جامعہ بلال‘ لاہور کی ایک معروف درسگاہ ہے‘ جس میں دینی اور دنیاوی تعلیم کابڑے احسن انداز میں بندوبست کیا گیا ہے۔ جامعہ بلال میںماہر اساتذہ کی زیر نگرانی سینکڑوں طلباء دینی اور دنیاوی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں کے حوالے سے بھی ان کو اچھے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ جامعہ کا سالانہ جلسہ تقسیم اسناد چند روز قبل ایوان اقبال میں منعقد ہوا۔ اس میں ملک کے ممتاز اہل علم نے شرکت کی جن میں حافظ شریف ‘ مولانا مسعود عالم‘ قاری صہیب میر محمدی‘ ڈاکٹر حمزہ مدنی‘ قاری ابراہیم میر محمدی‘ قاری یحییٰ رسول نگری‘ قاری ادریس عاصم اور دیگر احباب بھی شامل تھے۔ اس موقع پر مجھے بھی کانونشن میںبلایا گیا۔ کانونشن میں حفظ کرنے والے‘ دینی علوم میں مہارت رکھنے والے اور عصری علوم میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے طلباء کے مابین اسناد اور انعامات کو تقسیم کیا گیا۔ تقسیم اسناد کے اس پروگرام میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور اس موقع پر علماء کرام نے مختلف عناوین پر اپنے اپنے انداز میں اظہار خیال کیا۔ اکثر موضوعات کا تعلق معاشرے‘ مذہب ‘ قرآن مجید اور سنت ِنبوی شریف کے ساتھ تھا۔ اس موقع پر مجھے بھی ایک انتہائی فکر انگیز عنوان پر اظہار خیال کرنے کا موقع میسر آیا۔ عنوان یہ تھا کہ مسلمان جو کبھی دنیا پر حکومت کیا کرتے تھے اور جنہوں نے قرون اولیٰ میں قیصر وکسریٰ کی ہیبت کو مٹا دیا اورپوری دنیا کی تہذیبوں کو پچھاڑ کر رکھادیا بتدریج زوال پذیر کیوں ہوتے چلے گئے اور دنیا میں جو سیاسی ‘ سماجی اور مذہبی اعتبار سے انہیں مقام حاصل تھا‘ وہ مقام ان سے کیوں چھنتا چلا گیا۔ اس حوالے سے قرآن وسنت کا مطالعہ کرنے سے جو اہم نکات سامنے آتے ہیںان میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1۔ قرآن مجید سے دوری: قرآن مجید اللہ تبارک وتعالیٰ کا آخری کلام ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس میں انسانی زندگی گزارنے کے احسن اور مثالی طریقوں کو بیان فرمایا ہے۔ قرآن مجید سے تمسک اختیار کرنا یقینا ہر اعتبار سے خوش بختی کی بات ہے‘ قرآن مجید سے انحراف کرنا اور اس سے دوری کو اختیار کرنا ہر اعتبار سے بدنصیبی کی بات ہے۔ صحیح مسلم کی حدیث میں ارشاد ہوا :عمر بن خطابؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''بے شک اللہ اس کتاب کے ذریعے کچھ لوگوں کو رفعت عطا فرماتے ہے اور کچھ لوگوں کو پستی کا شکار کر دیتا ہے۔ ‘‘اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ یہود کی ذلت ورسوائی کی وجہ بیان کرتے ہوئے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 61میں ارشاد فرماتے ہیں:''اور مسلط کر دی گئی ان پر ذلت اور محتاجی اور وہ لوٹے اللہ کا غضب لے کر وہ اس وجہ سے کہ وہ انکار کرتے تھے اللہ کی آیات کا اور نبیوں کو قتل کرتے تھے ناحق۔‘‘اللہ تعالیٰ کی آیات یا اس کے ذکر سے اعراض کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ طہٰ کی آیت نمبر میں 124 سے 127میں بیان فرماتے ہیں :''اور جس نے اعراض کیا میرے ذکر سے تو بے شک اس کے لیے تنگ گزر ان ہو گی اور ہم اُٹھائیں گے‘ اسے قیامت کے دن اندھا (کرکے)۔ وہ کہے گا'' اے میرے رب! کیوں تو نے اُٹھایا‘ مجھے اندھا (کرکے) حالانکہ یقینا میں تھا دیکھنے والا۔ (اللہ ) فرمائے اسی طرح آئیں تھیں تیرے پاس ہماری آیتیں تو تو نے بھلا دیا انہیں اور اسی طرح آج تو بھی بھلا دیا جائے گا۔ اور اسی طرح ہم بدلہ (سزا) دیتے ہیں جو حد سے تجاوز کرے اور ایمان نہ لائے اپنے رب کی آیتوں پر اور یقینا آخرت کا عذاب زیادہ سخت اور زیادہ باقی رہنے والا ہے۔‘‘
2۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے انحراف: اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہل ایمان پر بہت بڑا کرم فرمایا کہ اپنے نبی حضرت محمدﷺ کو ان کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے مبعوث فرمایا۔ نبی مہربان ﷺ کی ذات اہل ایمان کے لیے اسوہ کامل کی حیثیت رکھتی ہے۔ قرآن مجید کے مطابق آپﷺ کی اتباع کرنے والے لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبتوں کے حقدار ٹھہرتے ہیں اورا للہ تبارک وتعالیٰ اُن کے گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔ لیکن وہ لوگ جو اللہ تبارک وتعالیٰ کے نبی حضرت رسول اللہﷺ کے اسوہ سے انحراف کرتے ہیں دنیا کا فتنہ اور آخرت کا عذاب ان کا مقدر بن جاتا ہے۔ اس حقیقت کا بیان اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نور کی آیت نمبر 63میں یوں فرمایا:''وہ لوگ جو مخالفت کرتے ہیںا س (رسول) کے حکم کی کہ پہنچے انہیں کوئی آزمائش (دنیا میں) یا پہنچے انہیں دردناک عذاب (آخرت میں)۔‘‘
3۔ بعض احکام شریعت کو ماننا اور بعض کا انکار کرنا: بعض لوگ اسلام کے دعویدار ہونے کے باوجود شریعت اسلامیہ کے بعض احکامات کو تسلیم کرتے ہیں جب کہ بعض کا انکار کرتے ہیں۔ وہ احکامات جن میں آزمائش کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ان کو تو قبول کر لیا جاتا ہے لیکن وہ احکامات جو نفس پر گراں گزرتے ہیں یا جن سے انسان کوتکلیف یا مخالفت کو سہنا پڑتا ہے‘ ان احکامات سے اعراض کیا جاتا ہے؛ چنانچہ دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سے لوگ نماز‘ روزہ‘ حج کو تسلیم کرتے ہیں‘ لیکن بے پردگی‘ سود اور تعیشات والی زندگی جیسے معاملات میں اپنی من مانی کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگ دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب کو سمیٹ لیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 85میں ارشا د فرماتے ہیں:''کیا پس تم ایمان رکھتے ہو کتاب کے بعض (حصے) پر اور تم انکار کرتے ہو بعض کا‘ پس نہیں ہے سزا(اس کی) جو ایسا کرے تم میں سے‘ مگر رسوائی دنیوی زندگی میں اور قیامت کے دن وہ لوٹائے جائیں گے سخت عذاب کی طرف اور نہیں اللہ بے خبر اس سے جو تم عمل کرتے ہو۔‘‘
4۔ نعمتوں کی ناشکری:قرآن مجید کا مطالعہ یہ بات سمجھاتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ انسان سے اس وقت تک نعمتوں کو نہیں چھینتے جب تک انسان ازخود زوال نعمت کے راستے پر نہیں چل پڑتا۔ زوال نعمت کے ایک بڑے سبب کو اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ ابراہیم کی آیت نمبر 7 میں یوں بیان فرماتے ہیں:''اور جب آگاہ کر دیا تمہارے رب نے یقینا اگر تم شکر کرو گے (تو) بلاشبہ ضرور میں تمہیں زیادہ دوں گا اور بے شک اگر تم ناشکری کرو گے (تو) بلاشبہ میرا عذاب یقینا بہت ہی سخت ہے۔‘‘اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نحل کی آیت نمبر112میں اپنی نعمتوں کی ناشکر ی کرنے والی ایک بستی کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : ''اور بیان کی اللہ نے مثال ایک بستی کی (جو) تھی امن والی اطمینان والی‘ آتا تھا اس کے پاس اس کا رزق کھلا ہر جگہ سے تو اس نے ناشکری کی اللہ کی نعمتوں کی‘ تو چکھایا (پہنایا) اس کو اللہ نے بھوک اور خوف کا لباس اس وجہ سے جو وہ کرتے تھے۔‘‘
5 ۔گناہوں کی کثرت: جب انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی مسلسل نافرمانیاں کرتا ہے تو اس کی زندگی میں مختلف طرح کی مصیبتیں آتی ہیں۔ اس حقیقت کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ شوریٰ کی آیت نمبر 30 میں یوں فرمایا :''اور جوبھی تمہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ اسی کی وجہ سے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا اور وہ در گزر کر دیتا ہے بہت سی باتوں سے۔‘‘ جب معاشرہ اجتماعی طور پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی نافرمانیوں پر آمادہ وتیار ہو جاتا ہے تو بحر وبر میں فساد ظاہر ہو جاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سور ہ روم کی آیت نمبر 41میں ارشاد فرماتے ہیں:''فساد ظاہر ہو گیا خشکی اور سمند ر میں اس وجہ سے جو کمایا لوگوں کے ہاتھوں نے تاکہ (اللہ) مزہ چکھائے انہیں بعض (اس کا) جو انہوں نے عمل کیا تاکہ وہ رجوع کریں‘ (یعنی باز آجائیں)۔
6۔ غلط تجارت اور کھیتی باڑی میں مشغولیت کے سبب دشمن سے بے خبر ہوجانا: جب انسان غلط کاروبار اور کھیتی باڑی میں اس حدتک مشغول ہو جائے کہ وہ اللہ اور اپنے دشمنوں سے غافل ہو جائے تو ایسی صورت میں اس پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ذلت اور پستی کو مسلط کر دیا جاتا ہے۔مسند احمد میں اس بات کو یوں بیان کیا گیا: ''عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا کہ جب تم عینہ کی تجارت کرو اور بیلوں کی دُمیں پکڑ لو‘ کھیتی باڑی میں مشغول ہو جاؤ اور جہاد کو چھوڑ دو ‘تو اللہ تعالیٰ تم پر ذلت مسلط کر دے گا اور اس وقت نہیں ہٹائے گا جب تک تم اپنے دین پر واپس نہ لوٹ آؤ۔‘‘
7۔ فحاشی کا پھیلاؤ: قرآن وسنت کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ جن گناہوں پر انسان کو دنیا میں ذلت کا نشانہ بننا پڑتا ہے‘ ان میں سے فحاشی کی نشرواشاعت بھی شامل ہے۔ ہم اپنے گردوپیش میں دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ مسلمانوں میں فحاشی کی نشرواشاعت میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ چند دن پہلے خواتین کے حقوق کے حوالے ہونے والے ایک اکٹھ میں بعض لوگوں نے فحاشی کی نشرواشاعت کرنے کے لیے بہت ہی مذموم باتیں کہیںاور نکاح اور شادی بیاہ تک کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ دنیا اور آخرت میں فحاشی کے انجام بد کے حوالے سے سورہ نور کی آیت نمبر 19میں ارشاد فرمایا: ''بے شک وہ لوگ جو پسند کرتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔‘‘
یہ چند اہم نکات ہیں‘ جن پر اگر غور کیا جائے تو اس بات کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ آج اُمت مسلمہ کیوں پستیوں اور زوال کی لپیٹ میں آچکی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی سوچ وفکر کی اصلاح فرمائے اور ہمیں ان تمام غلط معاملات سے اجتناب کرنے کی توفیق دے‘ جو ہمارے زوال کا سبب بنے ہوئے ہیں اور ہمیں ان راستوں پر چلائے جن کے نتیجے میں ہم ذلت ورسوائی سے نجات حاصل کرکے اپنے کھوئے ہوئے عروج کو دوبارہ حاصل کر سکیں۔ (آمین)