رمضان کا مہینہ اپنے ہمراہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت سی رحمتوں کو لے کر آتا ہے۔ مسلمانانِ عالم اس مہینے میں اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی بندگی کے لیے وقف کیے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ہر باشعور مسلمان دن کے وقت اللہ تبارک وتعالیٰ کے احکامات کی تابعداری کرتے ہوئے بھوک ‘پیاس اور جائز خواہشات کو دبانا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے ‘اس لیے کہ اس کو اس بات کا علم ہوتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے چند گھنٹوں کے لیے بھوک‘ پیاس اور جائزخواہشات کو روکنے کاحکم دے رکھا ہے۔ افطاری کے وقت جہاں پر انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کے ذریعے اپنی تشنگی کو دور کرتا ہے‘ وہیں اپنے او ر اپنے اہل خانہ کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ ہاتھ پھیلا کر دنیا وآخرت کی بھلائیوں کے حصول کے لیے دعا بھی مانگتا ہے۔ رات کے وقت نماز تراویح کے لیے مساجد بھری ہوئی نظر آتی ہیں اور لوگ بڑے اہتمام سے اس نماز کو ادا کرتے ہیں۔
رمضان المبارک کے ماہ ِ مبارک میں لوگ پانچوںنمازوں میں بھی عام دنوں کے مقابلے میں مساجد میں زیادہ تعداد میں نظر آتے ہیں اور ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ پانچوں نمازوں کوباجماعت ‘بروقت اوراحسن طریقے سے ادا کیا جا سکے‘ اسی طرح رمضان المبارک کے ماہِ مبارک میں لوگ زکوٰۃ اور صدقات کی ادائیگی کا بھی خصوصیت سے اہتمام کرتے ہیں۔ قمری سال مکمل ہونے پر زکوٰۃ کو ادا کرنا ہر صاحب ِنصاب مسلمان پر فرض ہے۔ بالعموم مسلمان رمضان المبارک کے مہینے کو اس کار خیر کے لیے منتخب کرتے ہیں اور اپنے گردونواح میں رہنے والے مفلوک الحال اور محروم مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے مال میں سے خرچ کرنا اپنے لیے سعادت سمجھتے ہیں۔
بہت سے مالدار لوگ اس مہینے میں عمرے کی ادائیگی کے لیے بھی جاتے ہیں۔ رمضان المبارک کے مہینے میں عمرے کی ادائیگی کے حوالے سے صحیح حدیث موجود ہیں کہ ایسے شخص کو حج کا ثواب اور ایک روایت کے مطابق ‘اس کو نبی کریم ﷺ کی معیت میں حج اد اکرنے کا ثواب حاصل ہو گا۔ اسی مہینے کے آخری عشرے کی ایک طاق رات میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کو لوح ِ محفوظ سے آسمان دنیا پر نازل فرمایا اور بعد ازاںقرآن مجید 23 برس تک رسول کریم ﷺ کے قلب اطہر پر نازل ہوتا رہا۔ نزول قرآن مجید تاریخ انسانیت کا سب سے بڑا واقعہ ہے۔ اس کتاب کے نزول کے نتیجے میں ایک ایسی اُمت منظر عام پر آئی ‘جس نے دنیا کی بڑی بڑی سلطنتوں کے غر ور کو خاک میں ملا کررکھ دیااور اللہ تبارک وتعالیٰ کی حاکمیت کے جھنڈے کو پوری دنیا میںلہرا دیا۔ کتاب اللہ اور سنت نبوی شریف پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے قرون اولیٰ کے مسلمان دنیا میں بالا دست ہوگئے اور اس کتاب سے دوری اختیار کرنے کی وجہ سے آج اُمت مسلمہ پستی اورزوال کی گہرائیوں میں گری ہوئی نظر آتے ہیں۔ جس رات میں قرآن مجید آسمان دنیا پر نازل ہوا اس کو لیلۃ القدر ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ لیلۃ القدر کا قیام اور اس میںکی جانے والی عبادات کا اجر وثواب ایک ہزار مہینے میں کی جانے والی عبادت سے بھی زیادہ ہے۔ اس رات کو پا لینے کی خواہش ہر مومن ومسلمان کے دل میں ہوتی ہے؛ چنانچہ مسلمانوں کی کثیر تعدادآخری عشرے کی طاق راتوں کا قیام اور ان میں عبادت کر کے لیلۃ القدر کو پانے کی جستجو کرتی ہے۔ اس ماہِ مبارک میں مسلمانوں کی کثیر تلاوت قرآن مجید اور ذکر الٰہی میں بھی مشغول نظر آتی ہے۔ رمضان المبارک کے مہینے کے اختتام پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے مسلمانوں کو عید الفطر جیسے عظیم تہوار سے نوازا ہے۔ اس تہوار کو مسلمانوں کے لیے خوشی اور مسرت کا بہت بڑا موقع قرار دیا گیا ہے۔ اس دن للہ تبارک وتعالیٰ مسلمانوں کو روزوں کے شکرانے کے طور پر عید کی عظیم ساعتیںاور گھڑیاں عطا فرماتے ہیں۔
قرآن مجید کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان المبارک کے مہینے کے روزے رکھنے کا مقصداہل ایمان میں تقویٰ کو پیدا کرنا تھا۔ تقویٰ کا مفہوم اور معنی یہ ہے کہ انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی خشیت کی وجہ سے اپنے آپ کو گناہوں سے بچا لے‘ لیکن دیکھنے میںآیا ہے کہ عید کے موقع پر ایک بہتر اور مثبت تبدیلی والی زندگی کا آغاز کرنے کی بجائے مسلمان عام طور پر اس قسم کے طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ گویا رمضان المبارک کے ختم ہونے کے ساتھ ہی ان کی ذمہ داریاں بھی ختم ہو چکی ہیں؛ حالانکہ عبادت ‘ للہیت اور قرب الٰہی کی جستجو ایک مسلسل عمل کا نام ہے۔ حج اور عمرے کی سعادت سے بہرہ ور ہونے والے یا روزے رکھنے والے لوگوں کو اس بات کو ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ ان عبادات کا مقصد وقتی طور پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی کو بجالانا نہیں‘ بلکہ اپنی زندگیوں میں ایک مستقل اور مثبت تبدیلی کو لے کر آنا ہے۔اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ ذاریات کی آیت نمبر56 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور میں نے نہیں پیدا کیا جنوں اور انسانوں کو‘ مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘ہمیں اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ رمضان المبارک کے بعد بھی نیکیوں کے امکانات بدستورموجود رہتے ہیں؛ اگر ہم غور کریں تو فرضی روزوں کے اختتام کے باوجود ہر ہفتے میں پیراور جمعرات کا روزہ رکھنا اور ہر مہینے میں چاند کی 13 14 اور 15 تاریخ کا روزہ رکھنا‘ اسی طرح شوال کے چھ روزوں کااہتمام کرنا یا یوم عاشور اور یوم عرفہ کے روزے رکھنا درحقیقت اسی عزم کا اظہار ہیں کہ رمضان المبارک کے ماہِ مبارک کے علاوہ بھی اپنے آپ کو نفسانی خواہشات سے بچانے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا کے لیے روزوں کا اہتمام کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح غیر رمضان میں تہجد کا اہتمام کرنے کے امکانات بھی روشن رہتے ہیں۔
ذکر الٰہی اور تلاوت قرآن کا اہتمام اور التزام کرنا ہر مسلمان کے لیے رمضان المبار ک کے بعد بھی ممکن رہتا ہے‘ اسی طرح غریبوں‘ بیواؤں ‘ یتامٰی اور مساکین کی ضرویات کو پورا کرنے کی کوشش کرنا‘ جس طرح رمضان المبارک میںباعث برکت اور کار ِ خیر ہے‘ اسی طرح رمضان المبارک کے بعد بھی اس عمل کو جاری وساری رکھنا مسلمانوں کے لیے انتہائی مفید ہے۔ رمضان المبارک کے بعد بھی عمرے کی ادائیگی اورحجِ بیت اللہ شریف کے امکانات باقی رہتے ہیں؛ چنانچہ مسلمانوں کو غیر رمضان میںبھی حرمین شریفین کی زیارت کے لیے کوشاں رہنا چاہیے اور زندگی کو کچھ اس انداز سے گزارنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ زندگی میں نیکیاں مسلسل جاری رہیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ آل عمران کی آیت نمبر 102 میں اس بات کو ارشاد فرمایا کہ ''اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے او ر تمہیں ہرگز موت نہ آئے‘ مگر اس حال میںکہ تم مسلمان ہو ۔‘‘ انسان اپنی موت کے وقت سے غافل ہے‘ پیغام اجل کسی بھی وقت آ سکتا ہے‘ لیکن جو انسان مسلسل عبادات میں مشغول رہتا ہے‘ اس کے بارے میں اس بات کی قوی امید کی جا سکتی ہے کہ اس کو موت اس حالت میں آئے کہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا تابعدارہو۔
صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریمﷺ کے ساتھ میدان عرفات میں کھڑا ہوا تھا ‘ اچانک وہ اپنی سواری سے گر پڑا اونٹی نے اس کو گرتے ہی مار ڈالا اور اس کا انتقال ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور دو کپڑوں کا کفن دو اور خوشبو نہ لگاؤ ‘ نہ سر ڈھانپو‘ کیونکہ قیامت میں یہ تلبیہ کہتے ہوئے اُٹھایا جائے گا۔ احادیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کے اعمال کا دارومدار ان کی نیتوں کے ساتھ ساتھ ان کے خاتموں پر بھی ہے ؛ چنانچہ حسن ِخاتمہ کی خواہش ہر مسلمان کے دل میں موجود ہوتی ہے۔ اس خواہش کی تکمیل کے لیے عبادات میں تسلسل اور استقامت انتہائی ضروری ہے۔
چنانچہ عید کے بعد اپنے آپ کو اوامر الٰہی کی پابندی سے آزاد سمجھ کر اپنی من مانیاں کرنے کی بجائے انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی تابعداری کو اختیار کرتے ہوئے بہترین اعمال میں مصروف رہناچاہیے ‘تاکہ انسان کو جب بھی موت آئے ‘وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا تابعدار ہو۔