دنیا میں ہر شخص محبت کا طلب گار ہے اور ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے دوست احباب‘ رشتہ دار اور اعزاء واقارب اس سے محبت اور پیار والا برتاؤ کریں۔ جس انسان کی زندگی میں محبت کی کمی واقع ہو جائے نفسیاتی اعتبار سے وہ محرومیوں کا شکا ر ہو جاتا ہے اور اس کی زندگی کئی اعتبار سے عدم توازن کا شکار ہو جاتی ہے۔ چنانچہ ہم بہت سے یتیم بچوں میں محبت کی کمی کے سبب بہت سے نفسیاتی عارضوں کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ جن لوگوں کی زندگی میں ان کے پیارے اور قریبی رشتے داروں کا انتقال ہو جاتا ہے وہ محبت کی کمی کو زندگی کے مختلف ادوار میں محسوس کرتے ہیں اور زندگی کی ہر خوشی اور غم کے موقعوں پر اُن کو عزیز اور پیاروں کی یاد آتی رہتی ہے۔
اسلام نے انسان کو اپنے گردوپیش میں بسنے والے دوست احباب اور اعزاء واقارب سے ـمحبت کرنے کی اجازت دی ہے۔ اسی طرح دنیا بھر کے مسلمانوں کے مابین رشتہ اخوت کو قائم کیا گیا ہے اورحدیث پاک میں ارشاد ہوا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اپنے بھائی کے لیے اس چیز کو پسند نہیں کرتا جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ اسلام نے صنفی محبت کے رُخ کو بھی متعین کر دیا ہے اور ہر انسان کو صنفی حوالے سے اپنی بیوی سے محبت کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ سورہ نساء کی آیت نمبر 19 میں ارشاد ہوا: ''اور زندگی بسر کرو ان کے ساتھ اچھے طریقے سے‘‘۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :''تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ بہترین ہے اور میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ سب سے بہترین ہوں۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طبیہ کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ آپ عبادت گزاری‘ تبلیغ دین‘ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعلیم وتربیت ‘ جہاد فی سبیل للہ کے ساتھ ساتھ ازواج مطہرات کے ساتھ بھی انتہائی پیار والا برتاؤ کرتے۔ گھریلو امور میں ان کے ہاتھ بٹایا کرتے تھے۔ آپ ﷺنے جہاں پر عبادت اور زُہد سے بھرپور زندگی گزاری وہیں پر آپ ﷺنے گھریلو اعتبار سے بھی مثالی زندگی گزاری اور آپ ﷺکی زندگی کا یہ پہلو پیار اور محبت کا ایک حسین شاہکار تھا۔ جس میں اہل ایمان کے لیے بہت سے خوبصورت اسباق اور قیمتی مثالیں موجود ہیں۔
اسلام نے جہاں پر دوست احباب اور محرم رشتہ داروں سے کی جانے والی محبت کو تحسین کی نظر سے دیکھا ہے وہاں پر صنفی ـمحبت کو صرف بیوی کے لیے درست قرار دیا ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سے لوگ محبت کو غلط رنگ دے کر سماجی حوالے سے معاشرے کو منفی راستے پر چلانا چاہتے ہیں اور اُ ن آزادیوں کا مطالبہ کرتے ہیں جن کا مذہب‘ اخلاقیات اور شرم وحیا کے ساتھ کسی بھی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ مغربی معاشروں میں مردوزن کے اختلاط کے حوالے سے کوئی ایسی حدودوقیود نہیں ہیں‘ جو اسلامی اور مشرقی معاشروں اور روایات کا حصہ ہیں؛ چنانچہ وہاں پر آزادانہ اختلاط اور مردو عورتوں کے درمیان تعلقات کا پھیلاؤ بڑے وسیع پیمانے پر نظر آتا ہے۔ اس پھیلاؤ کے سبب ان معاشروں میں بے راہ روی اور بے حیائی اپنی پورے عروج پر نظر آتی ہے۔ مغربی معاشروں میں جانے والے لوگ کئی مرتبہ ان کے کلچر سے متاثر ہو کر انہی کے رنگوں میں رنگے جاتے تھے لیکن فاصلوں کے تفاوت کی وجہ سے وہ اثرات مشرقی معاشروں تک منتقل نہیں ہوتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میڈیا کے پھیلاؤ کے نتیجے میںـ مغربی ثقافت اور کلچر کے اثرات ہمارے معاشرے پر بھی مرتب ہوئے ہیں اور اب ہمارے معاشرے کے بہت سے افراد بھی اس آزادی کا حصول چاہتے ہیں‘ جو مغربی معاشروں کا خاصہ ہے۔ایک مخصوص طبقے کے یہاں مغربی تہذیب وثقافت کو روشن خیالی کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتاہے اور مردو زن اختلاط کو عورت کی ترقی کے ساتھ تعبیر کیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ مغربی معاشروں میں بے راہ روی اپنے پورے عروج پر ہے اور عورت کی بے پردگی کے ساتھ ساتھ عورت کی آبروریزی اور جنسی ہراسیت کے واقعات بھی اپنے پورے عروج پر نظر آتے ہیں۔
مغرب کی نقالی جہاںپر تہذیب وثقافت سے متعلقہ معاملات میں کی جاتی ہے وہاںپر ان کے بہت سے تہواروں کو بھی منانے کی باتیں کی جاتی ہیں۔ اسلامی اور مشرقی معاشرے میں ذمہ داریوں کو کل وقتی طور پر نبھانے کی بات کی جاتی ہے ‘جبکہ مغرب میں بعض ایام کو بعض ذمہ داریوں اور شخصیات کے ساتھ منسوب کرکے ان ایام میں اپنی محبت کا قرض چکانے کی باتیں کی جاتی ہیں؛ چنانچہ اس بات کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے کہ اسلا م میں والدین کی خدمت اور بیوی بچوں کے ساتھ حسن سلوک کل وقتی کام ہے جب کہ مغربی ممالک میں فادر اور مدر ڈے کے موقع پر اولڈ ہاؤسز میں رہنے والے بزرگ افراد یا وہ والدین جن سے اولادوں نے لاتعلقی اختیار کر لی ہوتی ہے ان سے اظہار یکجہتی کے لیے وقتی طور پر ان ایام کو منایا جاتا ہے۔سالانہ بنیادوں پر منائے جانے والے ایام میں سے 14فروری کا دن ویلنٹائن ڈے کے نام سے منسوب ہے‘ جس میں لوگ بالعموم اُن افراد سے اظہار محبت کرتے ہیں جن سے ازدواجی تعلقات نہیں ہوتے ۔آرتھو ڈوک چرچ باقاعدہ طور پر 14فروری کے دن کو ویلنٹا ئن ڈے کی حیثیت سے منانے کی رغبت دلاتے ہیں۔ ان ایام کو مغربی معاشروں کے ساتھ ساتھ مشرقی معاشروں اور پاکستان میں بھی ترویج حاصل ہوئی ہے اور ہم اس بات کا بخوبی مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ بہت سے لوگ ان رویے کو اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں ‘جو رویے مغربی ممالک میں وہ لوگ اختیار کرتے ہیں‘ جن کا دین وشریعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ ایسے افراد کو یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام میں زناکاری اور بدکرداری کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ زنا کرنا تو بڑی دور کی بات ہے‘ قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے زنا کے قریب جانے سے بھی منع کیا ہے۔ بدکرداری کے نتیجے میں معاشرے اخلاقی گراوٹ‘ فساد اور انتشار کا شکار ہو جاتے ہیں اور لوگ تہذیب‘ ثقافت اور انسانی اقدار کو فراموش کرکے حیوانی زندگی گزارنے کی طرف راغب ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح انہیں فحاشی اور عریانی کے بارے میں قرآن پاک کے احکامات کو بھی سمجھنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نور کی آیت نمبر 18 میں اس امر کا اعلان فرمایا کہ'' بے شک وہ لوگ جوپسند کرتے ہیں کہ اہل ایمان میں فحاشی پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔ ‘‘
یہ بات درست ہے کہ ہمیں معاشی اور سائنسی اعتبار سے ترقی کرنے کی ضرورت ہے اور مغرب نے تعلیم کے جن شعبوں میں پیش قدمی کی ہے ۔ان شعبوں میں ان سے رہنمائی حاصل کرنے میں کوئی عیب نہیں‘ لیکن جن حوالوں سے وہ تنزلی اور اخلاقی انحطاط کا شکار ہیں‘ ان شعبوں میں ا ن کی پیروی کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔
ہمارا مذہب اسلام جن روایات کا امین ہے‘ ان ہی پر چل کر ہم صحیح معنوں میں انسانوں کے حقوق کو ادا کر سکتے ہیں۔ گلیمر اور بے راہ روی کا شکار ہو کر ہم اگر عارضی طور پر لذت حاصل کرنے میں کامیاب ہو بھی جائیں تو مستقل اور دائمی خوشیوں کو پانے میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ان رویوںکے نتیجے میں لا شعور ی طور پر ہم ایسی سمت سفر کر رہے ہیں‘ جن کے نتیجے میں نکاح اور شادی بیاہ کے بندھن کی اہمیت اور خاندانی اور سماجی اقدار کی پاسداری کمزور ہوتی چلی جائے گی۔ ہمیں ان تمام رویوں سے بچ کر بحیثیت انسان اور مسلمان جو اخلاقی اور مذہبی پابندیاں اور ذمہ داریاں ہم پر عائد ہوتی ہیں اوران کو کھلے دل سے قبول کرنا چاہیے اور فقط جبلت اور نفسانی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے شرف انسانیت سے گر کر حیوانی رویوں کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے اور یہ بات جبھی ممکن ہے ‘جب ہم شرم وحیا اخلاقیات اور اسلام کے خاندانی اور معاشرتی اصولوں کو مدنظر رکھیں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو درست راستوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)