ہر سال رجب اورشعبان کے مہینے میں مدارس کے سالانہ امتحانات ہوتے ہیں ‘جن میں صحیح بخاری کی تکمیل کرنے والے طلبہ کو سند فراغت دی جاتی ہے۔ صحیح بخاری کتب احادیث میں سب سے بلند مقام پر تصور کی جاتی ہے‘ اس کے پس ِ منظر میں امام بخاریؒ کی عظیم جدوجہد اور کاوش ہے۔ امام بخاری ؒکو اللہ تبارک وتعالیٰ نے غیر معمولی حفظ ‘ استدلال‘ ذہانت‘ فطانت اور بصیرت سے نوازا تھا۔ دنیا میں بہت سے لوگ مختلف طرح کے مشاغل اور معاملات میں مصروف رہتے ہیں۔ کوئی مال ودولت کے حصول کے لیے تگ ودو کرتا ہے‘ تو کوئی عہدے اورمنصب کے حصول کے لیے اپنی صلاحیتوں کو صرف اور وقف کیے رکھتا ہے‘ لیکن دنیا میں بعض شخصیات ایسی بھی ہوتی ہیں ‘جن کی زندگی کا مقصد اور نصب العین اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی نشرواشاعت ہوتا ہے۔ یہ لوگ صرف اپنی زندگیوں ہی کو ایمان اور خوش نما اعمال سے مزین نہیں کرتے‘ بلکہ آنے والی نسلوں اور جمیع انسانیت کیلئے ان کی شخصیت ایک نمونہ اور مثال بن جاتی ہے۔ امام بخاری ؒنے اپنے پسماندگان میں اہل خانہ کو تو نہیں چھوڑا ‘لیکن آپ نے جس انداز میں حدیث کی جمع وتدوین اور نشرواشاعت کی‘ اُس کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس انداز میں شرف قبولیت عطا کیا کہ مشرق ومغرب اور اطراف واکناف ِعالم میں امام بخاری ؒ کی کتاب ''صحیح بخاری ‘‘کوقبولیت عامہ حاصل ہوا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 29میں اس بات کو واضح فرمایا کہ :وہی ہے‘ جس نے پیدا کیا تمہارے لیے جو کچھ زمین ہے سارے کا سارا۔ ‘‘اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کی طبعی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے خوراک‘ غذا‘ لباس‘ بودوباش‘ کاروبارکا بہترین انداز میں بندوبست فرمایا۔ اسی طرح پروردگار عالم نے ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک ہماری اولادوں اور رفاقت کے لیے شریک زندگی کو پیدا کیا۔ جہاں پر اللہ تباک وتعالیٰ نے انسانوں کی طبعی ضروریات کو پوراکرنے کابہترین انداز میں بندوبست فرمایا۔ وہیں پر انسانوں کی روحانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مختلف ادوار میں مختلف انبیاء علیہم السلام پر مختلف کتابوں کا نزول فرمایا۔انبیاء علیہم السلام اِن کتابوں کی روشنی میں لوگوں کو اللہ تبارک کے دین کی دعوت بھی دیتے رہے اور تنازعات کو حل بھی فرماتے رہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی آخری کتاب کو حضرت رسول اللہ ﷺ کے قلب اطہر پرنازل فرمایا۔ یہ آخری کتاب اپنے اندر بہت سے معجزاتی اثار اور نشانیوں کو سموئے ہوئے ہے۔ یہ کتاب بیک وقت قانون ‘ ہدایت کی کتاب ‘ تاریخ‘ وراثت ‘ معاملات ‘مستقبل اور علامات قیامت پر بحث کرنے کے ساتھ انسانوں کے جملہ امراض کیلئے شفایابی کے بھی غیرمعمولی اثرات کو بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جب اس کتاب کو نازل کیا تو سابقہ کتب کی طرح اس کی حفاظت کو انسانوں کے ذمہ نہیں لگایا‘ بلکہ خود اس کی حفاظت کو اپنے ذمے لے لیا؛ چنانچہ مالک کائنات سورہ حجر کی آیت نمبر 9 میں اعلان فرماتے ہیں: ''بے شک ہم نے ہی ذکر کو نازل کیا اور بے شک ہم اس کی ضرور حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کتاب کی حفاظت کیلئے جس طریقہ کار کو اختیار کیا اس کی مثال تاریخ انسانیت میں کہیں بھی نہیں ملتی۔ سابقہ کتابو ں کو لکڑی کے تختے‘ پتھر کی سلوں اور چمڑے کی پشتوں پر لکھا گیا‘ جبکہ کتاب اللہ کی حفاظت کیلئے اللہ تبارک وتعالیٰ نے زندہ انسانوں کے دھڑکتے ہوئے دلوں اور سینوں کا انتخاب فرمایا۔ سورہ عنکبوت کی آیت نمبر49 میں اللہ تبارک وتعالیٰ اعلان فرماتے ہیں: ''بلکہ وہ واضح آیات ہیں (لوگوں کے) سینوں میں جو علم دیے گئے ہیں۔‘‘اسی طرح سورہ حم سجدہ کی آیت نمبر 42 میں اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں ''نہیں آسکتا‘ اس کے پاس باطل اس کے آگے سے اور نہ اس کے پیچھے سے۔ اتاری ہوئی ہے بہت حکمت والے اور بہت خوبیوں والے کی طرف سے ۔‘‘چنانچہ ہر سال رمضان المبارک کے مہینے میں اِس بات کا باآسانی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ ہر مسجد میں جہاں پر نماز تراویح کی امامت کرنے والا کوئی نہ کوئی قرآن مجید کا حافظ موجود ہوتا ہے‘ وہیں پر منزل کی سماعت کرنے والے سامع بھی موجود ہوتے ہیں۔ حافظ قرآن آیت ‘ لفظ اور حرف کی غلطی تو درکنار جب حروف پر موجود حرکات کی بھی غلطی کرے‘ تو سامع اس کی اصلاح کر دیتے ہیں۔ حفظ کا یہ اہتمام قرآن مجید کے زندہ معجزہ ہونے کا ثبوت ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کتاب کو جہاں رہتی دنیا کے لیے ہدایت کا سبب بنا دیا‘ وہیں پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کتاب پر صحیح طور پر عمل پیرا ہونے کے لیے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کو رہتی دنیا تک کے لیے اسوۂ کامل بنا دیا؛ چنانچہ سورہ احزاب کی آیت نمبر 21میں ارشاد ہوا: ''بلاشبہ تمہارے لیے یقینا رسو ل اللہ میں بہترین نمونہ ہے۔‘‘
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ آل عمران کی آیت نمبر 31 میں ارشاد فرمایا :''آپ کہہ دیں ‘اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہوئے میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا۔‘‘
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نساء 80 میں اس امر کا اعلان فرمایا :جو اطاعت کرے گا‘ رسول اللہﷺ کی تو درحقیقت اس نے اللہ کی اطاعت کی۔‘‘اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت رسول اللہ ﷺ پر ذکر کو نازل کرنے کی وجہ بتا تے ہوئے خود سورہ نحل کی آیت نمبر 44میں اس امر کا اعلان فرمایا : اور ہم نے اُتارا آپ کی طرف ذکر‘ تاکہ آپ بیان کریں لوگوں کے لیے جو نازل کیا گیا ان کی طرف۔‘‘
اِن آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے فرامین رہتی دنیا تک کے لیے ایک اسوہ اور نمونے کی حیثیت رکھتے ہیں اور قرآن مجید کی نشرواشاعت کے ساتھ اس کے مفہوم اور مطلوب کو متعین کرنے کا حق بھی ؛اگر کسی کو حاصل ہے تو نبی مہرباں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس کو حاصل ہے۔ نبی مہرباں ﷺ اللہ تبارک وتعالیٰ کے فرمودات کا ابلاغ کرنے والے اور ان کی وضاحت فرمانے والے ہیں؛چنانچہ جب نبی کریم ﷺ کے اسوئہ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے رہتی دنیاتک کے لیے اسوہ کامل بنا دیا تواللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کی حفاظت کا بندوبست بھی بہترین انداز میں فرما دیا اور محدثین کی عظیم جماعت کو یہ شرف حاصل ہوا کہ انہوں نے حضرت رسول اللہﷺ کے فرامین کی جمع وتدوین میں اپنی پوری زندگیوں کو لگا دیا۔ نبی مہرباں حضرت رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ کو مدوّن کرنے والے عظیم محدثین میں امام بخاریؒ کا نام سرفہرست ہے‘ جنہوں نے صحت کے اعلیٰ ترین معیار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے حضرت رسول اللہﷺ کی لاکھوں احادیث میں سے فقط 7278 اہم ترین احادیث کو مختلف عناوین کے تحت اپنی کتاب صحیح بخاری میں جمع فرما دیا۔ حضرت رسول اللہ ﷺ کے ارشادات اور تعلیمات کو امام بخاری ؒاور ان کے ساتھ ساتھ امامِ مسلم نے اس انداز میں تحقیق کے ساتھ جمع کیا کہ اب کوئی بھی شخص؛ اگر صحیح بخاری یا صحیح مسلم کامطالعہ کرتا ہے تو بغیر کسی تردد کے اُس کو اِس بات کا یقین حاصل ہوتا ہے کہ وہ نبی کریمﷺ کے فرامین مبارکہ کا مطالعہ کرنے میں مصروف ہے۔
امام بخاری ؒ نے اس کتاب میں کئی احادیث کی تکرار بھی کی ہے اور اس تکرار کا مقصد مختلف ابواب قائم کرکے ایک ہی حدیث سے مختلف نتائج کو دین کے طلبہ کے سامنے رکھنا ہے۔ امام بخاریؒ کی یہ کتاب فنی اعتبار سے اپنے اند ر بہت سی غیر معمولی خوبیوں کو سموئے ہوئے ہے۔ جن میں سے بہت بڑی خوبی اس کی ترتیب ہے۔ امام بخاریؒ اپنی کتاب میں جو پہلی حدیث لے کر آئے‘ وہ یہ ہے کہ تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور آخری حدیث وہ لے کر آئے کہ جس میںمیزان میں حسنات کے تلنے کا ذکر ہے۔ گویا کہ دین اصلاح نیت سے شروع ہو کر اعمال کے تلنے تک کے سفر کا نام ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام حمید میں اس امر کا اعلان فرمایا کہ ''بے شک میں کسی اچھے عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کرتا۔‘‘ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت امام بخاریؒ کی کاوشوں کو قبول ومنظور فرمالیا اور آپ کی محنتوں کو اس انداز میں با آور کیا کہ رہتی دنیا تک کے لیے آپ کی ذات اور آپ کی خدمات کو امتیازی حیثیت عطا کر دی۔ امام بخاریؒ کے خلوص اور لگن سے ہم سب لوگوںکو اس بات کا رہنمائی ملتی ہے کہ ہمیں بھی اپنی زندگی کو اعلیٰ مقاصد کے لیے صرف کیے رکھنا چاہیے۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ کے دین کے ابلاغ اور اس کی نشرواشاعت کے لیے اپنی زندگیوں کو وقف کیے رکھیں گے ‘تو یقینا اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں بھی آسودگی ‘ راحت اور سعادت والی بہترین زندگی سے نوازے گا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو کتاب وسنت سے تمسک اختیار کرتے ہوئے اپنی زندگیوں کو روشن کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)