انتیسویں پارے کا آغاز سورہ ملک سے ہوتا ہے‘ جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ بابرکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں حکومت ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انہوں نے زندگی اور موت کو اس لیے بنایا‘ تاکہ وہ جان لیں کہ کون اچھے عمل کرتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اپنی قوت تخلیق کا ذکر کرتے ہوئے ارشادفرمایا کہ اس نے سات آسمان بنائے اور اس نے اس انداز میں ان کو بنایا کہ اس کی تخلیق میں کسی بھی قسم کا کوئی رخنہ یا دراڑ نظر نہیں آتی ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انہوں نے آسمان دنیا کو چراغوں سے مزین کیا اور ان کے ذریعے وہ شیطان کو رجم بھی کرتے ہیں ۔
سورہ ملک کے بعد سورۃ القلم ہے۔ اس میں ارشاد ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کا اخلاق عظیم ہے ۔ رسول کریم ﷺ نے خود بھی اعلان فرمایا تھا کہ مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کیلئے مبعوث کیا گیا ہے۔کسی نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے پوچھا کہ رسول اللہﷺ کا اخلاق کیسا تھا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے جواب دیا کہ آپ ﷺ کا اخلاق قرآن تھا‘ یعنی جو کچھ قرآن میں اللہ نے آپؐ پر نازل فرمایا۔ آپ ﷺ ساری زندگی اسی پر عمل پیرا رہے ۔اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے ایک سخی اور نیک زمیندار کا بھی ذکر کیا کہ وہ اپنے باغات کی آمدنی میں سے اللہ تعالیٰ کے حق کو احسن طریقے سے ادا کیا کرتا تھا ۔ جب اس کا انتقال ہوا تو اس کے بیٹوں نے اس بات کا فیصلہ کیا کہ وہ فصلوں کی کٹائی میں سے کسی غریب کو کچھ بھی ادا نہ کریں گے ۔جب فصلوں کی کٹائی کا وقت آیا تو وہ صبح سویرے نکلے ‘تاکہ راستے میں ان کو کوئی مسکین نہ مل جائے۔ جب وہ باغ میں پہنچے تو دیکھاکہ وہاں پر کھیت یا باغ نام کی کوئی چیز موجود نہ تھی۔ ان کو شک ہوا کہ وہ راستہ بھول گئے ہیں لیکن اچھی طرح غور کرنے کے بعد وہ سمجھ گئے کہ وہ راستہ نہیں بھولے بلکہ ان کا باغ اجڑ چکا تھا ۔یہ واقعہ اس امر کی دلیل ہے کہ جب مال کو راہ خدا میں خرچ نہ کیا جائے تو اس مال کے ضائع ہونے کے خدشات پیدا ہو جاتے ہیں۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے بتلایا کہ کافر ‘رسول کریمؐ کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔ جب وہ قرآن کو سنتے تو نعوذ باللہ آپ کو مجنون کہتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ آپ ؐکو اپنی نگاہوں سے گرانا چاہتے ہیں اس لیے آپ کے بارے میں ہرزہ سرائی کرتے ہیں؛ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن مجید جہانوں کیلئے نصیحت ہے۔
سورۃ القلم کے بعد سورۃ الحاقہ ہے۔ الحاقہ سے مراد حقیقت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں قیامت کو حقیقت کے نام سے پکارا اور اس حقیقی کھڑکھڑاہٹ کو جھٹلانے والوں کے انجام سے آگاہ کیا ہے۔ اس سورت میں قومِ ثمود اور عاد کے انجام سے آگاہ کیا‘ جنہوں نے قیامت کو جھٹلایا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے قوم ثمود کو ایک چیخ کے ذریعے اور قوم عاد کو تیز ہوا کے ذریعے ہلاک کر دیا تھا ۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺکے بارے میں کافروں کے اقوال کو نقل کر کے ان کی تردید کی ہے ۔کافر‘رسول کریم ﷺ کو شاعر اور کاہن کہتے تھے ‘جبکہ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں ‘جو کچھ بھی آپ پر اترا ہے‘ پروردگار نے اتارا ہے اور اس میں جھوٹ والی کوئی بات نہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی ذات پر جھوٹ باندھنے والے کو کبھی فلاح نہیں دیتے‘ جبکہ اللہ کے حبیب ﷺ کے تذکروں کو اللہ تعالیٰ نے رہتی دنیا تک جاری و ساری فرمادیا ہے ۔
سورۃ الحاقہ کے بعد سورۃ المعارج ہے ۔اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کا ذکر کیا ہے کہ اس کی طوالت پچاس ہزار برس کے برابر ہو گی وہ دن ایسا ہو گا کہ مجرم کی خواہش ہو گی کہ اپنا آپ چھڑوانے کیلیے اپنے بیٹے یا اپنی بیوی اور اپنے بھائی کو پیش کردے یا زمین میں جو کچھ ہے ‘اس کو بطور فدیہ دے دے۔ اس دن جو لوگ عذاب سے بچیں گے‘ ان کے اوصاف بھی اللہ تعالیٰ نے بیان فرمادیے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوں گے‘ جو اپنی پاک دامنی کا تحفظ کرنیوالے ہونگے۔یہ لوگ امانتوں اور وعدوں کی پاسداری کرنیوالے ہونگے۔ یہ لوگ حق کی گواہی پر قائم رہنے والے ہوں گے اور نماز کی حفاظت کرنیوالے ہونگے اور یہ لوگ جنتوں کے حق دار ٹھہریں گے۔
سورہ معارج کے بعد سورہ نوح ہے ۔سورہ نوح میں اللہ تعالیٰ نے جناب نوح علیہ السلام کی دین کیلئے محنت کا ذکر کیا کہ جناب نوح علیہ السلام ساڑھے نو سوبرس تک اپنی قوم کے لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے رہے۔ انہوں نے صبح شام پوری تندہی سے اللہ کے دین کی خدمت کی اور اپنی قوم کے لوگوں کو یہ بات سمجھائی کہ وہ پروردگار سے استغفار کیا کریں‘ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اللہ تعالیٰ بارشوں کو ان کی مرضی کے مطابق نازل فرمائے گا اور مال اور بیٹوں میں بھی اضافہ کرے گا اور ان کیلئے نہروں کو چلا دیں گے اور باغات کو آباد کر دیں گے ۔
سورہ نوح کے بعد سورہ جن ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے جنات کی ایک جماعت کے قبول اسلام کا ذکر کیا کہ انہوں نے قرآن کی تلاوت سنی تو کہنے لگے کہ قرآن کیا خوبصورت کلام ہے ہدایت کی طرف رہنمائی کرتا ہے ۔پس ‘ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور ہم اپنے پروردگار کے ساتھ شرک نہیں کریں گے ۔انہوں نے کہا کہ پروردگار کا مقام بہت بلند ہے‘ نہ اس کی کوئی بیوی ہے اور نہ ہی کوئی بیٹا۔ انہوں نے قرآن مجید کے نزول کے بعد اپنی قوم کے لوگوں کو بھی توحید کی دعوت دی چنانچہ انسانوں کی طرح جنات کی بھی ایک جماعت اہل توحید میں شامل ہو گئی۔
سورہ جن کے بعد سورہ مزمل ہے۔ سورہ مزمل میں اللہ تعالیٰ نے حبیبؐ کو کہاہے کہ وہ پوری رات عبادت نہ کیا کریں بلکہ نصف رات‘ اس سے کچھ زیادہ یا کم عبادت کیا کریں‘ اس لیے کہ انہوں نے دن کو بھی بہت سے کام انجام دینے ہوتے ہیں اوراللہ تعالیٰ کا نام وقفے وقفے سے لیتے رہا کریں۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایاکہ قرآن جس حد تک ممکن ہو ضرورپڑھنا چاہیے۔
سورت مزمل کے بعد سورہ مدثر ہے ۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے بعض لوگوں کے انجام بد کا ذکر کیا اور فرمایا جو قرآن مجید کو غرور کی وجہ سے جھٹلاتے ہیں‘ انہیں جہنم کا مزا چکھنا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ نے جہنم کے پہریدار فرشتوں کی تعدادانیس بتلائی ہے اور جہنم میں لے کر جانے والے بڑے بڑے گناہوں میں‘نمازمیں کوتاہی اور مساکین کو کھانا نہ کھلا نے کابھی ذکر کیا ہے ۔اس کے بعد سورۃ القیامہ ہے ‘جس میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کی گھڑیوں کا ذکر کیا کہ یقینا قیامت آئے گی اور کافر جو اللہ کے بارے میں یہ گمان کرتا ہے کہ وہ ہڈیوں کو دوبارہ کیسے بنائے گا تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہمارے لیے انگلیوں کے پوروں تک کو بھی دوبارہ ٹھیک ٹھیک پیدا کرنا مشکل نہیں ہے۔ اس کے بعد سورہ دہر ہے ۔ اس میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ انسان پرایک دورایساتھاجب وہ کوئی قابل ذکرچیزنہیں تھا۔ اللہ تعالی نے پانی کے قطرے سے اسے دیکھنے اورسننے والابنادیا۔اس کودوراہیں بھی بتلا دیں چاہے شکرکرے یاانکارکرے ۔ا س کے بعد سورہ مرسلات ہے اوراس سورت میں اللہ تعالی نے متعدد مرتبہ قیامت کوجھٹلانے والوں کے لیے تباہی کادن قراردیاہے اورکامیابی وکامرانی کواہل تقویٰ کامقدرقراردیاہے ۔