دین کی دعوت دینا انتہائی اہم عمل ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس امر کی تحسین کرتے ہوئے سورہ حٰم سجدہ کی آیت نمبر33میں ارشاد فرمایا: ''اور کون زیادہ اچھا ہے‘ بات کے لحاظ سے‘ اس سے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے او ر کہے کہ بے شک میں فرمانبردار ہوں۔‘‘داعی کو اللہ تعالیٰ کے دین کی طرف دعوت دیتے ہوئے اس بات کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ اس کا انداز حکیمانہ ہو اور وہ محبت کے ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی دعوت دے‘ تاکہ اُس کی پر حکمت اور محبت بھری بات کو سن کر لوگ اللہ کے دین کی طرف مائل ہو جائیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نحل کی آیت نمبر 125 میں اس حوالے سے ارشاد فرماتے ہیں: ''(اے نبی !)بلائیے اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت کے ساتھ اور اچھی نصیحت (کے ساتھ) اور بحث کیجئے‘ ان سے اس (طریقہ) سے جو (کہ) وہ سب سے اچھا ہو‘‘ اسی طرح داعی کو تسلسل کے ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی طرف دعوت دیتے رہنا چاہیے اور اس حوالے سے عوام کے ردّ عمل سے بے نیاز ہو کر اپنے مشن پرکاربند رہنا چاہیے۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں مختلف انبیاء علیہم السلام کی دعوتی جدوجہد کو بہت ہی خوبصورت انداز میں بیان فرمایا۔ جس سے یہ اندازہ کرنا کچھ مشکل نہیں کہ انبیاء علیہم السلام نے بڑے تسلسل اور استقامت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے دین کی دعوت دی اور بہت ہی حکیمانہ اور ناصحانہ اسلوب کو اختیار کیا۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے متعدد مقامات پر حضرت نوح علیہ السلام کی دعوتی جدوجہد کا ذکر کیا۔ جن میں سے سورہ نوح حضرت نوح علیہ السلام کی بات کو کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے: ''تو میں نے کہا بخشش مانگو اپنے رب سے بے شک وہ بہت بخشنے والا ہے۔ وہ بھیجے گا بارش تم پر موسلا دھار۔ اور وہ مدد کر ے گا تمہاری مالوں اور بیٹوں کے ساتھ ۔ اور وہ (پیدا) کر دے گا تمہارے لیے باغات اور (جاری) کر دے گا‘ تمہارے لیے نہریں۔ کیا ہے تم کو (کہ) نہیں تم اعتقاد رکھتے اللہ کے لیے عظمت کا؛ حالانکہ یقینا اس نے پیدا کیا ہے‘ تمہیں (مختلف) حالتوں (مراحل) میں۔ کیا نہیں تم نے دیکھا کیسے پیدا کیے‘ اللہ نے سات آسمان اوپر تلے اور بنایا چاند کو ان میں (زمین کا) نور اور بنایا سورج کو چراغ اور اللہ ہی نے اگایا (پیدا کیا) تمہیں زمین سے اُگانا (خاص انداز سے) پھر وہ لوٹائے گا تمہیں ‘اسی میں اور (پھر) وہ نکالے گا تمہیں (دوبارہ) نکالنا۔ اور اللہ نے بنایا تمہارے لیے زمین کو بچھونا‘ تاکہ تم چلو پھرو اس کے کھلے راستوں پر۔‘‘سورہ نوح میں بیان کردہ حقائق پر غور وفکر کرکے اس بات کو جانچنا کچھ مشکل نہیں رہتا کہ حضرت نوح ؑ کس قدر حکیمانہ انداز میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی نشانیوں سے اپنی قوم کے لوگوں کو آگاہ کرتے تھے‘ تاکہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت کی طرف مائل ہو جائیں۔
حضرت ابراہیم ؑنے بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی دعوت دی ۔ وقت کا حاکم نمرود اپنے آپ کو خدا سمجھنے کی خبط میں مبتلا ہو چکا تھا۔ حضرت ابراہیم ؑنے انتہائی حکیمانہ اور واشگاف انداز میں اس کے سامنے اللہ تبارک وتعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کو واضح فرمادیا ۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر258 میں اللہ تبارک وتعالیٰ اس واقعے کو کچھ یوں بیان فرماتے ہیں: ''کیا آپ نے دیکھا نہیں اس کی طرف جس نے جھگڑا کیا ابراہیم ؑسے‘ اس کے رب کے بارے میں کہ اللہ نے دے رکھی تھی اسے حکومت۔ جب کہا ‘ابراہیم ؑنے؛ میرا رب وہ ہے‘ جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے ۔وہ کہنے لگا؛ میں (بھی) زندہ کر سکتا ہوں اور مار سکتا ہوں۔ ابراہیم ؑنے کہا؛ پس بے شک اللہ لاتا ہے سورج کو مشرق سے‘ تو تو لے آ اس کو مغرب سے تو ہکا بکا رہ گیا‘ وہ جس نے کفر کیا اور اللہ ہدایت نہیں دیتا ظالم لوگوں کو ۔‘‘
قوم مدین کے لوگ کم ماپتے اور کم تولاکرتے تھے۔ حضرت شعیب ؑ ؑان کو نہایت احسن انداز میں کاروباری بے اعتدالیوں کو چھوڑنے کی دعوت دیتے رہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ ہود کی آیت نمبر85سے 88 تک میں حضرت شعیب علیہ السلام کی دعوت کو نہایت خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے‘ آپ نے اپنی قوم کے لوگوں کو مخاطب ہو کر کہا: ''اور اے میری قوم! پورا کرو ماپ اور تول کو انصاف کے ساتھ اور نہ کم دو لوگوں کو ان کی چیزیں اور مت پھرو زمین میں فسادی بن کر۔ اللہ کا باقی بچا ہوا (جائز منافع) بہتر ہے تمہارے لیے ‘اگر ہو تم ایمان لانے والے اور نہیں ہوں‘ میںتم پر ہرگز کوئی نگہبان۔ انہوں نے کہا؛ اے شعیب! کیا تیری نماز تجھے حکم دیتی ہے کہ ہم چھوڑ دیں (وہ معبود) جن کی عبادت کرتے تھے ہمارے آباؤ اجداد یا یہ کہ ہم کریں اپنے مالوں میں جو ہم چاہیں بے شک تو یقینا بہت بردبار بڑا سمجھ دار ہے۔ اس نے کہا؛ اے میری قوم! کیا تم نے دیکھا (غور کیا) اگر ہوں میں واضح دلیل پر اپنے رب کی طرف سے اور اس نے مجھے رزق دیا ہو اپنی طرف سے اچھا رزق (اسے چھوڑ کر میں ناجائز کیوں کھاؤ) اور نہیں میں چاہتا کہ میں تمہارے خلاف (ارتکاب) کروں اس کی طرف جو میں منع کرتا ہوں تمہیں ‘اس سے نہیں میں چاہتا ‘مگر (تمہاری)اصلاح جتنی میں کر سکوں اور نہیں ہے‘ میری توفیق مگر اللہ (اللہ کی طرف) سے‘ اسی پر میں نے بھروسہ کیا اور اسی کی طرف میں رجوع کرتاہوں۔‘‘
حضرت موسیٰ ؑکو اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرعون‘ قارون‘ہامان اور شداد کے مقابلے میں مبعوث فرمایا۔ حضرت موسیٰ ؑنے فرعون کو نہایت حکیمانہ انداز میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی دعوت دی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے مختلف مقامات پر حضرت موسیٰ ؑکے دعوتی انداز کو واضح فرمایا ہے۔ سورہ طہٰ کی آیت نمبر47 سے 54تک میں اللہ تبارک وتعالیٰ اس حوالے سے ارشاد فرماتے ہیں: ''تو تم جاؤ اس کے پاس پس کہو بے شک ہم (موسیٰ ؑ اور ہارونؑ) دونوں رسول ہیں تیرے رب کے۔ پس‘ بھیج دے ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو اور نہ عذاب دے انہیں‘ یقینا ہم لائے ہیں تیرے پاس ایک نشانی تیرے رب کی طرف سے اور سلامتی ہو اس پر جو پیروی کرے ہدایت کی۔ بے شک یقینا وحی کی گئی ہے ہماری طرف کہ بے شک عذاب اس پر ہے ‘جس نے جھٹلایا اور منہ پھیرا۔ (فرعون نے) کہا ؛پس کون ہے تم دونوں کا رب اے موسیٰ۔ (موسیٰ نے) کہا؛ ہمارا رب (وہ ہے) جس نے دی ہر چیز کو اس کی شکل وصورت پھر راستہ دکھایا۔ (فرعون نے) کہا؛ تو کیا حال ہے پہلی امتوں کا؟ (موسیٰ نے) کہا ؛ان کا علم میرے رب کے پاس ہے ایک کتاب میں‘ میرا رب نہ بھٹکتا ہے اور نہ بھولتا ہے‘ جس نے بنایا تمہارے لیے زمین کو بچھونا اور جاری کیے تمہارے لیے اس میں راستے اور اتارا آسمان سے پانی‘ پھر نکالیں ہم نے اس سے کئی قسمیں مختلف نباتا ت۔ تم (خود) کھاؤ اور چراؤ اپنے چوپاؤں کو‘ بیشک اس میں یقینا نشانیاں ہیں عقل والوں کے لیے ۔‘‘
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت سلیمان ؑکا بھی ذکر کیا ہے۔ آپ کے عہد میں ملکہ سبا اور اس کی قوم کے لوگ سورج کی پوجا کیا کرتے تھے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ سباپر عقلی دلائل کے ذریعے اس بات کو واضح کیا کہ ملکہ سبا اللہ کے نور اور سورج کی روشنی میںامتیاز نہیں کر سکی۔آپ کی دعوت اور حکیمانہ اسلوب کی وجہ سے ملکہ سبا حلقہ بگوش اسلام ہو گئی۔ سورہ نمل کی آیت نمبر41 سے 44 تک میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار اورمحل میں ملکہ سبا اور حضرت سلیمان علیہ السلام کا مکالمہ کچھ اس انداز میں بیان کیا گیاہے:
''کہا (سلیمان ؑنے) صورت بدل دو (یعنی بے پہچان کردو) اس کے لیے اس کا تخت ہم دیکھیں کیا وہ راہ پاتی ہے (یعنی پہچانتی ہے) یا وہ ہے (ان لوگوں) میں سے جو نہیں راہ پاتے۔ پھر جب وہ آئی (اسے) کہا گیا کیا اس طرح ہے تیرا تخت ؟اس نے کہا گویا یہ وہی ہے۔ اور ہم دیئے گئے تھے علم (سلیمانؑ کی عظمت شان کا) اس سے پہلے ہی اور ہم ہیں فرمانبردار۔ اور روکا اسے (اللہ کی عبادت سے اس چیز نے) جس کی تھی وہ عبادت کرتی اللہ کے سوا‘ بے شک وہ تھی کافر لوگوں میں سے۔ کہا گیا اس سے تو داخل ہو(اس) محل میں پھر جب اس نے دیکھا اسے (تو) سمجھا اسے گہرا پانی اور کپڑا اُٹھایا اپنی پنڈلیوں سے۔ کہا؛ (سلیمانؑ نے)بے شک وہ ایک محل ہے‘ جڑا ہوا شیشوں سے۔ وہ کہنے لگی؛ اے میرے رب بے شک میں نے ظلم کیا اپنی جان پر اور میں مطیع ہو گئی سلیمانؑ کے ساتھ اللہ کے لیے (جو) سب جہانوں کا رب ہے۔‘‘
یہ تمام خوبصورت واقعات اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام نے اپنی قوم کے لوگوں کو نہایت حکیمانہ اور مدلل انداز میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی دعوت دی اور ان کی توجہ ان نکات کی طرف مبذول کروائی ‘جن پر غوروفکر کرکے وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات کی معرفت حاصل کر سکتے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی دعوت دینے والے علماء اور مبلغین کو قرآن مجید کے اسلوب دعوت کو مدنظر رکھتے ہوئے لوگوں کو پر حکمت اور موثر انداز میں اللہ تعالیٰ کے دین کی دعوت دینی چاہیے‘ تاکہ لوگ ان پر حکمت دلائل پر غوروفکر کرکے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کر سکیں۔ دین کی دعوت کا مقصد اپنی ذات کو اجاگرکرنا یا اپنے علم کا لوہا منوانے کی بجائے لوگوں کی اصلاح اورا ن کی رہنمائی ہونا چاہیے۔ اسی راستے پر چل کر ہم اللہ تبارک وتعالیٰ کی خوشنودی کو حاصل کر سکتے اور لوگوں کی اصلاح کے عمل کو بھی مکمل کر سکتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں قرآن مجید اور انبیاء علیہم السلام کے اسلوب دعوت سے رہنمائی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)