دیگر عصری معاشروں کی طرح ہمارے معاشرے میں بھی ہر شعبے میں متکبر لوگ موجود ہیں۔ تجارت‘ سیاست‘ سرکاری اداروں‘ بڑے نجی اداروں اور علم و تحقیق کی دنیا سے وابستہ بہت سے لوگ تکبر کے راستے پر ہیں۔ اپنے منصب ‘ اثرورسوخ ‘ سرمائے اور قابلیت کو اللہ تعالیٰ کی عطا سمجھنے کی بجائے اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر سمجھنے کا چلن ہمارے معاشرے میں بھی عام ہے۔
کتاب وسنت کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ غرور اور تکبر کو انتہائی نا پسند فرماتے ہیں اور عاجزی اور انکساری اختیار کر نے والوں کو ہمیشہ سر بلند کرتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں ابلیس کی ذلت کی وجہ یہ بیان کی کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا راستہ اختیار کیا۔جب اللہ تعالیٰ نے اس کو فرشتوں کی جماعت سمیت حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے جھکنے کا حکم دیا تو اس نے انکار اور تکبر کیا۔ اس سرکشی کی وجہ سے وہ قیامت کے دن تک کے لیے راندۂ درگاہ ہو گیا ۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس واقعے کو قرآن مجید کے متعدد مقامات پر بیان کیا ہے۔ سورہ اعراف کی آیت نمبر11 سے 13 میں یہ واقعہ کچھ یوں بیان کیا گیا :''اور بلاشبہ ہم نے پیدا کیا تمہیں پھر ہم نے شکلیں بنائیں تمہاری۔ پھر ہم نے کہا فرشتوں سے (کہ) سجدہ کرو آدم کو تو انہوں نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے۔ نہ ہوا وہ سجدہ کرنے والوں میں سے۔ کہا: (اللہ نے) کس (چیز) نے روکا تجھے کہ نہ تو سجدہ کرے جب کہ میں نے حکم دیا تجھے؟ اس نے کہا :میں بہتر ہوں اس سے۔ تو نے پیدا کیا مجھے آگ سے اور تو نے پیدا کیا‘ اسے مٹی سے۔ فرمایا پھر اتر جا اس (بہشت) سے پس نہ تھا (لائق) تیرے لیے کہ تو تکبر کرے اس میں‘ پس نکل جا بے شک تو ذلیل ہونے والوں میں سے ہے۔‘‘
اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نساء کی آیت نمبر 36میں بھی فخر اور غرور کرنے والوں کی مذمت میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اللہ تعالیٰ نہیں پسند کرتا ‘جو ہو مغرور فخرکرنے والا۔‘‘سورہ بنی اسرئیل کی آیت نمبر37میں بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے تکبر کی مذمت کرتے ہوئے زمین پر اکڑ کر چلنے سے منع فرمایا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں: ''اور مت چل زمین میں اکڑ کر بے شک تو ہرگز نہیں پھاڑ سکے گا ‘زمین کو اور ہرگز نہیں تو پہنچ سکے گا پہاڑوں(کی چوٹی) تک لمبا ہو کر۔‘‘
آیات مذکور ہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسان کو تکبر کے راستے پر چلنے سے گریز کرنا چاہیے ۔ احادیث مبارکہ میں بھی تکبر کے حوالے سے بڑے واضح انداز میں احکامات بیان کیے گئے ہیں۔ جن میں سے دو اہم احادیث درج ذیل ہیں:۔
1۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا ''ایک شخص تکبر کی وجہ سے اپنا تہبند زمین سے گھسیٹتا ہوا جا رہا تھا کہ اسے زمین میں دھنسا دیا گیا اور اب وہ قیامت تک یوں ہی زمین میں دھنستا چلا جائے گا۔‘‘
2۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا : ''اللہ تعالیٰ اس کی طرف قیامت کے دن نظر رحمت نہیں کرے گا ‘جو اپنا کپڑا تکبر و غرور سے زمین پر گھسیٹ کر چلتا ہے‘‘۔
مندرجہ بالا حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اپنے کپڑے کو تکبر کے ساتھ زمین پر گھسیٹ کر چلنا اللہ تعالیٰ کو شدید نا پسند ہے‘ تاہم جو شخص قصداً ایسا نہ کرے اور نہ چاہتے ہوئے کسی وقت اس کا کپڑا لٹک جائے تو ایسی صورت میں اللہ تبارک وتعالیٰ اس پر گرفت نہیں فرماتے۔ اس حوالے سے صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی حدیث درج ذیل ہے :
نبی کریم ﷺنے فرمایا: ''جو شخص تکبر کی وجہ سے تہبند گھسیٹتا ہوا چلے گا تو اللہ پاک اس کی طرف قیامت کے دن نظر بھی نہیں کرے گا‘‘۔ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ''یا رسول اللہ! میرے تہبند کا ایک حصہ کبھی لٹک جاتا ہے ‘مگر یہ کہ خاص طور سے اس کا خیال رکھا کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ''تم ان لوگوں میں سے نہیں ہو جو ایسا تکبر سے کرتے ہیں۔‘‘
دنیا میں بالعموم طاقتور متکبر آدمی دوسروں کو حقیر جانتا ہے اور اپنی حیثیت اور طاقت پر گھمنڈ کا مظاہرہ کرتا ہے‘ لیکن قیامت کے دن معاملہ یکسر جدا ہو گا ۔ اس حوالے سے اہم احادیث درج ذیل ہیں:
1۔ صحیح بخاری میں حضرت حارثہ بن وہب الخزاعی ؓسے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺسے سنا ‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ میں تمہیں بہشتی آدمی کے متعلق نہ بتا دوں۔ وہ دیکھنے میں کمزور ناتواں ہوتا ہے ( لیکن اللہ کے یہاں اس کا مرتبہ یہ ہے کہ ) اگر کسی بات پر اللہ کی قسم کھا لے تو اللہ اسے ضرور پوری کر دیتا ہے اور کیا میں تمہیں دوزخ والوں کے متعلق نہ بتا دوں ہر بدخو‘ بھاری جسم والا اور تکبر کرنے والا ہے۔
2۔ اسی طرح صحیح مسلم میں آپ سے ہی ایک اور حدیث یوں روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا میں تمہیں اہل جنت کے بارے میں خبر نہ دوں؟انہوں ( صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین ) نے عرض کی : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ ہر کمزور جسے کمزور سمجھا جاتاہے ( مگر ایسا کہ )‘ اگر ( کسی معاملے میں ) اللہ پر قسم کھا لے تو وہ اس کی قسم پوری کردے ‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں اہل جہنم کے بارے میں خبر نہ دوں؟ لوگوں نے کہا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہراجڈ ‘ مال اکھٹا کرنے والا اسے خرچ نہ کرنے والا اور تکبر اختیار کرنے والا ۔‘‘
3۔صحیح مسلم میں حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول ؐ نے فرمایا : '' کوئی انسان ‘جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہے ‘ آگ میں داخل نہ ہو گا اور کوئی انسان جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہے ‘ جنت میں داخل نہ ہو گا ۔ ‘ ‘
4۔ صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا : ''تین ( قسم کے لوگ ) ہیں ‘جن سے اللہ قیامت کے دن بات نہیں کرے گا اور نہ ان کو پاک فرمائے گا ( ابو معاویہ ) نے کہا : نہ ان کی طرف دیکھے گا ) اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے ؛ بوڑھا زانی ‘ جھوٹا حکمران اور تکبر کرنے والا عیال دار محتاج ۔ ‘ ‘
اسلام دین فطرت ہے اور انسانوں کو جائز زینت کے استعمال سے نہیں روکتا؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن مجید کی سورہ الاعراف کی آیت نمبر31‘ 32 میں ارشاد فرمایا: ''اے آدم کی اولاد! پکڑو (اختیار کرو) اپنی زینت ہر نماز کے وقت اور کھاؤ اور پیو اور نہ اسراف کرو‘ بے شک وہ نہیں پسند کرتا اسراف کرنے والوں کو۔ کہہ دیجئے کس نے حرام کی ہے اللہ کی زینت جو اس نے نکالی (پیدا کی) اپنے بندوں کے لیے اور پاکیزہ چیزیں رزق سے؟ کہہ دیجئے وہ ان لوگوں کے لیے ہیں ‘جو ایمان لائے دنیوی زندگی میں (اور ) خالص ہوں گی (ان کے لیے) قیامت کے دن ۔ ‘‘
اسی طرح ؛اگرچہ احادیث مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہو گا‘ اللہ تبارک وتعالیٰ اس کو جنت میں داخل نہیں فرمائیں گے‘ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اچھا لباس پہننا‘ اچھاکھانا کھانا‘ جب انسان کی نیت دکھلاوے یا دوسروں کو حقیر جاننے کی نہ ہو تکبر میں شامل نہیں۔ صحیح مسلم میں اس حوالے سے مذکور ایک اہم حدیث درج ذیل ہے:
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے نبی کریمﷺ سے روایت کی ‘ آپ نے فرمایا : '' جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہو گا ‘ وہ جنت میں داخل نہ ہو گا۔ ‘ ‘ ایک آدمی نے کہا : انسان چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کے جوتے اچھے ہوں ۔ آپ نے فرمایا : '' اللہ خود جمیل ہے ‘ وہ جمال کو پسند فرماتا ہے ۔ تکبر ‘ حق کو قبول نہ کرنا اورلوگوں کو حقیر سمجھنا ہے ۔ ‘ ‘
کتاب وسنت کی تعلیمات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ کی نعمتوں کے حصول کے لیے تگ ودو کرنا اور اپنی جائز ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرنا ہر اعتبار سے درست ہے ‘جبکہ دوسروں کو حقیرجاننا اور خود پسندی کا شکار رہنا اور بلند بانگ دعویٰ کرنا کسی بھی طور پر درست نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو تکبر کی بجائے عاجزی اور انکساری کا راستہ اختیار کرنے کی توفیق دے۔(آمین)