"AIZ" (space) message & send to 7575

انصاف کی فراہمی

حافظ خالد محمود اور قاری عبدالقدیر عاصم کا تعلق کھڈیاں کے ساتھ متصل قصور کے گاؤں کوٹ آرائیاں سے ہے۔ میرے ان دونوں دوستوں سے کئی برس پرانے تعلقات ہیں۔ یہ دونو ں دوست اور ساتھی ہر سال واقعہ کوٹ آرائیاں میں مارچ کے مہینے میں ''ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کانفرنس ‘‘ کا انعقار کرتے ہیں۔ ان کانفرنسوں کا بنیادی مقصد تبلیغ دین اور کتاب وسنت کی دعوت کی نشرواشاعت ہوتا ہے اور ان کانفرنسوں میں کوٹ آرائیاں کے ساتھ ساتھ گردو نواح سے بھی عوام کی کثیرتعداد شرکت کرتی ہے۔ ہر سال دوست اس کانفرنس کا انعقاد کے لیے توانائیو ں کو بھرپور انداز میں صرف کرتے ہیںاور اس کامیاب بنانے کے لیے توانائیوں اور وسائل کا استعمال بھی کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل حافظ خالد محمود اور قاری عبدالقدیر نے کوٹ آرائیاں میں ایک مسجد کی بنیاد بھی رکھی اور مجھے بھی محل وقوع کا جائزہ لینے کے لیے مدعو کیا گیا۔ مسجد کی رفتہ رفتہ تعمیر کے ساتھ ساتھ اس کی آباد کاری میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ جب کبھی کوئی شخص کسی اچھے کام کا آغاز کرتاہے‘ تو جہاں پر اس کی حوصلہ افزائی کرنے والے لوگ موجود ہوتے ہیں‘ وہیں پر بلاوجہ مخالفت کرنے والے لوگ بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ عوام میں پائی جانے والی مقبولیت منفی لوگوں کو حسد پر آمادہ وتیار کر دیتی ہے۔ کچھ اس قسم کا معاملہ ان دونوں احباب کے ساتھ بھی ہوا مسجد کی تعمیر کے سبب جہاں پر علاقے کے لوگوں نے ان کی حوصلہ افزائی کی وہیں پر انہیں علاقے کے بعض بااثر افرا د کی مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ان دونوں دوستوں اور ان کے رفقاء نے اس مخالفت کو نظر انداز کرکے اپنے کام کو جاری وساری رکھا۔
گزشتہ مہینے 31 مارچ کو حسب ِسابق سالانہ ''ختم نبوتﷺکانفرنس ‘‘کا انعقاد کیا گیا۔ کانفرنس میں اس برس کوٹ آرائیاں‘ کھڈیاں اور گردونواح کی عوام کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ مجھے بھی اس کانفرنس میں مدعو کیا گیا اور میں نے اس کانفرنس سے رات کے تقریباً تین بجے آخری خطاب کیا۔ اتنی رات گزر جانے کے باوجود بھی عوام کا جوش وجذبہ اور توجہ دیدنی تھی۔ کانفرنس کے اختتام تک لوگ پوری طرح جمے رہے اور کسی قسم کی بے چینی اور بے صبری کا مظاہرہ نہ کیا۔ اس کانفرنس کی رونق اور جوش وخروش بعض لوگوں کے لیے قابل قبول نہ تھی؛ چنانچہ تین روز قبل حافظ خالد مجھے اطلاع دی کہ کانفرنس کاا نعقاد کرنے والے دوستوں میں سے ایک دوست کو بری طرح زدوکوب کیا گیاہے‘ جس پر وہ مقامی تھانے میں رجوع کرنا چاہ رہے تھے‘ لیکن اگلے ہی دن ایک ناخوشگوار خبر سننے کو ملی کہ تھانے میں رپورٹ کروانے کیلئے جانے والے تین ساتھیوں قاری عبدالقدیر‘ حافظ خالد اور فوجی عنایت پر تھانے سے باہر نکلتے ہوئے فائرنگ کر دی اور وہ اس فائرنگ سے بال بال بچ گئے‘ لیکن ان مسلح افراد نے ان کو موقع پر شدید تشدد کا نشانہ بنایا‘ جس سے ان کو گہرے زخم لگے اور ان کو طبی امداد کے لیے ہسپتال پہنچا یا گیا۔ مجھے جب اس سانحے کی اطلاع ملی ‘تو میں انتہائی تشویش میں مبتلا ہو گیا اور ملک کے طول وعرض میں ہونے والے بہت سے واقعات میرے ذہن میں اُبھرنا شروع ہو گئے۔ ہمارے دیہاتوں میں اس قسم کے واقعات بکثرت سننے کو ملتے رہتے ہیں کہ معمولی تنازعات یا حسد کی بناء پر لوگ ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے پر آمادہ ہو جاتے ہیں اور کئی مرتبہ ایک دوسرے کے جانی دشمن بھی بن جاتے ہیں۔ ان حالات میں حسد یا دشمنی کا نشانہ بننے والے افراد کی شنوائی کے لیے ملک میں موثر اقدامات اور جرم وسزا کے نظام کو بہتر بنانا وقت کی بہت بڑی ضرورت ہے۔ دیہاتوں میں یہ بات بھی دیکھنے کو ملتی ہے کہ کئی مرتبہ علاقے کے بااثر طبقات علاقے کی عوام کو تعلیم ‘صحت ‘ روزگار ‘ ملازمت اور بنیادی سہولیات سے فقط اس لیے محروم رکھتے ہیں کہ ان میں خود اعتمادی‘ شعور اور آگہی کے احساسات پیدا نہ ہو جائیں۔ مختلف دیہاتوں میں اس قسم کی باتیں بھی سننے کو ملتی ہیں کہ لڑکی کو اغواء یا ونی کر دیا گیایا اس کی قرآن مجید کے ساتھ شادی کر دی گئی۔ اسی طرح لڑکیوں کو تعلیم سے محروم رکھنا یا ان وراثت میں ان جائز حق سے محروم کر دینے والی باتیں بھی دیہاتوں میں عام سننے کو ملتی ہیں۔ سندھ اور بلوچستان میں اس طرح کے واقعات کی تعداد قدرے زیادہ ہیں‘ لیکن پنجاب میں بھی گاہے بگاہے ‘اس طرح کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ کئی واقعات کو میڈیا میں کوریج مل جاتی ہے ‘لیکن بہت سے واقعات میڈیا کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ اسی طرح بعض کیس تھانے میں رپورٹ ہو جاتے ہیں‘ جب کہ بہت سے کیسز کو صاحب اثر لوگ کانوں تک جوں نہیں رینگنے دیتے۔ ان تمام معاملات کے تدارک کے لیے کچھ اہم تجاویز درج ذیل ہیں:
1۔تعلیمی اداروں کا قیام: سرکاری سطح پر دیہاتوں میں موثر تعلیمی اداروں کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے۔ شہروں میں پرائیوٹ تعلیمی ادارے معیاری تعلیم فراہم کر رہے ہیں ‘جس کیلئے لوگوں کو بڑی تعداد میں وسائل استعمال کرنا پڑتے ہیں‘ تاہم ہمارے ملک کی دیہی آبادی تاحال ان سہولیات سے محروم ہے۔ حکومت کو اس حوالے سے موثر تعلیمی اداروں کے قیام پر ضرور توجہ دینی چاہیے‘ تاکہ دیہی علاقوں میں شعور اور آگہی کی سطح کو بلند کیا جا سکے۔
2۔ دینی تعلیم: دیہاتوں میں دینی تعلیم کا فروغ بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ دینی تعلیم کے فروغ کے نتیجے میں انسانی جان ‘ مال اور آبرو کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے اور بلاوجہ حسد‘ دشمنی ‘ تشدد کے حادثے اور عداوت کے خاتمے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں‘ اسی طرح دینی تعلیم کے پھیلاؤ کے نتیجے میں خواتین کو ان کے جائز حقوق کے ملنے اور ان کی تعلیم اور دیگر سہولیات فراہم ہونے کے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں۔ 
3۔ تھانے میں سیاسی مداخلت کا خاتمہ: دیہاتوں میں عام طور پر سیاسی اثرورسوخ کو استعمال کیا جاتا ہے‘ جس کی وجہ سے غریب اور عام آدمی انصاف کے حصول میں کامیاب نہیں ہو پاتا۔ دیہی علاقوں میں پولیس کا نظام اس انداز میں مرتب کرنے کی ضرورت ہے کہ پولیس پر سیاسی نمائندگان اثر انداز نہ ہو سکیں اور ہر فرد کا مسئلہ پولیس میرٹ پر حل کر سکے۔ سرکاری افسروں کی ذاتی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر تقرریاں اور تبادلے بھی دیہی علاقوں میں انصاف کی فراہمی کے راستے میں رکاوٹ ہیں؛ چنانچہ اس محکمے کو مکمل طور پر خود مختار محکمے کی حیثیت سے کام کرنا چاہیے اور عوام کی شکایات کی وصولی کا ایک موثر نظام وضع ہونا چاہیے ‘ اسی طرح افسران کے احتساب کے معاملات کو محکمے کی داخلی سطح پر ہی مکمل ہونے چاہئیں اور اس حوالے سے سیاسی مداخلت کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ایک عرصہ قبل تھانے کو سیاسی اثر سے آزاد کرنے کی بات کی تھی ‘لیکن برسراقتدار آنے کے بعد اس حوالے سے خاطر خواہ پیش قدمی نہیں ہو سکی۔ 
4۔مقدمات کے فیصلوں میں غیر معمولی تاخیر کا خاتمہ: ہمارے معاشرے میں انصاف کی عدم فراہمی کی ایک بڑی وجہ مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر ہونا ہے۔ جب کسی مقدمے کے فیصلے کو غیر معمولی طور پر موخر کر دیا جاتا ہے‘ تو اس کے نتیجے میں انصاف کا خون ہو جاتا ہے۔ اس حوالے سے عدالتی نظام میں پائے جانے والے سقم کو دور کرنے کی ضرورت ہے اور لوگوں کو فی الفور انصاف فراہم کرنے کے لیے نظام کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ 
5۔ تمام طبقات کے لیے انصاف کی یکساں فراہمی: معاشرے میں انصاف کے قیام کے لیے معاشرے کے تمام طبقات کو یکساں انصاف فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے نبی کریمﷺ کی سیرت مبارکہ سے رہنمائی حاصل کرنا بھی انتہائی ضرورت ہے۔ آپ ﷺ کی حیات مبارکہ میں جب بنو مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی اور اس کی سفارش اسامہ ابن زیدؓ لے کر حاضر تو نبی کریمﷺ نے فرمایا ''اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے‘ تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں‘‘۔ 
اگر مندرجہ بالا نکات پر توجہ دی جائے‘ تو معاشرے میں پائے جانے والے ظلم اور لاقانونیت کا باآسانی خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے معاشرے سے بدامنی اور فساد کا خاتمہ کرکے اس کو امن وسکون کا گہوارہ بنائے ۔(آمین )

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں