ہمارے معاشرے میں شادی بیاہ کے اسلامی تصورات کے حوالے سے مختلف طرح کی باتیں سننے کو ملتی رہتی ہیں اور کئی اس حوالے سے ہونے والی قانون سازی اور عدالتی فیصلوں کے بارے میں بھی مختلف طرح کے تبصرے سننے کو ملتے ہیں۔کچھ عرصہ قبل کم عمری کی شادی کے حوالے سے ہونے والی قانون سازی پر ملک بھر میں گرما گرم بحوث کا آغاز ہوا‘ اسی طرح حالیہ ایام میں دوسری شادی کو مصالحتی کونسل کی اجازت کے ساتھ مشروط کرنے کے عدالتی فیصلے کے بارے میں بھی مختلف طرح کی آراء سامنے آتی رہیں۔ عام طور پر اس طرح کے فیصلوں اور قانون سازی کا مقصد یہ بیان کیاجا تا ہے کہ اس طریقے سے عورت کی عزت اور وقا ر کو بحال رکھا جا سکتا ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ عورت کی عزت اور وقار کی بحالی کے بارے میں دنیا بھر کے معاشروں میں مختلف قسم کے تصورات پائے جاتے ہیں‘ تاہم اس ضمن میں قرآن وسنت کا پیش کردہ تصور ہر اعتبار سے مثالی ہے۔ عورت کے وقار اور عزت کے تحفظ کی اہمیت کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ اس بات کو ملحوظ خاطر رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ اسلام بنیاد ی طور پر عفت اور عصمت کا مذہب ہے اور عورت کی عزت اور وقار کی بحالی کے ساتھ ساتھ معاشرے سے فحاشی‘ عریانی اور بے حیائی کا خاتمہ اسلام کے اہم اہداف میں سے ہے ۔ جب تک ان دونوں باتوں پر بیک وقت توجہ نہ دی جائے‘ اُس وقت تک اس حوالے سے درست فکر سامنے نہیں آ سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ اس حوالے سے بات کرنے والے دانشور ہمیشہ افراط وتفریط کا شکار نظر آتے ہیں۔
کم عمری کی شادی کی مخالفت کرنے والے لوگ درحقیقت یہ بات سمجھتے ہیں کہ بلوغت کے باوجود عمر کی ایک خاص حد تک پہنچنے سے قبل؛ اگر لڑکی کی شادی کر دی جائے ‘تو وہ شادی کے بعد کی ذمہ داریاں نبھانے کے قابل نہیں ہوتی‘جبکہ اس کے مدمقابل معاشرے میںپائی جانے والی بے راہ روی اور بے حیائی تصویر کا ایک دوسرا رُخ پیش کرتی ہے؛اگرکم عمر لڑکے لڑکیوں میں پائی جانے والی جذباتی‘ نفسیاتی اور صنفی کیفیات پر غور کیا جائے‘ تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ شادی کو خواہ مخواہ موخر کرتے رہنا کسی بھی طور لڑکے اور لڑکی کے کردار کے لیے موزوں نہیں‘ اسی طرح دوسری شادی کے حوالے سے اسلام کی تعلیمات اور تصورات کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے ۔اسلام میں ایک صحت مند اور صاحب استطاعت انسان کو جو دوسری شادی کی اجازت دی گئی ہے‘ اس کا بہت بڑا مقصد معاشرے سے صنفی بدامنی کا خاتمہ کرنا ہے؛ اگر کوئی انسان اپنی نفسانی اور جبلی خواہشات پر قابو پانا چاہتا ہے ‘ تواس کو ایک سے زائد شادی کی اجازت دی گئی ہے اور یہ اجازت انصاف کے ساتھ مشروط ہے۔ نا انصافی کے اندیشے کی صورت میں مرد کو ایک ہی شادی کرنے کی تلقین کی گئی ہے‘ تاہم ہمارے پیش ِنظر اس بات کو رہنا چاہیے کہ اسلامی تعلیمات کا بنیادی مقصد معاشرے سے بے حیائی کا خاتمہ کرنا اورغیر مردوں اور عورتوں کی آپس میں شناسائی اور ناجائز تعلقات کی حوصلہ شکنی کرنا۔ درحقیقت نکاح سے متعلق امور کا تعلق ہر انسا ن کی انفرادی اور نجی زندگی کے ساتھ ہے اور اس حوالے سے‘ اگر غیر ضروری پابندیاں عائد کی جائیں اور نجی زندگی میں سرکا ری سطح پر مداخلت کی جائے‘ تو اس کے نتیجے میں نفسانی خواہشات کے غلبے کی وجہ سے بے راہ روی کے امکانات بہت زیادہ بڑھ جائیں گے۔ ہمیں اپنے معاشرے میں عورت کی عزت ووقار کی بحالی کے حوالے سے ان امور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے‘ جو بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہیں۔ ان میں سرفہرست لڑکی کی مرضی کے بغیر اس کی زبردستی شادی کرنا ہے‘ جس کی اسلام میں کوئی گنجائش موجود نہیں۔ یہ بات درست ہے کہ لڑکی کی شادی کے لیے ولی کی رضا مندی بھی انتہائی ضروری ہے‘لیکن اس حوالے سے لڑکی کی رائے کی بھی بہت زیادہ اہمیت ہے اور اس کی مرضی کے بغیر شادی کرنے کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ اس حوالے سے صحیح بخاری کی ایک اہم حدیث درج ذیل ہے :
حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ایک خاتون کو اس کا خطرہ ہوا کہ ان کا ولی ( جن کی وہ زیر پرورش تھیں ) ان کا نکاح کر دے گا؛ حالانکہ وہ اس نکاح کو ناپسند کرتی تھیں‘ چنانچہ انہوں نے قبیلہ انصار کے دو شیوخ عبدالرحمن اور مجمع کو جو جاریہ کے بیٹے تھے کہلا بھیجا۔ انہوں نے تسلی دی کہ کوئی خوف نہ کریں‘ کیونکہ خنساء بنت خذام رضی اللہ عنہا کا نکاح ان کے والد نے ان کی ناپسندیدگی کے باوجود کر دیا تھا‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکاح کو رد کر دیا تھا۔
اسی طرح ہمارے معاشرے میں یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کئی مرتبہ قبائلی اور بڑے جاگیر داروں کے زیر اثر بعض علاقوں میں عورت کو وراثت میں حق نہ دینے کیلئے اس کی شادی قرآن سے کر دی جاتی ہے اور اُس کی جبلی خواہشات کو نظر اندا ز کرکے اسے تجرد اور تنہائی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے‘ اسی طرح بعض پسماندہ علاقوں میں کئی مرتبہ عورت کو بھائی‘ باپ یا کسی قریبی رشتہ دار کے کسی غیر عورت کے ساتھ ناجائز تعلق کے سبب جبراً اس عورت کے کسی عزیز کے ساتھ نکاح کر نے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ اس قسم کے تمام برے اعمال اور روایات کو روکنا عورت کے شرف کی بحالی کے لیے انتہائی ضروری ہے‘ اسی طرح عورت کی عزت اور آبرو کے تحفظ اور اُس کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے جہیز جیسی قبیح رسموں کی حوصلہ شکنی کی انتہائی ضرورت ہے۔ یہ والدین کا حق ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو شادی کے موقع پر تحفہ تحائف دے سکتے ہیں‘ لیکن زبردستی کیے جانے والے مطالبے پر دی جانے والی رقم اور تحائف کسی بھی طور پر جائز نہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نساء کی آیت نمبر29 میں فرماتے ہیں : ''اے ایمان والو! تم آپس میں اپنے مال باطل طریقے سے مت کھاؤ۔‘‘ ایسا مال‘ جسے دوسرے سے زبردستی حاصل کیا گیا ہو‘ درحقیقت باطل طریقے سے کھایا جانے والا مال ہی ہے‘ اسی طرح گدا گری اور بھیک مانگنے سے متعلق احادیث کا اطلاق ایسے مال پر بھی ہو سکتا ہے۔
معاشرے میں غیر قانونی طورپر جسم فروشی کا دھندہ بھی اپنے پورے عروج پر نظر آتا ہے اور ملک کے کئی حصوں میں باضابطہ طور پر بازارگناہ کام کر رہے ہیں۔ ان بازاروں کا خاتمہ بھی انتہائی ضروری ہے‘ تاکہ معاشرے میں بے راہ روی ‘ فحاشی اور عریانی کا خاتمہ کیا جا سکے۔ ان امور کے ساتھ ساتھ نجی سطح پر بھی ہمارے معاشرتی رویوں میںتبدیلی کی ضرورت ہے۔ ہمارے معاشرے میں بالعموم شادی بیاہ کے حوالے سے غیر ضروری تاخیر کے اسباب میں دو اہم اسباب درج ذیل ہیں:
1۔ ہم پلہ رشتوں کی تلاش : ہمارے معاشرے میں نکاح میں تاخیر کی ایک وجہ ہم پلہ رشتے کی تلاش میں کیا جانے والا تکلف بھی ہے۔ ایک حدیث پاک میں اس بات کا ذکر ہے ''اگر تمہارے پاس کوئی ایسا شخص آئے ‘جس کا دین اور اخلاق تمہیں پسند ہو تو اس سے (اپنی بہن اور بیٹی کو )بیاہ دو؛ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو زمین پر فتنہ اور بہت بڑا فساد ظاہر ہو جائے گا۔‘‘ ابتدائی عمروں میں جب ہمارے معاشرے میں رشتہ آتا ہے‘ تو اس میں چھوٹے چھوٹے عیب تلاش کیے جاتے ہیں اور عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت سی اہم اور بنیادی باتوں پر بھی سمجھوتہ کر لیا جاتا ہے۔ ابتدائی طور پر ہی‘ اگر نکاح میں دین اور اخلاق کو ترجیح دے دی جائے‘ تو ہمارا معاشرہ بہت سی قباحتوں سے بچ سکتا ہے۔
2۔داماد او ر بہو کی کردار و سیرت کو نظر انداز کرنا:بہو اور داماد کے چناؤ کے حوالے سے بھی اسلام کی تعلیمات بہت واضح ہیں۔ احادیث کے مطالعے اور سماج کا مشاہدہ کرنے کے بعد یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نکاح‘ مال‘ حسب ونسب‘ حسن وجمال اور دین کی بنیاد پر کیا جاتا ہے؛ اگر دین دار لڑکی صاحب جمال بھی ہو تو یہ ایک اضافی فائدے والی بات ہے اور اس کو اہمیت دینے میں کوئی حرج نہیں‘ لیکن اگر صورت اور سیرت کا ٹکراؤ ہو تو انسان کو کبھی بھی صورت کو سیرت پر ترجیح نہیں دینی چاہیے۔ صورت کی چمک دمک عارضی اور سیرت کی چمک دمک دائمی ہوتی ہے؛ چنانچہ جو رشتے سیرت وکردار کی وجہ سے کیے جاتے ہیں‘ ان میں بہت زیادہ پختگی ہوتی ہے اور جو رشتے فقط مال اور ظاہری چمک دمک کی وجہ سے کیے جاتے ہیں‘ ان کے نتائج اکثر وبیشتر مثبت نہیں نکلتے۔ حضرت ابراہیم ؑکی سیرت سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آپ نے حضرت اسماعیل ؑکی عدم موجودگی میں جب ان کی بیوی سے شکوہ سنا تو آپ نے ان کو اپنے گھر کی دہلیز بدلنے کا‘ یعنی اپنی بیوی کو طلاق دینے کا حکم دیا۔ اس کے بعد حضرت اسماعیل ؑنے ایک صابر اور شاکر عورت سے نکاح کیا تو حضرت ابراہیم ؑ نے حضرت اسماعیل ؑ کو گھر کی دہلیز کو مضبوطی کے ساتھ قائم رکھنے کا حکم دیا۔
مندرجہ بالا امور پر اچھے طریقے سے توجہ دی جائے تو ہمارے معاشرے میں عورت کی نا صرف عزت ووقار بحال ہو سکتا ہے‘ بلکہ جنسی بے راہ روی کا خاتمہ بھی نہایت احسن انداز میں ہو سکتا ہے۔ قانون ساز اداروں اور عدالتوں کو شادی بیاہ سے متعلق معاملات میں ان امور کو ترجیح اور اہمیت دینی چاہیے‘ جو بیک وقت عورت کے وقار کی بحالی اور جنسی بے راہ روی کے خاتمے میں کردار ادا کر سکیں اور ان امور میں مداخلت سے اعراض کرنا چاہیے‘ جن کے نتیجے میں نکاح مشکل اور برائی کے راستے آسان ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے معاشرے کو ایک تندرست اور صاف ستھرے معاشرے میں تبدیل کر دے۔ (آمین )