20 اپریل کو جامعہ ابوذر غفاری ؓ کراچی میں تکمیل ِ بخاری شریف کے موقع پر ایک بڑی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ۔ کانفرنس سے مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے امیر پروفیسر ساجد میر ‘ اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر رانا شفیق خاں پسروری اور راقم الحروف کو خطاب کی دعوت دی گئی۔ 20 اپریل کو دوپہر ساڑھے 12 بجے لاہور سے پی آئی اے کی پرواز روانہ ہوئی۔ راستے کا موسم مجموعی طور پر خوشگوار تھا ۔پرواز 2 بجے کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر لینڈ کر گئی۔ کراچی میں استقبال کے لیے قریبی ساتھی مولانا اختر علی محمدی‘ مولانا یوسف سلفی اور مولانا حنیف سلفی موجود تھے۔ ان دوست احباب سے ملکی سیاسی اور دینی معاملات پر تبادلہ خیال ہوا۔ رات کو عشاء کی نماز کے بعد کانفرنس کا آغاز ہوا اور اس میں عوام کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ کانفرنس سے پروفیسر ساجد میر صاحب نے خطاب کرتے ہوئے صحیح بخاری کی اہمیت اور اس کی آخری حدیث کے حوالے سے بہت سے علمی نکات بیان کیے اور قیامت کے دن اعمال کے تلنے کے حوالے سے بہت سے نقلی وعقلی دلائل بھی پیش کیے۔ رانا شفیق خاں پسروری نے اس موقع پر اپنے خطاب میں بہت سے تاریخی حوالہ جات کو پیش کیا کہ کس انداز میں برصغیر کے مسلمان حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ میں نے اس موقع پر سامعین کے سامنے سیرت النبی ﷺ کے حوالے سے تین اہم نکات کو رکھا‘ جن کو قارئین کے سامنے بھی پیش کرنا چاہتاہوں:
1۔ عظمت رسول ﷺ :اللہ تبارک وتعالیٰ نے بہت سی مخلوقات کو پیدا کیا ‘جن میں تین مخلوقات‘ یعنی فرشتوں‘ جنات اور انسان کو اللہ نے شعوراور کلام سے نوازا۔ فرشتوں میں برائی کا داعیہ نہیں تھا‘ لیکن انسانوں اور جنات میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے نیکی اور بدی کی صلاحیتوں کو رکھا۔ جو انسان اور جنات اپنے نفس کی سرکشی کی وجہ سے جہنم کا ایندھن بنیں گے‘ ان کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ اعراف کی آیت نمبر 179میں ارشاد فرماتے ہیں :''اور البتہ تحقیق ہم نے پیدا کیے جہنم کے لیے بہت سے جن اور انسان اُن کے دل ہیں (لیکن) وہ سمجھتے نہیں اُن سے اور اُن کی آنکھیں ہیں (لیکن) وہ دیکھتے نہیں اُن سے اور اُن کے کان ہیں (لیکن) وہ سنتے نہیں اُن سے یہ لوگ چوپاؤں کی طرح ہیں‘ بلکہ وہ (اُن سے بھی ) زیادہ گمراہ ہیں وہ لوگ ہی بے خبر ہیں۔‘‘لیکن اپنے مقصد تخلیق کو سمجھ کر متواترا للہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت کرنے والے اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرنے والے لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کے انعام کے مستحق ٹھہرے؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نساء کی آیت نمبر 69 70میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جو اطاعت کرے اللہ اور (اُس کے) رسول کی تو وہ لوگ (ان کے) ساتھ ہوں گے‘ جن پر اللہ نے انعام کیا نبیوں میں سے اور صدیقین اور شہداء اور نیک لوگوں (میں سے) اور بہت خوب ہیں وہ لوگ رفاقت کے لحاظ سے اور یہ فضل ہے اللہ کی طرف سے ۔‘‘
کتاب وسنت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسل اللہ اور انبیاء کا مقام انعام یافتہ لوگوں میں سب سے بلند ہے اور ان میں سے بھی ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ کا مقام سب سے بلند ہے۔ آپ سے پہلے آنے والے انبیاء اپنے اپنے علاقوں اور عہد کے نبی بن کر آئے‘ لیکن نبی کریمﷺ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے قیامت تک جمیع انسانیت کی رہنمائی کے لیے مبعوث فرما دیا۔ آپﷺ سے پہلے انبیاء اور رسل اللہ آتے رہے‘ لیکن آپﷺ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے خاتم النبین بنا کر آپ پر نبوت اور رسالت کو تمام کر دیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد دو حصوں میں تقسیم ہوئی۔ حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد ارض ِاردن‘ ارض ِعراق اور فلسطین کے گردونواح میں توحید کے ابلاغ کا فریضہ انجام دیتی رہی۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سرزمین مکہ میں آباد ہوئی‘ لیکن نبی مہرباں حضرت رسول اللہ ﷺ کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ اسریٰ کی آیت نمبر 1 میں ارشاد فرماتے ہیں :''پاک ہے (اللہ) جو لے گیا اپنے بندے کو ایک رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک (وہ) جو ہم نے برکت کی اس کے اردگرد‘تاکہ ہم دکھائیں اسے (کچھ) اپنی نشانیوں سے ۔‘‘بیت المقدس میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کی امامت میں انبیاء علیہم السلام کو جمع فرما کر اس بات کو ثابت کرد یا کہ آپ ﷺ فقط آنے والوں کے امام بن کر نہیں آئے ‘بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کو جانے والوں کا بھی امام بنا دیا ہے۔
2۔حدیث پاک کا مقام: جس طرح نبی کریمﷺ کی ذات سب سے اعلیٰ اور افضل ہے‘ اسی طرح آپﷺ کی بات بھی ہر شخص کی بات سے اعلیٰ اور افضل ہے۔ دنیا میں آپﷺ ہی کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ آپﷺ کی اطاعت کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی اطاعت قرار دیا۔ سورہ نساء کی آیت نمبر 80 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''جو اطاعت کرے گا رسول ﷺ کی تو درحقیقت اس نے اطاعت کی اللہ کی ۔‘‘ سورہ نساء ہی میں اللہ تعالیٰ آپﷺ کی بات کو فراخ دلی سے تسلیم کرنے والے کو مومن قرار دیتے ہیں اور اس کے برعکس طرز عمل اختیار کرنے والے کے ایمان کی نفی فرماتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نساء کی آیت نمبر 65میں ارشاد فرماتے ہیں: ''پس تیرے رب کی قسم یہ مومن نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ آپ کو منصف (نہ) مان لیں (ان باتوں) میں جو اختلاف اُٹھے ان کے درمیان ‘پھر وہ نہ پائیں اپنے دلوں میں کوئی تنگی (اس)سے جو فیصلہ آپ کریں اوروہ تسلیم نہ کر لیں (خوشی سے) تسلیم کرنا۔‘‘اسی طرح سورہ نور کی آیت نمبر 63میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کے فرامین سے انحراف کرنے والوں کے بارے میں تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:'' پس چاہیے کہ ڈریں‘ وہ لوگ جو مخالفت کرتے ہیں ‘اس(رسول) کے حکم کی کہ پہنچے انہیں کوئی آزمائش (دنیا میں) یا پہنچے انہیں دردناک عذاب (آخرت میں)۔‘‘اس کے مدمقابل اللہ تعالیٰ نے نبی مہرباں حضرت رسول اللہ ﷺ کے اسوہ پر عمل پیرا ہونے والوں کو اپنی محبتوں کا مستحق قرار دیا؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت نمبر31میں ارشاد فرماتے ہیں: ''آپ کہہ دیں اگر ہو تم محبت کرے اللہ سے تو میری پیروی کرو‘ اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا اور وہ معاف کر دے گا تمہارے لیے تمہارے گناہ اور اللہ بہت بخشنے والا بہت مہربان ہے۔ ‘‘اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ احزاب کی آیت نمبر 71 میں ارشاد فرمایا : ''اور جو کوئی اطاعت کرے اللہ اور اس کے رسول کی‘ تو یقینا اُس نے کامیابی حاصل کی بہت بڑی کامیابی۔‘‘
3۔نظام مصطفی ﷺ کی اہمیت: جس طرح نبی کریمﷺ کی ذات اوربات اعلیٰ ہے۔ اسی طرح آپ ﷺ کا نظام بھی جملہ نظاموں سے اعلیٰ ہے۔ آپﷺ کی بعثت سے قبل لوگ بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیا کرتے تھے ۔آپ ﷺ نے بیٹیوں ساتھ حسن سلوک کی عملی مثال پیش کی اور ان کو وراثت میں حصہ دلایا‘ بیویوںکو غلام سمجھا جاتا تھا ‘لیکن آپ ﷺ نے بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والے کو بہترین انسان قرار دیا‘اسی طرح اپنے ہمسایوں کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کی گئی ۔ آپﷺ نے استحصال او ر استیصال کی جملہ اقسام کا خاتمہ کیا۔ آپﷺ نے غلاموں اور محکوم طبقوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کا حکم دیا۔ اسی طرح آپ نے عدالت اور انصاف کا ایسا نظام پیش کیا کہ جب بنو مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی تو آپ ﷺ نے اس امر کا اعلان فرمایا کہ اگر میری بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرے تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں گا۔ نبی کریمﷺ کے عطا کر دہ نظام میں تمام انسانوں کو بلاتفریق رنگ ونسل یکساں اہمیت کا حامل قرار دیاگیا اور ہر شخص کی عزت‘ آبرو‘ مال وجان کے تحفظ کو یقینی بنانے کی ضمانت دی گئی۔ آج کا مسلمان اگر چاہتا ہے کہ صحیح معنوں میں ایک ایسا معاشرہ قائم کیا جائے ‘جس میں تمام انسانوں کویکساں حقوق حاصل ہوںاور ہر شخص انصاف‘ عدل‘ روزگار کو باآسانی حاصل کر سکے تو اس کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ نظام مصطفی ﷺ کی علمداری کو یقینی بنا دیا جائے۔ اس نظام کی روحانی اور مادی دو جہتیں ہیں؛جب ان دو جہتوں کو صحیح معنوں میں سمجھ لیا جائے گا‘ تو نظام مصطفیﷺ کی حقیقی علمداری کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ بعض لوگ نبی کریمﷺ کی ریاست کے مادی پہلوؤں کو تو دیکھتے ہیں‘ لیکن روحانی پہلوؤں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ایسے لوگ کبھی بھی آپ ﷺ کی قائم کردہ ریاست کی اصل روح کو پانے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ نبی کریمﷺ کی قائم کردہ ریاست میں جہاں پر غریبوں‘ مسکینوں‘ محکوموں اور مجبوروں کو جملہ حقوق حاصل تھے اور ہر شخص کی عزت ‘ مال اور جان کے تحفظ کو یقینی بنایا گیا تھا وہیں پر ایمان ‘ اقامت صلوٰۃ‘ نظام زکوٰۃ ‘ ذکر الٰہی‘ حیاء داری کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا گیا تھا۔ ہم؛ اگر ان دونوں پہلوؤں کو مدنظر رکھ لیں تو نبی کریم ﷺ کے اس نظام کی برکات سے بہرہ ور ہو سکتے ہیں کہ جس کے نتیجے میں عربوں کی کایا پلٹ گئی اور وہ دنیا بھر کے حاکم بن گئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو وہ عزت اور وقار عطا کیا جو نہ ان سے پہلے کسی کو حاصل ہوئی اور نہ ان کے بعد اس کے حصول کا تصور کیا جا سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو آپﷺ کی ذات ‘بات اور نظام کی اہمیت کو سمجھنے کی توفیق دے۔ (آمین )