ہمارا معاشرہ اس وقت جھوٹ کی لپیٹ میں ہے اورہم زندگی کے تمام شعبوں میں جھوٹ کو اپنے عروج پر دیکھ سکتے ہیں۔ ملکی سیاست میں مختلف رہنماؤں کا انتخابات کے موقع پر جھوٹ بولنا اور بعد ازاں بھی عوام کے ساتھ جھوٹ وعدے کرتے رہنا‘ ایک معمول بن چکا ۔ کامیاب سیاستدان کو بالعموم جھوٹ بولنے کا ماہر تصور کیا جاتا ہے اور سچی اور سیدھی بات کہنے والے کو عام طور پر ناکام رہنما تصور کیا جاتا ہے‘ اسی طرح کاروباری معاملات میں بھی جھوٹ بولنا عام بات ہے۔ لوگ جھوٹے وعدے اور جھوٹی یقین دہانیوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اس طریقے سے لوگوں کو بیوقوف بنا لیا ہے۔ کئی نوجوان جھوٹ بول کر اور شادی کا جھوٹا جھانسہ دے کر لڑکیوں کی زندگی کو تباہ کر دیتے ہیں‘ ان کی عزتوں سے کھیلنے کے بعد راہ ِفرار اختیار لیتے ہیں۔ جھوٹ کی وجہ سے کئی مرتبہ عائلی زندگی میں بھی بہت سی ناچاقیاں‘ بدگمانیاں اور اختلافات جنم لیتے ہیں۔ کئی لوگ سنی سنائی بات کو بغیر تصدیق کے آگے پہنچاتے رہتے ہیں اور افواہوں کو پھیلانے میں اپنا کردارادا کرتے ہیں۔ جھوٹ بولنے والے شخص کو عام طور پر ہوشیار اور کامیاب آدمی تصور کیا جاتا ہے ‘جبکہ اس کے برعکس سچائی سے کام لینے والے کو سادہ لوح اور کئی مرتبہ لوگ بے وقوف تصور کرتے ہیں؛ حالانکہ حقیقت حال اس کے بالکل برعکس ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے جھوٹی بات سے بچنے کی تلقین کی ہے اور سچائی سے کام لینے کا حکم دیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ حج کی آیت نمبر 30 میں فرماتے ہیں : ''اور تم جھوٹی بات سے بچو ‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ فرقان کی آیت نمبر72 میں عباد الرحمن کی نشانی بتلائی کہ وہ جھوٹی گواہی دینے سے بچتے ہیں؛ چنانچہ ارشاد ہوا: ''اور جو نہیں گواہی دیتے جھوٹی اور جب وہ گزریں بیہودہ کام (کے پاس) سے (تو) وہ باعزت گزرجاتے ہیں‘‘۔اسی طرح سورہ آل عمران کی آیت نمبر 61 میں ارشادہوا : ''اللہ کی لعنت ہے جھوٹوں پر ‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ احزاب کی آیت نمبر70 ‘71 میں سچی بات کہنے کے مثبت نتائج بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : ''اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور بالکل سیدھی بات کہو۔ وہ درست کر دے گا تمہارے لیے تمہارے اعمال اور وہ بخش دے گا‘ تمہارے لیے تمہارے گناہ ۔‘‘ ایفائے عہد کے حوالے سے سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 34میں ارشاد ہوا: ''اور پورا کرو اپنے عہد کو بے شک عہد (کے بارے میں) باز پرس ہو گی۔ ‘‘ اللہ تبار ک وتعالیٰ نے اہل ایمان کو اس بات کا حکم دیا ہے کہ انہیں سچوں کا ساتھ دینا چاہیے؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ توبہ کی آیت نمبر 119میں ارشاد فرماتے ہیں : ''اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو‘ اللہ سے ڈرو اور ہو جاؤ سچ بولنے والوں کے ساتھ‘‘۔ قرآن مجید کی آیات کے ساتھ ساتھ احادیث مبارکہ میں بھی جھوٹ کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ اس حوالے سے چند اہم احادیث درج ذیل ہیں:
1۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :'' منافق کی علامتیں تین ہیں۔ جب بات کرے جھوٹ بولے‘ جب وعدہ کرے اس کے خلاف کرے اور جب اس کو امین بنایا جائے‘ تو خیانت کرے۔ ‘‘
2۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ''چار عادتیں‘ جس کسی میں ہوں تو وہ خالص منافق ہے اور جس کسی میں ان چاروں میں سے ایک عادت ہو تو وہ ( بھی ) نفاق ہی ہے‘ جب تک اسے نہ چھوڑ دے۔ ( وہ یہ ہیں ) جب اسے امین بنایا جائے تو ( امانت میں ) خیانت کرے اور بات کرتے وقت جھوٹ بولے اور جب ( کسی سے ) عہد کرے تو اسے پورا نہ کرے اور جب ( کسی سے) لڑے تو گالیوں پر اتر آئے۔ ‘‘
3۔صحیح بخاری میں حضرت ثابت بن ضحاک رضی اللہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا : ''جس نے اسلام کے سوا کسی اور مذہب کی جھوٹ موٹ قسم کھائی تو وہ ویسا ہی ہو جاتا ہے۔‘‘
4۔ صحیح بخاری میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ''رسولﷺ نے فرمایا کہ مجھ پر جھوٹ مت بولو‘ کیونکہ جو مجھ پر جھوٹ باندھے ‘وہ دوزخ میں داخل ہو گا‘‘۔
5۔صحیح بخاری میں حضرت انسؓ سے مروی ہے؛ آپ فرماتے ہیں‘ مجھے بہت سی حدیثیں بیان کرنے سے یہ بات روکتی ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا : ''کہ جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔ ‘‘
6۔صحیح بخاری میں حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ فرماتے ہیں میں نے نبی کریمﷺ سے سنا آپ ؐ فرماتے تھے کہ '' میرے متعلق کوئی جھوٹ ی بات کہنا عام لوگوں سے متعلق جھوٹ بولنے کی طرح نہیں ہے ‘جو شخص بھی جان بوجھ کر میرے اوپر جھوٹ بولے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔‘‘
7۔صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا:'' اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور دغا بازی کرنا (روزے رکھ کر بھی ) نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔ ‘‘
8۔صحیح بخاری میں حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا‘ خریدنے اور بیچنے والوں کو اس وقت تک اختیار ( بیع ختم کر دینے کا ) ہے جب تک دونوں جدا نہ ہوں پس اگر دونوں نے سچائی سے کام لیا اور ہر بات صاف صاف کھول دی تو ان کی خرید و فروخت میں برکت ہوتی ہے ‘لیکن اگر کوئی بات چھپا رکھی یا جھوٹ کہی تو ان کی برکت ختم کر دی جاتی ہے۔
9۔صحیح بخاری میں حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ فرشتے بادل میں آپس میں کسی امر میں جو زمین میں ہونے والا ہوتا ہے‘ باتیں کرتے ہیں تو شیاطین اس میں سے کوئی ایک کلمہ سن لیتے ہیں اور وہی کاہنوں کے کان میں اس طرح لا کر ڈالتے ہیں‘ جیسے شیشے کا منہ ملا کر اس میں کچھ چھوڑتے ہیں اور وہ کاہن اس میں سو جھوٹ اپنی طرف سے ملاتے ہیں۔
10۔صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے مدینہ کے اپنے آخری سفر میں ہمیں خطاب فرمایا اور ( خطبہ کے دوران ) آپ نے بالوں کا ایک گچھا نکالا اور فرمایا؛ میں سمجھتا ہوں کہ یہودیوں کے سوا اور کوئی اس طرح نہ کرتا ہو گا اور نبی کریم ﷺ نے اس طرح بال سنوارنے کا نام ''الزور‘‘ (فریب و جھوٹ ) رکھا ہے۔ آپ کی مراد بالوں میں جوڑ لگانے سے تھی۔ (جیسے اکثر عورتیں مصنوعی بالوں میں جوڑ کیا کرتی ہیں )
11۔صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا: ''سب سے بڑا بہتان اور سخت جھوٹ یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ کے سوا کسی اور کو اپنا باپ کہے یا جو چیز اس نے خواب میں نہیں دیکھی۔ اس کے دیکھنے کا دعویٰ کرے یا رسول کریمﷺ کی طرف ایسی حدیث منسوب کرے ‘جو آپ نے نہ فرمائی ہو۔‘‘
12۔صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا :''سب سے بدترین جھوٹ یہ ہے کہ انسان خواب میں ایسی چیز کو دیکھنے کا دعویٰ کرے ‘جو اس کی آنکھوں نے نہ دیکھی ہو۔‘‘
13۔صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا : ''سب سے بڑے گناہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا‘ کسی کی ناحق جان لینا‘ والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹ بولنا ہیں یا فرمایا کہ جھوٹ ی گواہی دینا۔‘‘
14۔صحیح مسلم میں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : آدمی کے جھوٹ میں یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات بیان کر دے ۔
15۔صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ فرماتے ہیں نبی کریمﷺنے فرمایا :''بلاشبہ سچ آدمی کو نیکی کی طرف بلاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور ایک شخص سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ صدیق کا لقب اور مرتبہ حاصل کر لیتا ہے اور بلاشبہ جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے اور برائی جہنم کی طرف اور ایک شخص جھوٹ بولتا رہتا ہے‘ یہاں تک کہ وہ اللہ کے یہاں بہت جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘
الغرض کتاب وسنت کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہمیں ہر حالت میں زندگی کے ہر معاملے میں جھوٹ سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ وگرنہ دنیا اور آخرت میں ناکامی اور نامرادی ہمارا مقدر بن سکتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق ہم اس کی لعنتوں کے مستحق ٹھہر سکتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو زندگی کے تمام معاملات میں جھوٹ سے بچنے کی توفیق دے۔ (آمین)