بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی‘ اسلام آباد پاکستان کا ایک نمایاںتعلیمی ادارہ ہے۔ اس یونیورسٹی کو 1980ء میں قائم کیا گیا جب کہ 1985ء میں اس کی تشکیل ِنو کی گئی۔ اس ادارے میں علوم اسلامیہ کی تعلیم کو خصوصی اور بنیادی اہمیت دی جاتی ہے‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہاں عصری تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ یونیورسٹی میں سائنس‘ ٹیکنالوجی اور مینجمنٹ کے علوم بھی احسن انداز سے پڑھائے جاتے ہیں۔ یونیورسٹی میں طلبا کی تعلیم وتربیت کے حوالے سے مختلف پروگراموں کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے۔ مجھے ماضی میں بھی یونیورسٹی میں مختلف تقریبات میں شرکت کا موقع ملا اور میں نے اپنے خیالات کو طلبا کے سامنے رکھا۔24 اپریل ایک مرتبہ پھر مجھے یونیورسٹی کے طلبہ کی طرف سے ''اسلام کے تصورِ حیائ‘‘کے موضوع پر خطاب کی دعوت دی گئی۔ میں 24 تاریخ کو ڈیڑھ بجے کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے اسلام آباد کے روانہ ہوا اور ساڑھے تین بجے اسلام آبادکے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اتر گیا۔ ائیر پورٹ پر استقبال کے لیے عبدالرحمن بھائی موجود تھے‘ جو مجھے اپنے ہمراہ لے کر جی ٹین میں واقع قاری عمر فاروق صاحب کے مرکز میں لے گئے۔قار ی عمر فاروق صاحب نے ہمیشہ کی طرح بڑی خندہ پیشانی سے میرا استقبال کیا۔ میں مغرب اور عشاء کی نماز جی ٹین ہی میں ادا کی اور اس کے بعد بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی طرف روانگی ہو گئی۔ یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے نمائندگان نے بڑے پرجوش انداز میں خیر مقدم کیا۔ ابوبکر ؓہوسٹل اور عمرؓ ہوسٹل کے درمیان واقعہ خوبصورت لان میں بڑی تعداد طلبا جمع تھے۔ تقریب کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے ہوا۔ دو مختلف طلبا نے قرآن مجید کی بڑی خوبصورت انداز میں تلاوت کی اس کے بعد نعت رسول مقبول ﷺ کو پڑھا گیا۔ جمعیت طلبہ کے عہدیداران نے بڑے پرُ جوش انداز میں خیر مقدم کیا اور اس کے بعد مجھے خطاب کی دعوت دی گئی۔ خوشگوار موسم میں طلبا بڑے انہماک سے حیاء کے موضوع پر میری گفتگو کو سنتے رہے۔ میں نے اس موقع پر جن خیالات کو طلبہ کے سامنے رکھا ‘انہیں کچھ کمی پیشی کے ساتھ قارئین کے سامنے بھی رکھنا چاہتا ہوں:
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ‘جو زندگی کے تمام شعبوں میں مسلمانوں کی کامل رہنمائی کرتا ہے۔ اسلام نے جہاں پر ایمانیات ‘ عبادات اور معاملات کے حوالے سے نہایت احسن انداز میں مسلمانوں کی رہنمائی کی ہے‘ وہیں پر سماجی اور اخلاقی زندگی کے اہم پہلو حیاء کی اہمیت کو بھی بہت زیادہ اجاگر کیا گیاہے۔ اسلام میں فحاشی کی بھرپور انداز میں مذمت کی گئی ہے اور ان تمام اقدامات کی روک تھام کی تلقین کی گئی ہے‘ جو معاشرے میں فحاشی کو فروغ دینے والے ہوں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 32میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور تم مت قریب جاؤ زنا کے ‘بے شک وہ بے حیائی اور برا راستہ ہے۔‘‘اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ اعراف کی آیت نمبر 33میں ارشاد فرمایا :''کہہ دیجئے درحقیقت حرام کیا ہے‘ میرے رب نے بے حیائی کی باتوں کو جو ظاہر ہیں‘ ان میں سے اور جو چھپی ہوئی ہیں اور گناہ کو اور بغاوت کو ناحق طریقے سے۔ ‘‘
اسی طرح سورہ انعام کی آیت نمبر151 میں ارشاد ہوا: ''اور مت قریب جاؤ بے حیائی کے (کاموں کے) جو ظاہر ہیں اُن میں سے اورجو چھپی ہیں۔‘‘ قرآن مجید میں ان لوگوں کو عذاب الیم کی وعید سنائی گئی ہے‘ جو مسلمانوں میں فحاشی پھیلانے کو پسند کرتے ہیں؛چنانچہ سورہ نور کی آیت نمبر 19میں ارشاد ہوا: ''بے شک وہ لوگ جو پسند کرتے ہیں کہ پھیلے بے حیائی ان لوگوں میں جو ایمان لائے ان کے لیے دردناک عذاب ہے ‘دنیا اور آخرت میں۔‘‘
حیاء کے فروغ کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے جہاں پر عورتوں کے لیے احکامات حجاب کا نزول فرمایا وہیں پر عورتوں کے ساتھ ساتھ مردوں کو بھی اپنی نگاہوں کو جھکانے کا حکم دیا۔ پاکیزگی ا ور طہارت کو کامیابی کے ساتھ تعبیر کیا گیا اور سورہ اعلیٰ کی آیت نمبر 14میں ارشاد ہوا: یقینا کامیاب ہو گیا جو پاک ہو گیا اور یقینا وہ ناکام ہوا جس نے خاک میں ملا دیا (یعنی آلودہ کر لیا ) اُسے۔‘‘تزکیہ نفس کی اہمیت کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مدین کے گھاٹ کے پہنچنے کے بعد دو خواتین کی مدد کرنے کے واقعہ کو جب بیان کیا تو اُن خواتین میں سے ایک خاتون کی حیاء والی چال کا بھی ذکر کیا۔ کلام اللہ میں مذکور اس واقعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ حیاء دار شخص کی چال کو بھی پسند فرماتے ہیں۔ اگر اللہ تبارک وتعالیٰ کو حیاء دار شخص کی چال پسند ہے‘ تو یقینا اس کے باقی اعمال بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کو پسند ہوں گے۔ قرآن مجید کے ساتھ ساتھ احادیث مبارکہ میں بھی حیاء کی اہمیت کو بہت زیادہ اجاگر کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے چند اہم احادیث درج ذیل ہیں:
1۔ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت کی کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا : '' ایمان کی ستر سے زیادہ شاخیں ہیں اور حیاء بھی ایمان کی ایک شاخ ہے ۔ ‘‘
2۔ صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کی کہ نبی اکرمﷺ نے ایک آدمی سے سنا ‘جو اپنے بھائی کو حیاء کے بارے میں نصیحت کر رہا تھا ‘تو آپﷺ نے فرمایا : '' ( حیاء سے مت روکو ) حیا ایمان میں سے ہے ۔ ‘ ‘
3۔صحیح مسلم میں حضرت عمران بن حصین ؓسے روایت ہے‘ وہ نبیﷺ سے حدیث بیان کرتے تھے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ''حیا ء سے خیر اور بھلائی ہی حاصل ہوتی ہے ۔‘ ‘
4۔صحیح مسلم میں مذکور ہے کہ حضرت عمران ؓنے ایک حدیث سنائی ‘ کہاکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : '' حیاء بھلائی ہے پوری کی پوری ۔ ‘ ‘ ( انہوں نے کہا یا یہ الفاظ فرمائے ) : '' حیا پوری کی پوری بھلائی ہے ۔ ‘ ‘
5۔ صحیح مسلم میں روایت ہے کہ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں : میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس لڑکی کے بارے میں پوچھا جس کے گھر والے اس کا نکاح (کرنے کا ارادہ ) کریں ‘ کیا اس سے اس کی مرضی معلوم کی جائے گی یا نہیں؟ تو رسول اللہ ﷺنے ان سے فرمایا : ''ہاں ‘ اس کی مرضی معلوم کی جائے گی‘‘۔ حضرت عائشہ ؓ نے کہا : میں نے آپ سے عرض کی : وہ تو یقینا حیا محسوس کرے گی ‘ تو رسول اللہﷺنے فرمایا :'' جب وہ خاموش رہی تو یہی اس کی اجازت ہو گی‘‘۔
6۔صحیح مسلم میں روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مغفل ؓیہ بتاتے ہوئے سنا گیا کہ '' خیبر کے دن ہماری طرف چمڑے کا ایک تھیلا پھینکا گیا ‘جس میں کھانا اور چربی تھی‘ میں اسے پکڑنے کیلئے جھپٹا ۔ کہا : میں نے مڑ کر دیکھا تو ( پیچھے ) رسول اللہﷺموجود تھے۔ تو مجھے آپﷺسے بہت حیا ء آئی‘‘۔
7۔صحیح مسلم میں روایت ہے کہ عبداللہ بن ابی عتبہ نے کہا : میں نے ابو سعید خدری ؓسے سنا کہہ رہے تھے :'' رسول اللہ ﷺاس کنواری لڑکی سے زیادہ حیاء کرنے والے تھے‘ جو پردے میں ہوتی ہے ۔ جب آپ ﷺکسی چیز کو ناپسند فرماتے تو ہمیں آپﷺ کے چہرے سے اس کا پتا چل جاتا‘‘ ۔
8۔سلسلہ احادیث صحیحہ میں معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺنے انہیں کسی قوم کی طرف بھیجا تو انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! مجھے نصیحت کیجئے۔ آپ ﷺنے فرمایا: ''سلام کو عام کرو اور کھانا کھلاؤ اور اللہ سے اس طرح حیاء کرو‘ جس طرح تم اپنے گھر کے کسی فرد سے حیا ء کرتے ہواور جب گناہ کرو ‘تو اس کے بعد نیکی کرو اور جتنا ہو سکے‘ اپنا اخلاق اچھا کرو‘‘۔
9۔السلسلہ الصحیحہ میں قرۃ المزنی ؓ بیان کرتے ہیں‘ انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ ﷺکے پاس بیٹھے ہوئے تھے‘ آپﷺ کے پاس حیا ء کا تذکرہ چل پڑا‘ صحابہ نے پوچھا:اے اللہ کے رسول ﷺ! کیا حیا دین سے تعلق رکھتا ہے؟ رسول اللہ ﷺنے فرمایا : بے شک حیا ‘ پاکدامنی ‘بے بسی(عدم قدرت) ‘زبان کی بے بسی نہ کہ دل کی بے بسی‘ اور فقہ(سمجھ بوجھ) ایمان سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان سے دنیا میں کمی اور آخرت میں اضافہ ہوتا ہے اور آخرت کا اضافہ دنیا کے نقصان سے بہت زیادہ ہے ۔اسی طرح بخیلی ‘فحش‘ اور بدکلامی نفاق سے تعلق رکھتی ہیں ۔ یہ چیزیں آخرت کا نقصان کرتی ہیں اور دنیا میں کچھ اضافہ کرتی ہیں اور آخرت کا نقصان دنیا کے فائدہ سے بہت زیادہ ہے۔
خلوت میں‘ یعنی تنہائی میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے خوف اور حیاء سے بے نیاز ہونے جانے والوں کے انجام بد‘ کے حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے:
سنن ابن ماجہ میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: میں اپنی امت میں سے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں‘ جو قیامت کے دن تہامہ کے پہاڑوں کے برابر نیکیاں لے کر آئیں گے‘ اللہ تعالیٰ ان کو فضا میں اڑتے ہوئے ذرے کی طرح بنا دے گا ۔ ثوبان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ان لوگوں کا حال ہم سے بیان فرمائیے اور کھول کر بیان فرمایئے ‘تاکہ لاعلمی اور جہالت کی وجہ سے ہم ان میں سے نہ ہو جائیں‘ آپ ﷺنے فرمایا: '' جان لو کہ وہ تمہارے بھائیوں میں سے ہی ہیںاور تمہاری قوم میں سے ہیں‘ وہ بھی راتوں کو اسی طرح عبادت کریں گے‘ جیسے تم عبادت کرتے ہو‘ لیکن وہ ایسے لوگ ہیں کہ جب تنہائی میں ہوں گے‘ تو حرام کاموں کا ارتکاب کریں گے‘‘ ۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں شرم وحیاء والی زندگی عطا فرمائے اور فحاشی اور بے حیائی والے کاموں سے محفوظ فرمائے۔