب برسراقتدار آ جاتی ہیں تو مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کر دیتی ہیں۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو مسئلہ کشمیر کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور فقط کشمیر کمیٹی کے قیام کو کافی نہیں سمجھنا چاہیے۔ گو پاکستانی حکومتیں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے باوجوہ جارحانہ مؤقف نہیں اپنا سکیں‘ لیکن حکومتوں کی مصلحتوں اور سیاسی ترجیحات میں سقم کے باوجود کشمیریوں کے عزائم اور پاکستان سے ان کی والہانہ محبت کو دیکھ کر اس بات کا تجزیہ کرنا کچھ مشکل نہیں رہتا کہ انشاء اللہ وہ دن دُور نہیں کہ جب کشمیر بھی پاکستان کا حصہ ہو گا اور بھارت اپنے غاصبانہ اور جابرانہ قبضے کو عزائم کو کشمیر پر مسلط رکھنے میں تادیر کامیاب نہیں ہو سکے گا۔