اللہ تعالیٰ کی نظروں میں دین فقط اسلام ہی ہے؛ چنانچہ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 19 میں ارشاد ہوا: ''بے شک دین تو اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہے۔‘‘
دین اسلام نے جہاں پر بہت سے اہم اُمور میں انسانوں کی رہنمائی کی ہے‘ وہیں پر سیاسیات کے حوالے سے بھی اسلام نے اپنے ماننے والوں کی کامل رہنمائی کی ہے۔ کسی بھی سیاسی نظام میں حکمرانوں کے چناؤ کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حکمرانوں کے اوصاف اور ذمہ داریوں کے حوالے سے بھی قرآن مجید میں بڑے ہی خوبصورت انداز میں بیش قیمت باتیں ارشاد فرمائی ہیں ۔ سورہ بقرہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے جناب طالوت کی بطور حاکم تقرری کا ذکر کیا تو اس بات کو بیان کیا کہ جناب طالوت صاحب علم اور صاحب طاقت تھے۔ بنی اسرائیل کے لوگوں نے آپ کی تقرری پر اعتراض کیا کہ ان کے پاس مال کی فراونی نہیں ہے تو ان کے نبی شموئیل علیہ السلام نے اس موقع پر ارشاد فرمایا کہ اللہ نے ان کو چنا ہے اور ان کو علم اور طاقت میں بڑھایا ہے۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر246 ‘247میں یہ واقعہ یوں بیان ہوا: ''کیاآپ نے نہیں دیکھا بنی اسرائیل کے گروہ کو موسیٰ علیہ السلام کے بعد کہ جب انہوں نے کہا اپنی نبی سے مقرر کر ہمارے لیے ایک بادشاہ (جس کی رہنمائی میں) ہم اللہ کی راہ میں جہاد کریں‘ انہوں نے کہا کہ کیا ہو سکتا ہے کہ اگر تم پر فرض کر دی جائے جنگ کہ تم جنگ نہ کرو وہ کہنے اور کیا ہو گا ہمیں کہ ہم جنگ نہ کریں ‘اللہ کے راستے میں؛ حالانکہ یقینا ہم نکالے گئے ہوں گے‘ اپنے گھروں سے اور اپنے بال بچوں سے‘ پھر جب فرض کر دی گئی ان پر جنگ (تو اپنے عہدسے)پھر گئے سوائے چند ایک کے ان میں سے اور اللہ خوب جاننے والا ہے ظالموں کو اور کہا ان سے ان کے نبی نے کہ بے شک اللہ نے تحقیق مقرر کرد یا ہے‘ تمہارے لیے طالوت کو بادشاہ۔ کہنے لگے: کیسے ہو سکتی ہے‘ اس کی بادشاہی ہم پر‘ حالانکہ ہم زیادہ حق دار ہیں بادشاہی کے اس سے اور نہیں دی گئی‘ اسے وسعت مال کی۔ انہوں نے کہا: بے شک اللہ نے اسے منتخب کیا ہے تم پر اور اسے زیادہ دی ہے‘ کشادگی علم اور جسم میں اور اللہ دیتا ہے اپنی بادشاہت جسے چاہتا ہے اور اللہ وسعت والا‘ بہت علم والا ہے‘‘ ۔ قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ حاکم وقت کو لوگوں کے مابین حق کے ساتھ فیصلے کرنے چاہیے؛ چنانچہ سورہ ص میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو اس بات کی تلقین ہے کہ لوگوں کے مابین حق کے ساتھ فیصلہ کیا کریں۔ سورہ ص کی آیت نمبر 26میں ارشاد ہوا: ''اے داؤد! بے شک ہم نے بنایا ہے آپ کو زمین میں خلیفہ تو آپ فیصلہ کریں‘ لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ اور نہ پیروی کریں خواہش (نفس ) کی۔‘‘قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو حکمت اور فیصلہ کن بات کرنے کی صلاحیتوں سے نواز ا تھا؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ ص کی آیت نمبر20 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور ہم نے دی اسے حکمت اور فیصلہ کن گفتگو (کی صلاحیت)۔ قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ حاکم وقت کو حکومت ملنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ سورہ نمل میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے واقعہ کو نقل فرمایا کہ جب ان کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے نعمتیں عطا فرمائیں تو وہ کس طرح اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے رہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی شکر گزاری کا واقعہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نمل کی آیت نمبر 17‘18 اور 19میں یوں بیان فرماتے ہیں : '' اور اکٹھے کیے گئے سلیمان‘ کے لیے اس کے لشکر (جو) جنوں اور انسانوں اور پرندوں (سے تھے) پھر وہ الگ الگ تقسیم کیے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ جب وہ آئے چیونٹیوں کی وادی پر کہا: ایک چیونٹی نے تم داخل ہو جاؤ‘ اپنے گھروں (بلوں) میں (کہیں) ہر گز کچل نہ دیں تمہیں سلیمان اور اس کا لشکر اس حال میں کہ وہ شعور نہ رکھتے ہوں۔ تو وہ مسکرائے ہنستے ہوئے اس (چیونٹی) کی بات پر اور کہا:اے میرے رب توفیق دے مجھے کہ میں شکر کروں تیری (اس) نعمت کا جو تو نے انعام کی مجھ پر اور میرے والدین پر اور یہ کہ میں عمل کروں نیک (کہ) تو پسند کرے اسے اور داخل فرما مجھے اپنی رحمتوں سے اپنے نیک بندوں میں۔‘‘
حکمرانوں کے اوصاف میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جہاں پر وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرتے رہیں ‘وہیں پر وہ حسن خاتمہ کی دعا بھی کرتے رہتے ہیں؛ چنانچہ انصاف پسند اور عادل حکمران جہاں پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں پر شکر گزاری کا رویہ اپناتا ہے‘ وہیں پر وہ اخروی کامیابی کی تمنا بھی کرتا رہتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کی دعا کو سورہ یوسف کی آیت نمبر 101یوں نقل فرمایا :''اے میرے رب! یقینا تو نے دیا مجھے بادشادہی میں سے (ایک حصہ) اور تو نے سکھایا مجھے باتوں (خوابوں) کی تعبیر سے۔ (اے) آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے تو (ہی)میرا کارساز ہے دنیا وآخرت میں فوت کر مجھے مسلمانی کی حالت میں اور ملا دے مجھے نیک لوگوں کے ساتھ۔‘‘
مذکورہ آیات سے مثالی حکمرانوں کے اوصاف کا خلاصہ کچھ یوں نکلتا ہے کہ اسے مندرجہ ذیل خصوصیات کاحامل ہونا چاہیے:۔
1۔ علم 2۔ طاقت3۔ عدل وانصاف 4۔ نفسانی خواہشات پر قابو5۔ حکمت6 ۔ فیصلہ کن گفتگو کی صلاحیت7۔ شکرگزاری 8۔ حسن خاتمہ کی تمنا 9 ۔ اخروی کامیابی کی آرزو۔
ان اوصاف کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام حـمید میں حکمرانوں کی ذمہ داریوں کے حوالے سے بھی سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:۔
1 ۔بد اعتقادی کا خاتمہ: حکمرانوں کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ انہیں بداعتقادی کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے؛ چنانچہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو جب اس بات کا علم ہوا کہ ملکہ سباء اور اس کی قوم کے لوگ سورج کی پوجا کر رہے ہیںتو آپ نے ملکہ سباء کو اپنے دربار میں طلب کیا اور عقلی دلائل کے ذریعے اس بات کو ثابت کیا کہ اس کا عقیدہ غلط ہے۔ جب اس پر حقیقت واضح ہوگئی تو اس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اسلام قبول کر لیا۔
2۔ فتنہ وفساد کا قلع قمع: حکمرانوں کی ذمہ داریوں میں یہ بھی شامل ہے کہ انہیں فتنہ وفساد کے قلع قمع کیلئے اپنا کردار ادا کرتے رہنا چاہیے؛ چنانچہ جناب طالوت نے جالوت کے خاتمے کیلئے اور حضرت ذوالقرنین نے اہل علاقہ کو یاجوج وماجوج کے فساد سے بچانے کیلئے ان کے اور یاجوج وماجوج کے درمیان ایک لوہے کی دیوار کو کھڑا کر دیا‘ جس پر نہ وہ چڑھ سکتے تھے اور نہ ہی نقب لگا سکتے تھے۔
3۔ معاشی ترقی: اسی طرح حکمرانوں کی ذمہ داریوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ انہیں معیشت کی بڑھوتری کے لیے اپنا کردار مؤثر انداز میں ادا کرنا چاہیے؛ چنانچہ حضرت یوسف علیہ السلام نے متوقع قحط کی آمد سے قبل غلے کی تدوین کے لیے ایسا پروگرام مرتب کیا کہ خوشحالی کے سات برسوں میں غلہ بقدر ضرورت استعمال کیا؛ چنانچہ جب قحط سالی کا دور دورہ ہوا تو نا صرف یہ کہ مصر کے لوگ خوشحالی کی زندگی گزارتے رہے‘ بلکہ گردونواح کے علاقوں سے لوگ بھی اپنی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مصر ہی سے رجوع کرتے رہے۔
4۔ نماز‘ زکوٰۃ ‘ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا نظام :اسی طرح حکمرانوں کے اوصاف کے حوالے سے سورہ حج کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انہیں نظام صلوۃ ‘ نظام زکوٰۃ اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فروغ کے لیے بھی کوشاں رہنا چاہیے۔ سورہ حج کی آیت نمبر 41 میں ارشاد ہوا''وہ لوگ کہ اگر ہم اقتدار دیں انہیں زمین میں (تو)وہ نماز قائم کریں اور ادا کریں زکوٰۃ اور حکم دیں نیکی کا اور روکیں برائی سے۔ ‘‘
5 ۔ جرائم کی بیخ کنی: اللہ تبارک وتعالیٰ نے قتل ‘ زنا‘ چوری‘ شراب اور بہتان تراشی جیسے قبیح جرائم کے خاتمے کے لیے حدود کا جو نظام عطا کیا ہے ؛اگر اس کو معاشرے میں لاگو کر دیا جائے ‘تو معاشرے سے ہر قسم کے جرائم کاخاتمہ ہو سکتا ہے۔ حدود اللہ کا نفاذ معاشرے کے تمام طبقات کے لیے یکساں ہوتا ہے اور رشوت‘ سفارش اور اثر ورسوخ کی وجہ سے کسی کو رعایت نہیں دی جاتی؛ چنانچہ بنو مخزوم کی ایک بااثر عورت کے لیے کی جانے والی سفارش کو رد کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں گا۔
قرآن کریم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عطا کر دہ تعلیمات پر خلفائے راشدین نے پوری طرح عمل کیا اور اپنی ذمہ داریوں کو احسن انداز میں ادا کیا؛ چنانچہ آج بھی ان کو حکمرانوں کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ عصر حاضر کے مسلمان حکمرانوں کو بھی قرآن وسنت اور خلفاء راشدین کے کردار سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے ‘تاکہ وہ مثالی حکمران بن سکیں اور مسلمان معاشرے بھی امن وسکون کا گہوارہ بن سکیں۔