ہمارا معاشرہ ایک عرصے سے تشدد کی لپیٹ میں ہے۔ چند روز قبل بہاولپور یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے اپنے استاد کے خون سے اپنے ہاتھوں کو رنگین کر لیا۔22 مارچ کو کراچی میں معروف عالم دین مفتی تقی عثمانی پر قاتلانہ حملہ کیا گیا‘ جس کے نتیجے میں ان کا گارڈ اورڈرائیور موقع پر جاں بحق ‘جبکہ مفتی صاحب قاتلانہ حملے سے بال بال بچ گئے۔ اس طرح کے واقعات پاکستان میں کئی عشروں سے رونما ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان بھی ایک قاتلانہ حملے کے نتیجے میں دارفانی سے کوچ کر کے گئے‘ بعدازاں بھی بہت سے معروف سیاسی رہنما قاتلانہ حملوں کا نشانہ بنے۔ پیپلز پارٹی کی سابق سربراہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی راولپنڈی میں ایک جلسے کے بعد قاتلانہ حملے کا نشانہ بنایا گیا‘ اسی طرح والد گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیر بھی 23 مارچ 1987ء کو ایک قاتلانہ حملے کا نشانہ بنے اور بعد ازاں دنیا فانی سے کوچ کر گئے۔ حکیم محمد سعید طب اور علم سے وابستہ تھے اور انہوں نے معاشرے میں ان دو علوم کی نشرواشاعت میں نمایاں کردار ادا کیا۔ حکیم محمد سعید بھی ایک قاتلانہ حملے کے نتیجے میں جاں بحق ہو گئے۔
پاکستان کی تاریخ ایک عرصے سے قتل وغارت گری کا سلسلہ جاری وساری ہے‘ لیکن اس کے تدارک کیلئے تاحال کوئی موثر حکمت عملی کو نہیں اپنایا جا سکا ۔ اس حوالے سے تشدد کے اسباب پر غوروفکر ہونا چاہیے۔ جب ان اسباب پر غور کیا جاتا ہے‘ تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ تشدد کی چند وجوہ درج ذیل ہیں:
1۔ حسد: حسد ایک منفی جذبہ ہے‘ جو حاسد کو محسود کے خلاف نفرت اور تشدد پر آمادہ وتیار کرتا ہے۔ حاسد محسود کو برے انجام تک پہنچانے کیلئے اپنی تمام تر توانائیوں کو صرف کرنے پر آمادہ وتیار ہو جاتا ہے۔ عزازیل فرشتوں کی جماعت میں شامل تھا‘ لیکن اس منفی جذبے کی وجہ سے وہ اپنے مقام سے گر گیا اور حضرت آدم علیہ السلام اور آپ ؑ کی نسل کی دشمنی اور عداوت پر آمادہ وتیار ہو گیا۔ اس نے حضرت آدم علیہ السلام سے جب حسد کیا تو ان کو جنت کے باغات سے نکلوانے کے لیے کوششیں کرتا رہا اور قیامت کی دیواروں تک وہ انسانی نسل کو نقصان پہنچانے کیلئے کاوشیں کرتا رہے گا۔ قرآن مجید میں آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کا ذ کر ہے۔ ہابیل کی قربانی کو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمالیا‘ جبکہ قابیل کی قربانی کو قبول نہ کیا تو قابیل نے ہابیل کو اسی جذبے حسد کی وجہ سے قتل کر ڈالا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی بھی ان سے حسد میں مبتلا ہوئے اور آپؑ کو اندھے کنویں میں اُتار دیا ۔ گو اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو بچا لیا اور ان کو عروج عطا فرما دیا‘ لیکن اس حسد کی وجہ سے محبت کرنے والے باپ اور بیٹے کے درمیان ایک لمبی جدائی کو پیدا کر دیا گیا۔ یہود مدینہ طیبہ اور اس کے گردونواح میں اس لیے آباد ہوئے تھے کہ نبی آخرالزمانﷺ کی آمد کے بارے میں پیش گوئیاں ان کی نظروں میں تھیں‘ لیکن جب نبی کریم ﷺ مبعوث ہوئے تو انہوں نے آپﷺ کو آ ل ِ اسحاق کی بجائے آل اسماعیل میں سے دیکھ کر آپﷺ کی نبوت اور رسالت کا فقط حسد کی وجہ انکار کر دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنی عطا پر حسد کرنے والوں کے بارے میں ایک بڑی خوبصورت بات یوں ارشاد فرمائی ۔ سورہ نساء کی آیت نمبر 54 میں ارشاد فرمایا: یا یہ حسد کرتے ہیں لوگوں سے (اس )پر جو دیا ہے‘ ان کو اللہ نے اپنے فضل سے توتحقیق ہم نے دی آل ابراہیم کو کتاب اور دانائی اورہم نے دی ان کو بہت بڑی سلطنت۔ ‘‘
2۔ جہالت: عدم برداشت کو پیدا کرنے والا ایک بڑا سبب جہالت بھی ہے۔ دینی تعلیمات سے دوری کی وجہ سے کئی مرتبہ انسان انسانی جان کی قدروقیمت سے صحیح معنوں میں آگاہ نہیں ہوتا۔ قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس بات کو بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ جس نے ایک انسان کو قتل کیا گویا کہ اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا اور جس نے ایک انسان کو بچایا گویا اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 256میں ارشاد فرمایا : ''کوئی زبردستی نہیں (دین کے معاملے میں )۔ ‘‘ قرآن مجید کی تعلیمات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں ہر انسان کی جان کی حرمت کو مدنظر رکھنا چاہیے اور دین کے معاملات میں جبر کو رویے کو اختیار نہیں کرنا چاہیے اور اگر کوئی انسان سلجھے ہوئے انداز میں اختلاف کرتا ہے تو اس کی رائے اور موقف پر مشتعل نہیں ہونا چاہیے۔
3۔ جرم وسزا کا کمزور نظام: معاشرے میں جرم وسزا کا کمزور نظام بھی دہشت گردی اور تشدد کو بڑھانے کا سبب بن جاتا ہے۔ جب مجرم اس بات کو دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں موثر افراد قانون کے شکنجے میں نہیں آ پا رہے اور کمزور لوگوں کو قانون کی گرفت میں لیا جا رہا تو اس کے نتیجے میں ان کے اندر ایک احساس بغاوت پیدا ہوتا ہے؛ اگر معاشرے میں قوانین کا ہمہ گیر اطلاق ہو تو معاشرے میں مجرم کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور جرائم کی بیخ کنی میں آسانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اس حوالے سے بخاری شریف کی ایک اہم حدیث درج ذیل ہے:
''مخزومیہ خاتون ( فاطمہ بنت اسود ) جس نے ( غزوہ فتح کے موقع پر ) چوری کر لی تھی‘ اس کے معاملہ نے قریش کو فکر میں ڈال دیا۔ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس معاملہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کون کرے! آخر یہ طے پایا کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت عزیز ہیں۔ ان کے سوا اور کوئی اس کی ہمت نہیں کر سکتا؛ چنانچہ اسامہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں کچھ کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اسامہ! کیا تو اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں مجھ سے سفارش کرتا ہے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا ( جس میں ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پچھلی بہت سی امتیں اس لیے ہلاک ہو گئیں کہ جب ان کا کوئی بااثر آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور اگر کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے اور اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں۔‘‘
4۔ احساس محرومی:معاشرے میںبہت سے لوگ ضروریات زندگی سے محروم ہیں۔ احساس محرومی انسان میں حساسیت اور جذبہ انتقام کو پیدا کر دیتی ہے اور انسان میں صبر اور قناعت کی بجائے اشتعال اور انتقام کی ایک کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ احساس محرومی کے شکار کسی شخص کو منفی مقا صد کے لیے استعمال کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔ روٹی ‘ کپڑا‘ مکان اوربنیادی تعلیم وعلاج یہ ہر انسان کا حق ہے اور اس حقو ق کے حصول میں ریاست کوافراد کی ہر صورت معاونت کرنی چاہیے یا ان کی کفالت کی ذمہ داری کو اُٹھانا چاہیے؛ چنانچہ جن معاشروں سماجی انصاف کا نظام موجود ہے ان معاشروں میں جرائم کی شرح بہت کم نظر آتی ہے‘ جبکہ جن معاشروں کے لوگ سطح غربت سے نیچے رہتے ہیں‘اُن میں لوگ جرائم میں زیادہ ملوث نظر آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے قرآن اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں خلفاء راشدین نے سماجی انصاف کا نظام متعارف کروایا‘ جس کا احیاء کرنا مسلمان حکمرانوں بالخصوص پاکستانی حکومت کی ذمہ داری ہے؛ اگر حکومت اپنی اس ذمہ داری کو بطریق احسن انجام دے تو معاشرے میں کسی بھی شخص کو منفی مقاصد کیلئے استعمال کرنا آسان نہیں رہے گا۔
5۔میڈیا: میڈیا پر کئی مرتبہ ایسے مناظر دکھائے جاتے ہیں‘ جن میں تشدد کو مثبت انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ متشدد انسان کو کئی مرتبہ فلموں اور ڈراموں میں ہیرو کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے۔ اس طرح کے منفی کرداروں کو غلط طریقے سے ابھارنے کے انسانی دماغ پر غلط اثرات مرتب ہوتے ہیں اور کچے ذہن کے لوگ کئی مرتبہ تشدد کے راستے پر چل نکلتے ہیں۔ میڈیا کو اس حوالے سے مثبت کردار ادا کرنا چاہیے اور کمرشیلائزیشن کی بجائے انسانوں کی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے‘ اُن کی اخلاقی تربیت پر توجہ دینی چاہیے؛ اگر میڈیا اس حوالے سے ذمہ دارانہ کردار ادا کرے‘ تو معاشرے میں تشدد کے رجحانات واضح طور پر کم ہو سکتے ہیں۔
6۔ گھریلو نا ہمواریاں:گھریلو نا ہمواریاں بھی کئی مرتبہ تشدد کو بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کرتی ہیں‘ جن گھروں کا ماحول متوازن ہو تا ہے‘ ان گھروں میں پلنے اور بڑھنے والے بچے عموماً نفرت اور تشدد کے راستے پر نہیں چلتے ‘جبکہ جن گھروں میں ناچاقیاں پائی جاتی ہیں اور معمولی معمولی بات پر شوہر اور بیوی کے درمیان تنازعات پائے جاتے ہیں ۔ان گھروں میں کئی مرتبہ اس قسم کی چیزیں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ اس ناچاقی کا اظہار بچے زندگی کے آنے والے مراحل میں نفرت اور تشدد کی شکل میں کرتے ہیں۔ گھریلو سطح پر والدین کو بچوں کے مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے معمولی معمولی باتوں پر لڑنے جھگڑنے کی بجائے قربانی اور ایثار کا راستہ اختیار کرنا چاہیے‘ تاکہ معاشرے کو امن وسکون کا گہوارہ بنایا جا سکے؛اگر مندرجہ بالا نکات پر توجہ دی جائے ‘تو معاشرے میں قتل وغارت گری اور تشدد کے واقعات میں خاطرخواہ کمی ہو سکتی ہے؛ چنانچہ پالیسی سازوں کو ان نکات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسی حکمت عملی کو اختیار کرنا چاہیے‘ جس سے معاشرے کو امن وسکون کا گہوارہ بنایا جا سکے۔