2 مارچ کو جامعہ بیت العتیق میں قرآن کریم کے فضائل کے حوالے سے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں ملک کے نامور اہل علم اور قراء کرام نے شرکت کی۔ کانفرنس کے شرکاء سے پروفیسر ساجد میر صاحب‘ ڈاکٹرعبدالرحمن مدنی‘ مولانا عبدالغفار مدنی‘ قاری صہیب احمد میر ـمحمدی‘ ڈاکٹر حسن مدنی‘ ڈاکٹر حمزہ مدنی ‘ قاری نوید الحسن لکھوی اور دیگر احباب نے شرکت کی۔ اس موقع پر احباب نے اپنے اپنے انداز میں قرآن مجید کے شرف ‘اس کی فضیلت اور انسانی معاشروں پر اس کے اثرات کے حوالے سے اپنی اپنی آراء کا بڑے ہی خوبصورت انداز میں اظہار کیا۔ اس موقع پر میں نے بھی اپنی چند گزارشات کو سامعین نے سامنے رکھا۔ مجھے اس موقع پر جو موضوع دیا گیا وہ ''قرآن مجید کے انسانی قلوب پر اثرات‘‘کے حوالے سے تھا۔ اس ضمن میں پہلی بات جسے میں نے سامعین کے سامنے رکھا وہ یہ تھی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کو نبی کریم ﷺ کے قلب اطہر پر نازل فرمایا ہے اور جبرئیل علیہ السلام اس پیغام کو آپﷺ کے قلب اطہر ہی پر لے کر آئے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر97 میں ارشاد فرماتے ہیں:''کہہ دیجئے جو دشمن ہے جبریل کا (تو یہ اس کی کج روی ہے) پس بے شک اس نے (تو) اُسے اُتارا ہے تیرے دل پر اللہ کے حکم سے تصدیق کرنے والا ہے اس کی جو اس سے پہلے (کتابیں گزری) ہیں اور ہدایت ہے اور خوشخبری ہے مومنوں کے لیے۔‘‘ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نحل کی آیت نمبر 102 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''کہہ دیجئے نازل کیا ہے اسے روح القدس (جبریل) نے آپ کے رب کی طرف سے حق کے ساتھ تاکہ وہ ثابت قدم رکھے ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور (یہ)ہدایت اور خوشخبری ہے مسلمانوں کے لیے۔‘‘ اسی طرح سورہ شعراء کی آیت نمبر 192‘193 اور 194 میں ارشاد ہوا: ''اور بے شک وہ یقینا نازل کیا ہوا ہے سب جہانوں کے رب کا۔ اترا اس کو (لے کر) امانت دار فرشتہ آپ کے دل پر۔ تاکہ آپ ہو جائیں ڈرانے والوں میں سے۔ ‘‘
قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نبی مہرباں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر پر نازل ہونے والا یہ قرآن اگر کسی پہاڑ پر نازل ہوتا تو وہ پہاڑ خوف خدا کی وجہ سے ریزہ ریزہ ہو جاتا۔ سورہ حشر کی آیت نمبر 21 میں ارشاد ہوا:''اگر ہم اتارتے اس قرآن کو کسی پہاڑ پر (تو) یقینا آپ دیکھتے اُسے جھکنے والا ‘ٹکڑے ٹکڑے ہونے والا اللہ کے خوف سے اور یہ مثالیں ہم بیان کرتے ہیں لوگوں کے لیے تاکہ وہ غور وفکر کریں۔‘‘
قرآن مجید کی یہ آیات اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ نبی مہرباں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر پر نازل ہونے والی یہ کتاب یقینا اللہ تبارک وتعالیٰ کی خشیت کواجاگر کرنے والی غیر معمولی کتاب ہے اور اس کے انسانی قلوب پر بڑے گہرے اثرات ہیں۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ انسانی قلوب پر اس کے اثرات کے حوالے سے سورہ زمر کی آیت نمبر 23میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اللہ نے نازل کی بہترین بات (یعنی) کتاب (جس کی آیات) باہم ملتی جلتی(اور) بار بار دھرائی جانے والی ہیں۔ رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں اس سے (ان لوگوں کے) چمڑوں (یعنی بدن) کے جو ڈرتے ہیں اپنے رب سے‘ پھر نرم ہو جاتے ہیں ان کے چمڑے (بدن) اور ان کے دل اللہ کے ذکر کی طرف۔ یہی اللہ کی ہدایت ہے وہ ہدایت دیتا ہے‘ اس کے ذریعے سے جسے وہ چاہتا ہے اور جسے اللہ گمراہ کر دے تو نہیں ہے اس کو کوئی ہدایت دینے والا۔‘‘
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ رعد میں ذکر الٰہی کے انسانی قلوب پر اثرات کے حوالے سے یہ بات بتلائی کہ اللہ کے ذکر سے انسانی قلوب کو سکون حاصل ہوتا ہے۔ اور ہر ذی شعور اس بات کو جانتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے ذکر میں تلاوت قرآن کریم کو امتیازی مقام حاصل ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ رعد کی آیت نمبر میں 28ارشاد فرماتے ہیں: ''وہ لوگ جو ایمان لائے اطمینان پاتے ہیں ان کے دل اللہ کے ذکر سے۔ سن لو ! اللہ کے ذکر سے ہی دل اطمینان پاتے ہیں۔‘‘
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ حدید میں اہل ایمان کی اس بات کی طرف توجہ اس سمت مبذول کروائی کہ انہیں اپنے دلوں کو اللہ کے ذکر اور کلام ِالٰہی کی طرف مائل کرلینا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ حدید کی آیت نمبر 16میں اعلان فرماتے ہیں: ''کیا (ابھی تک) وہ وقت نہیں آیا (ان لوگوں) کے لیے جو ایمان لائے کہ ان کے دل (نرم ہوکر) جھک جائیں اللہ کے ذکر کے لیے اور (اس کے لیے) جو نازل ہوا حق سے۔ اور وہ نہ ہو جائیں ان (لوگوں) کی طرح جو (ان) سے پہلے کتاب دیے گئے پھر گزر گئی اُن پر لمبی مدت تو ان کے دل سخت ہو گئے اور ان میں سے بہت سے نافرمان ہیں۔‘‘
قرآن مجید کی تلاوت سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ قرآن مجید انسانوں کے لیے شفاء اوررحمت ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 82میں ارشاد فرماتے ہیں:''اور ہم نازل کرتے ہیں قرآن(میں) سے (وہ کچھ) جو (کہ) وہ شفا اور رحمت ہے ایمان والوں کے لیے ۔‘‘
سورہ حم سجدہ کی آیت نمبر میں 44ارشاد ہوا: ''آپ کہہ دیجئے وہ (ان لوگوں) کے لیے جو ایمان لائے ہدایت اور شفاء ہے اور وہ (لوگ) جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں بوجھ (کارک یا ڈاٹ) ہے اور وہ ان کے حق میں اندھا ہونے کا باعث ہے یہ (وہ لوگ ہیں جو گویا) پکارے جاتے ہیں دور جگہ سے۔‘‘اللہ تبارک وتعالیٰ نے خصوصیت سے قرآن مجید کو سینے کی بیماریوں کے لیے شفا قرار دینے کے حوالے سے سورہ یونس کی آیت نمبر57‘58 میں ارشاد فرمایا: ''اے لوگو یقینا آ چکی تمہارے پاس نصیحت تمہارے رب کی طرف سے اور شفا ہے (اس بیماری) کی جو سینوں میں ہے اور ہدایت اور رحمت ہے ایمان والوں کے لیے۔ کہہ دیجئے (یہ) اللہ کے فضل سے اور اس کی رحمت سے ہے ‘تو اسی کے ساتھ پس چاہیے کہ وہ خوش ہوں وہ بہت بہتر ہے اس سے جو وہ جمع کرتے ہیں۔‘‘
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سینے کی جملہ روحانی اور طبعی بیماریوں کو دور کر دیتا ہے۔قرآن مجیدکی تلاوت‘ اس پر تدبر‘ غوروفکر اور عمل کرنے سے اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل سے انسانوں کے قلوب ‘اطمیان اور امن حاصل ہوتا ہے۔ انسانوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور انسانوں کے دل اللہ تعالیٰ کی یاد کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ بعض اوقات ایسے ہوتے ہیں جن میں قرآن مجید کی تلاوت کے اثرات بڑھ جاتے ہیں۔گو قرآن مجید کو ہر وقت تلاوت کرنا چاہیے لیکن خصوصیت سے فجر اور تہجد کو اس حوالے سے امتیازی مقام حاصل ہے ۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 78 میں ارشاد فرماتے ہیں:''نماز قائم کیجئے سورج ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک اور فجر کے قرآن کا (اہتمام کیجئے) بے شک فجر کا قرآن (پڑھنا) (فرشتوں کے) حاضر ہونے کا باعث ہے۔‘‘ تہجد کی نماز میںقیام کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی مہرباں حضرت رسول اللہ ﷺ پر اس آیت کا نزول فرمایا کہ آپ تہجد کی نماز ادا کریں قریب ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود عطا فرمائے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 79 میں ارشادفرماتے ہیں : ''اور رات سے (کچھ حصہ) پس آپ تہجد پڑھیں اس (قرآن) سے (یہ) زائد ہے آپ کے لیے‘ قریب ہے کہ کھڑا کرے آپ کو آپ کا رب مقام محمود میں۔‘‘ تہجد کی نماز کی فوائد کے حوالے سے سورہ مزمل کی آیت نمبر میں6 ارشاد ہوا:''بے شک رات کا اُٹھنا وہ زیادہ سخت ہے (نفس کو) کچلنے میں اور زیادہ درست ہے بات (ذکر یا دعا ) کرنے میں۔‘‘ چنانچہ جہاں پر دن کے باقی ماندہ حصوں میں قرآن کریم کی تلاوت کرنی چاہیے وہیں پر خصوصیت سے نماز فجر اور تہجد میں اس کا التزام کرنے سے انسان کو بہت زیادہ فوائد حاصل ہوتے ہیں اور انسان کا نفس اللہ تبارک وتعالیٰ کی تابعداری اور اطاعت کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو صحیح معنوں میں قرآن مجید سے اپنے دلوں کو معطر کرنے اور شفا حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ تقریب میں طالب علموں نے علماء کی گفتگو کو بڑی توجہ اور انہماک کے ساتھ سنا اور اس موقع پر اہل علم کے خطابات اور ارشادات یقینا شعور‘ آگہی اور علم میں اضافے کا باعث بنے اور یوں یہ تقریب اپنے جلو میں بہت ہی خوبصورت یادوں اور خوشگوار اثرات کو لیے ہوئے اختتام پذیر ہو گئی۔