دنیا میں ہر شخص کامیابی کا طلب گارہے۔ کامیاب زندگی گزارنے کے لیے انسان زندگی میں مختلف انداز میں تگ ودو کرتا رہتا ہے۔ اپنے آپ کو کامیابی سے ہمکنار کرنے اور اپنی اولادوں کو کامیاب بنانے کے لیے والدین دن رات کوشاں رہتے ہیں۔ دنیا میں تعلیم ‘اچھے روزگار یا اچھے منصب کے حصول کا مقصد کامیاب زندگی گزارنا ہوتا ہے۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد مالی طور پر مستحکم افراد‘ بڑے جاگیرداروں‘ حکمرانوں اور معروف لوگوں کو کامیاب گردانتی ہے اور اس حوالے سے نمایاں نظر آنے والے ہر شخص کو بالعموم کامیاب تصور کیاجاتا ہے۔ کتاب وسنت کا مطالعہ کامیابی کی حقیقت کو بہت ہی احسن انداز میں واضح کرتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں بہت سے ایسے ناکام لوگوں کا ذکر کیا جو مادی اعتبار سے نمایاں حیثیت کے حامل تھے‘ لیکن جب انہوں نے اپنے مقصد تخلیق کو فراموش کر دیا تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے انہیں ناکام اور نامراد لوگوں میں شامل کر دیا۔ فرعون کا ذکرقرآن مجید کے مختلف مقامات پر بڑی تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ وہ انتہائی بااثر حکمران تھا‘ لیکن حکومت کے نشے میں دھت ہو کر اپنی حیثیت کو فراموش کر چکا تھا اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی بجائے اپنے آپ کو رب قرار دینا شروع ہو چکا تھا۔ بنی اسرائیل کے بچوں کو ذبح کر دیا کرتا اور اُن کی عورتوں کوچھوڑ دیتا تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس کی طرف مبعوث فرمایا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اس کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف ملنے والی بہت سی نشانیاں دکھلائیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے آنے والی گرفت اور پکڑ کو دیکھ کر وقتی طور پر و ہ اپنی اصلاح پر بھی آمادہ ہو جاتا‘ لیکن عذاب کو ٹلتا دیکھ کر دوبارہ سرکشی پر اتر آتا؛ حتیٰ کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اسے غرق آب کر دیا اور آخری وقت میں اس کے اسلام اور ایمان کے دعویٰ کو بھی قبول نہ کیاگیا۔ اس کی تباہی اور بربادی کا تذکرہ قرآن مجید کے مختلف مقامات پر کیا گیا ہے‘ جن میں سے سورہ یونس کی آیت نمبر90‘91اور 92میں اُس کے انجام کا ذکر کچھ طرح کیا گیا ہے : ''اور ہم نے پار کر دیا بنی اسرائیل کو سمندر سے تو پیچھا کیا ان کا فرعون اور اس کے لشکر نے سرکشی اور زیادتی کرتے ہوئے‘ یہاں تک کہ جب پالیا اس کو غرق (کے عذاب) نے (تو) کہا(فرعون نے) میں ایمان لایا بے شک یہ (حقیقت ہے کہ) نہیں کوئی معبود‘مگر وہ جو (کہ) ایمان لائے اس پر بنی اسرائیل اور میں فرماں برداروں میں سے ہوں۔ کیا اب ؟ حالانکہ یقینا تو نے نافرمانی کی تھی (اس سے) پہلے اور تھا تو فساد کرنے والوں میں سے‘ پس آج ہم (تجھے تباہ کر کے) محفوظ کر لیں گے تجھے‘ تیرے بدن سمیت ‘تاکہ تو ہو جائے ‘ان کے لیے‘ جو تیرے پیچھے (آنے والے) ہیں نشانی‘ اور بے شک بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے یقینا غافل ہیں۔‘‘
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں قارون کا بھی ذکر کیا‘ جس کو اتنا بڑا خزانہ دیا گیا تھا کہ خزانہ تو خزانہ رہا‘ اس کی چابیوں کو اُٹھانے کے لیے ایک بڑی اور طاقت ور جماعت کی ضرورت تھی ‘لیکن اس نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والے اس مال کو اپنے علم وذہانت کے ساتھ منسوب کیا اور قوم کے سمجھدار لوگوں کی نصیحت کے باوجود لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے پر آمادہ وتیار نہ ہوا‘ تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کو اس کے گھر سمیت زمین میں دھنسا دیا اور اس کو آنے والے لوگوں کے لیے نشان عبرت بنا دیا۔ سورہ قصص کی آیت نمبر 76سے 82میں اللہ تبارک وتعالیٰ قارون کی ہلاکت کے واقعہ کو کچھ یوں بیان فرماتے ہیں: ''بے شک قارون موسیٰ علیہ السلام کی قوم سے تھا۔ پس‘ اُس نے سرکشی کی اُن پر اور ہم نے دیا تھا‘ اُسے خزانوں سے (اس قدر) کہ بے شک اُس کی چابیاں یقینا (اُٹھانی) مشکل ہوتی تھیں‘ ایک طاقت والی جماعت کو جب کہا: اُس سے اُس کی قوم نے نہ اِترا‘بلاشبہ اللہ نہیں پسند کرتا اِترانے والوںکو۔ اور تو تلاش کر اس میں جو دیا ہے ‘تجھے اللہ نے آخرت کا گھر اور نہ بھول تو اپنا حصہ دنیا سے اور احسان کر (لوگوں پر) ‘جس طرح اللہ نے احسان کیا تجھ پر اور نہ تلاش کر زمین میں فساد بے شک اللہ نہیں پسند کرتا فساد کرنے والوں کو۔ اس نے کہا: یقینا صر ف میں دیا گیا ہوں‘ یہ (مال) ایک علم (کی بنیاد) پر (جو) میرے پاس ہے اور کیا نہیں اُس نے جانا کہ بے شک اللہ یقینا ہلاک کر چکا ہے ‘اس سے پہلے کئی اُمتیں ‘جو وہ بہت زیادہ سخت تھے ۔اس سے قوت میں اور بہت زیادہ تھے۔ جماعت میں اور نہیں پوچھے جائیں گے‘ مجرم لوگ اپنے گناہوں کے بارے میں۔ پھر وہ نکلا اپنی قوم کے سامنے اپنی زینت میں کہا :(اُن لوگوں نے) جو چاہتے تھے‘ دنیوی زندگی اے کاش! ہمارے لیے ہوتا (اس کی) مثل جو قارون کو دیا گیا ہے۔ بلاشبہ وہ یقینا بڑے نصیب والا ہے۔ اور کہا: (اُن لوگوں نے) جو علم دیئے گئے تھے‘ افسوس !تم پر اللہ کا ثواب بہت بہتر ہے (اُس شخص) کے لیے جو ایمان لایا اور اس نے نیک عمل کیا اور نہیں دی جاتی یہ چیز‘ مگر صبر کرنیو الوں ہی کو۔ تو ہم نے دھنسا دیا اس کو اور اُس کے گھر کو (خزانوں سمیت) زمین میں پھر نہ تھا‘ اُس کے لیے کوئی گروہ (جو) مدد کرتے اس کی اللہ کے سوا اور نہ تھا‘ وہ (خود) بدلہ لینے والوں میں سے اور ہو گئے (وہ لوگ) جنہوں نے تمنا کی تھی‘ اُس کے مرتبے کی کل کو (اس حال میں کہ) وہ کہہ رہے تھے؛ ہائے افسوس! (ہم نے کیا آرزو کی)‘ اللہ (تو) فراخ کرتا ہے؛ رزق کو‘ جس کے لیے وہ چاہتا ہے‘ اپنے بندوں میں سے اور وہی تنگ کرتا ہے (جس کے لیے چاہتا ہے)‘ اگر (یہ) نہ ہوتا کہ احسان کیا اللہ نے ہم پر ضرور دھنسا دیتا ‘ہم کو (بھی) ہائے افسوس! یہ حقیقت ہے (کہ) کافر فلاح نہیں پاتے۔‘‘
قارون کے ساتھ ساتھ ہامان اور شداد بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی گرفت کی لپیٹ میں آگئے۔ اسی طرح قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ابو لہب کے انجام بد کا بھی ذکر کیا۔ مکہ کا ایک صاحب ِ حیثیت انسان ہونے کے باوجود جب اس نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے اُترنے والی وحی اور رسول کریمﷺ کی طرف سے دی جانے والی دعوت کو قبول نہ کیا تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اُس کو بھی نشانہ عبرت بنا دیا اور اس کی مذمت میں سورہ لہب میں کچھ اس انداز میں ارشاد فرمایا : ''ٹوٹ جائیں دونوں ہاتھ ابو لہب کے اور وہ ہلاک ہو۔ نہ کام آیا اس کے اس کا مال اور (نہ) جو اس نے کمایا۔ عنقریب وہ داخل ہوگا شعلے والی آگ میں اور اس کی بیوی (بھی جو) ایندھن اٹھانے والی ہے۔ اس کے گلے میں مضبوط بٹی ہوئی رسی ہو گی۔ ‘‘
اس کے مد مقابل جب ہم قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں بہت سے کامیاب حکمرانوں کے واقعات بھی نظر آتے ہیں۔ حضرت طالوت ؑاور حضرت ذوالقرنین ؑنے مثالی زندگی گزاری او ر زمین پر عدل اور انصاف کا بول بالا کیا ا ور فسادی عناصر کا قلع قمع کرنے میں مصروف رہے۔ اپنے کارہائے نمایاں کی وجہ سے یہ دونوں حکمران اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل ورحمت سے آنے والے نسلوں کے لیے مثال بن گئے‘ اسی طرح حضرت ابو بکر صدیق‘ حضرت عمر فاروق‘ حضرت عثمان غنی اور حضرت علیٰ المرتضیٰ رضی اللہ عنہم بھی مثالی حکمرانوں میں شامل ہیں۔ حضرت عثمان غنی ؓ اور حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کی زندگی ہمارے تاجروں کے لیے ایک مثال کی حیثیت رکھتی ہے ‘اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں مالی اعتبار سے کمزور اور غریب طبقات سے وابستہ بہت سی ایسی شخصیات نظر آتی ہیں‘ جنہوں نے کامیاب اور مثالی زندگی گزاری؛ چنانچہ لوگوں کی اکثریت کی نظروں میں کامیابی اور ناکامی کا جو معیار ہے‘ وہ درست نہیں۔
حقیقت میں کامیاب انسان وہی ہے‘ جو اپنے مقصد تخلیق کو پہچان لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول ﷺ کی صحیح معنوں میں اطاعت اور تابعداری کرتا ہے اور انسانوں کے ساتھ بھی اس کا معاملہ مثالی ہوتا ہے؛ چنانچہ کسی کی ظاہری کر وفر اور ہیبت وحشمت کو دیکھ اس کو کامیاب سمجھ لینا کوتاہ بینی ہے۔ حقیقی کامیابی اس شخص کو حاصل ہو گی ‘جس نے دین اور دنیا میں توازن رکھا اور دنیا وی زندگی کے رنگ و حسن میں اس طرح غرق نہیں ہو گیا کہ اپنے خالق ومالک اور یوم جزا کو فراموش کر دے؛ چنانچہ جہاں پر ہمیں اپنی دنیا کو سنوارنے کے لیے جستجو کرنی چاہیے ‘وہاں اپنی اخروی زندگی کے حوالے سے بھی بھرپور محنت کرنی چاہیے‘ اسی طریقے سے ہم کامیاب انسان بن سکتے ہیں۔ دنیا اور آخرت کی کامیابیوں کے حصول کے لیے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 201میں مذکور اس دعا کو ہمیں ہمیشہ مد نظر رکھنا چاہیے : ''اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے۔ ‘‘