یکم مئی کو دنیا بھر میں مزدوروں اور محنت کشوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن دنیا بھر میں مختلف پروگراموں کا انعقاد کر کے ان کے حقوق کی اہمیت کو اجاگر کیا جاتا ہے۔محنت کش لوگ معاشرے کی تعمیر وترقی میں نمایاں کر دار ادا کرتے ہیں اور کسی بھی معاشرے میں بسنے والے انسانوں کی جملہ ضروریات کو پورا کرنے میں ان کا اہم کردار ہوتا ہے۔ بعض لوگ محنت کشوں اور مزدوروں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں‘ لیکن اس حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں کہ کسان محنت کرکے ہمیں اناج فراہم کرتے ہیں‘ درزی محنت کرکے ہمارے لئے کپڑوں کو سیتے ہیں ‘ مزدور محنت کرکے ہمارے لیے تعمیراتی کام کو آسان بناتے ہیں‘ موچی ہمارے لیے جوتا مرمت کرتے ہیں‘ گوالے ہمارے لیے دودھ لاتے ہیں‘مالی اور باغبانی کرنے والے لوگ ہمارے لیے سبزیوں اور پھلوں کو فراہم کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر معاشرے میں یہ محنت مزدوری کرنے والے لوگ موجود نہ ہوں‘ تو معاشرے کی بہت سی ضروریات تشنہ رہ جائیں؛ چنانچہ ہمیں اِن لوگوں کی قدر کرنی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ بھی ایسے لوگوں کی قدر فرماتے ہیں۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین آدمی چل رہے تھے کہ بارش نے انہیں آ لیا اور انہوں نے مڑ کر پہاڑی کی غار میں پناہ لی۔ اس کے بعد ان کے غار کے منہ پر پہاڑ کی ایک چٹان گری اور اس کا منہ بند ہو گیا۔ اب بعض نے بعض سے کہا کہ تم نے جو نیک کام کئے ہیں‘ ان میں سے ایسے کام کو دھیان میں لاؤ جو تم نے خالص اللہ کے لیے کیا ہو‘ تاکہ اللہ سے اس کے ذریعہ دعا کرو ممکن ہے وہ غار کو کھول دے۔ اس پر تینوں نے اپنے نیک عمل کا واسطہ دیا اور ان کو نجات حاصل ہوگئی ‘ان میں سے دو کی دعا سے پتھر غار کے منہ سے ہٹا‘ لیکن ابھی بھی نکلنے کی جگہ نہ تھی۔ ان میں سے تیسرے نے کہا کہ'' اے اللہ! میں نے ایک مزدور ایک فرق چاول کی مزدور ی پر رکھا تھا‘ اس نے اپنا کام پورا کر کے کہا کہ میری مزدور ی دو۔ میں نے اس کی مزدور ی دے دی‘ لیکن وہ چھوڑ کر چلا گیا اور اس کے ساتھ بے توجہی کی۔ میں اس کے اس بچے ہوئے دھان کو بوتا رہا اور اس طرح میں نے اس سے ایک گائے اور اس کا چرواہا کر لیا ( پھر جب وہ آیا تو ) میں نے اس سے کہا کہ یہ گائے اور چرواہا لے جاؤ۔ اس نے کہا: اللہ سے ڈرو اور میرے ساتھ مذاق نہ کرو۔ میں نے کہا کہ میں تمہارے ساتھ مذاق نہیں کرتا۔ اس گائے اور چرواہے کو لے جاؤ؛ چنانچہ وہ انہیں لے کر چلا گیا۔ پس ؛اگر تیرے علم میں بھی میں نے یہ کام تیری رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کیا تھا‘ تو چٹان کی وجہ سے غار سے نکلنے میں جو رکاوٹ باقی رہ گئی ہے‘ اسے بھی کھول دے‘‘ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے پوری طرح کشادگی کر دی‘ جس سے وہ باہر آ گئے۔اسی طرح صحیح بخاری میں حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''میں جنت کے دروازے پر کھڑا ہوا تو وہاں اکثر داخل ہونے والے محتاج لوگ اور محنت مزدوری کرنے والے تھے اور مالدار لوگ ایک طرف روکے گئے ہیں‘ ان کا حساب لینے کے لیے باقی ہے۔‘‘ان دو احادیث سے محنت کشوں کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
محنت کشوں کی بعض اہم ذمہ داریاں ہیں‘ جن میں سے بعض اہم درج ذیل ہیں‘ جن کو یہاں بیان کیا جا رہا ہے :
1۔ ایمانداری: محنت کشوں کو ایمانداری اور دیانت داری سے اپنا کام کرنا چاہیے اور مالک کے مال اور اپنے کام کے حوالے سے خیانت کا ارتکاب نہیں کرنا چاہیے۔ انسان جب اپنی مزدوری میں کمی‘ کوتاہی یا بددیانتی کرتا ہے‘ اسی طرح جب وہ اپنے مالک یا ادارے کی حق تلفی کرتا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس کے افعال کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ کئی مرتبہ انسان کو اپنی بددیانتی کی وجہ سے دنیا ہی میں بدنامی اور سزا کو سہنا پڑتا ہے۔ کئی مرتبہ انسان دنیا میں تو قانون کی گرفت سے بچ نکلتا ہے لیکن وہ بددیانتی کی وجہ سے آخرت میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے عذاب کی لپیٹ یا گرفت میں آجائے گا۔
2۔ احساس ذمہ داری: محنت کشوںکو ایمانداری کے ساتھ ساتھ احساس ذمہ داری کا بھی مظاہرہ کرنا چاہیے۔ کئی مرتبہ محنت کش لوگ تساہل اور غفلت کا مظاہرہ کرنے کی وجہ سے اپنا کام تاخیر سے انجام دیتے ہیں‘ جس کی وجہ سے کام کا نقصان ہوتا ہے اور محنت کش کی اپنی معیشت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ اس کی محدود آمدن کی وجہ سے جب اس کی ضروریات پوری نہیں ہوتیں تو معاشرے میں جرائم پیشہ اور گداگر لوگ منظر عام پر آتے ہیں۔ اگر محنت کش لوگ احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کریں تو معاشرہ جرائم پیشہ افراد اور پیشہ ور گداگروں سے پاک ہو سکتا ہے۔
3۔ ناجائز کاموں سے احتراز: محنت کشوں کو اپنی آمدن کے حوالے سے اللہ تبارک و تعالیٰ پر توکل کرنا چاہیے اور اپنی غربت کی وجہ سے ناجائز کاموں میں ملوث نہیں ہونا چاہیے۔ شراب کی بھٹیوں‘ جوا خانوں اور قحبہ گری کے اڈوں پر کام کرنے سے ہر صورت بچنا چاہیے اور انہیں اللہ تبارک و تعالیٰ سے خوراک اور رزق طلب کرتے رہنا چاہیے۔
جہاں پر محنت کشوں کی ذمہ داریاں ہیں‘ وہیں پر ان کے بہت سے حقوق ہیں ‘جن میں سے بعض اہم درج ذیل ہیں:
1۔ عزت کا تحفظ: محنت کش لوگ معاشرے کی طرف سے عزت کے طلب گار ہوتے ہیں۔ معاشرے کو ان کے ہنر اور پیشوں کی وجہ سے ان کی عزت اور احترام کرنا چاہیے اور ان کی غربت اور کام کی وجہ سے ان کو حقارت سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ بعض لوگ محنت کشوں کے نام بگاڑ کر پکارتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں اہلِ ایمان کو دوسروں کا مذاق اُڑانے اور غلط ناموں سے موسوم کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سورہ حجرات کی آیت نمبر11 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اے ایمان والو! نہ مذاق کرے کوئی قوم کسی (دوسری) قوم سے۔ ہو سکتا ہے‘ وہ بہتر ہوں ان سے اور نہ کوئی عورتیں (مذاق کریں دوسری) عورتوں سے ہو سکتا ہے ‘وہ بہتر ہوں ان سے۔ اور نہ تم عیب لگاؤ اپنے نفسوں (یعنی ایک دوسرے) پر اور ایک دوسرے کو مت پکارو (برے) القاب سے ۔‘‘
2۔ اُجرت کی صحیح طریقے سے ادائیگی: محنت کشوں کی اجرت کو بروقت ادا ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے دو اہم احادیث درج ذیل ہیں:
(الف )صحیح بخاری حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ تین طرح کے لوگ ایسے ہوں گے ‘جن کا قیامت کے دن میں مدعی بنوں گا‘ ایک وہ شخص جس نے میرے نام پر عہد کیا اور وہ توڑ دیا‘ وہ شخص جس نے کسی آزاد انسان کو بیچ کر اس کی قیمت کھائی اور وہ شخص جس نے کوئی مزدور اجرت پر رکھا‘ اس سے پوری طرح کام لیا‘ لیکن اس کی مزدور ی نہیں دی۔
(ب)سنن ابن ماجہ میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مزدور کو اس کا پسینہ سوکھنے سے پہلے اس کی مزدور ی دے دو۔
3۔ جان کا تحفظ : مزدوروں کی جان کے تحفظ کو بھی اسلام میں بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ اس حوالے سے حضرت رباح بن ربیع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم ایک غزوہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے‘ آپ نے دیکھا کہ لوگ کسی چیز کے پاس اکٹھا ہیں تو ایک آدمی کو بھیجا اور فرمایا: جاؤ‘ دیکھو یہ لوگ کس چیز کے پاس اکٹھا ہیں ‘ وہ دیکھ کر آیا اور اس نے بتایا کہ لوگ ایک مقتول عورت کے پاس اکٹھا ہیں‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تو ایسی نہیں تھی کہ قتال کرے ( فوج کے اگلے حصہ ) پر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ مقرر تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے پاس کہلا بھیجا کہ وہ ہرگز کسی عورت کو نہ ماریں اور نہ کسی مزدور کو۔
4۔ انصاف کی فراہمی: مزدوروں کو بھی معاشرے کے دیگر طبقات کی طرح انصاف ملنا چاہیے۔ اس حوالے سے صحیح بخاری میں حضرت یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جیش عسرۃ ( غزوۃ تبوک ) میں گیا تھا‘ یہ میرے نزدیک میرا سب سے زیادہ قابل اعتماد نیک عمل تھا۔ میرے ساتھ ایک مزدور بھی تھا وہ ایک شخص سے جھگڑا اور ان میں سے ایک نے دوسرے مقابل والے کی انگلی چبا ڈالی۔ دوسرے نے جو اپنا ہاتھ زور سے کھینچا تو اس کے آگے کے دانت بھی ساتھ ہی کھینچے چلے آئے اور گر گئے۔ اس پر وہ شخص اپنا مقدمہ لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر پہنچا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے دانت ( ٹوٹنے کا ) کوئی قصاص نہیں دلوایا‘ بلکہ فرمایا کہ کیا وہ انگلی تمہارے منہ میں چبانے کیلئے چھوڑ دیتا۔ راوی نے کہا کہ میں خیال کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بھی فرمایا؛ جس طرح اونٹ چبا لیا کرتا ہے۔ محنت کشوں کو رہائش اور علاج معالجہ کی سہولیات بھی ملنی چاہئیں اور ان کی اولاد کی تعلیم کا بہترین بندوبست بھی ہونا چاہیے۔
اسلامی تعلیمات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اسلام محنت کشوں کے حقوق کا علمبردار ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں کتاب وسنت کی تعلیمات سے استفادہ کرتے ہوئے محنت کشوں کی عظمت کا احساس کرنے کی توفیق دے۔( آمین)