عبدالحفیظ ایک باعمل نوجوان ہے‘ جس کا تعلق ضلع قصور کے ایک گاؤں سوڈیوال سے ہے۔ اس نے اپنی تعلیم کو مرکز قرآن وسنہ لارنس روڈ سے حاصل کیا اور تعلیم مکمل ہونے کے بعد بھی وہ مجھ سے گاہے بگاہے رابطے میں رہا۔ مرکز سے وابستگی کی وجہ سے وہ ہمیشہ مجھ سے بہت زیادہ عقیدت اور محبت کا اظہار کرتا رہا۔ اس نے گزشتہ کئی برسوں کے دوران مجھے اپنے گاؤں سوڈیوال میں تقریروں اور دروسِ قرآن کے لیے دعوت دی۔ اس کی چاہت اور محبت کو دیکھ کر ہمیشہ میں نے ا س کے پروگراموں میں بڑی دلچسپی کے ساتھ شرکت کی۔چند روز قبل اس نے مجھے اپنے نکاح کی تقریب میں ‘جہاں اس نے اپنے علاقے کے دیگر نامور افراد کو مدعو کیا ہوا تھا ‘وہیں پر مجھے بھی اس تقریب میں شرکت کی دعوت دی۔اس کا نکاح پڑھانے کیلئے لاہور کے معروف عالم دین مولانا ارشد حقانی صاحب تشریف لائے۔ اس موقع پر عبدالحفیظ نے مجھے اپنی آراء پیش کرنے کی دعوت دی‘ تو میں نے اپنی جن آراء کو سامعین کے سامنے رکھا ‘ اُن کو کچھ ترمیم و اضافے کے ساتھ قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس زمین پر نبانات‘ حیوانات‘ انسانوں اور جنات کو پیدا کیا اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے اِن تمام مخلوقات سے اُن کے جوڑوں کو پیدا کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ یٰسین کی آیت نمبر 36میں اس امر کا اعلان فرمایا : '' پاک ہے‘ وہ (ذات )جس نے جوڑے پیدا کیے وہ سب کے سب ان میں سے (بھی)جواگاتی ہے زمین اور خود ان سے اور ان چیزوں سے جنہیں وہ نہیں جانتے۔‘‘اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ اس امر کا اعلان سورہ نباء کی آیت نمبر 8میں یوں فرمایا:''اور ہم نے پیدا کیا تمہیں جوڑا جوڑا۔ ‘‘اللہ تبارک وتعالیٰ نے جب انسانوں کو تخلیق کرنے کا ارادہ فرمایا تو شر وع میں فقط حضرت آدم علیہ السلام ہی کو تخلیق فرمایا تھا‘ اس کے بعد ان کے پہلو سے ان کی اہلیہ اماں حوا کو پیدا کیا۔ اس حقیقت کا اظہار اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ اعراف کی آیت نمبر 189میں یوں فرماتے ہیں: ''(اللہ)وہ ہے جس نے پیدا کیا تمہیں ایک جان سے اور اُس نے بنایا اُس سے اُس کا جوڑا‘ تاکہ وہ سکون حاصل کرے اُس سے۔‘‘ سورہ روم کی آیت نمبر 21میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہماری شریک زندگی کو اپنی نشانی قرار دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس حقیقت کا اظہار یوں فرماتے ہیں: ''اور اُس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اُس نے پیدا کیا تمہارے لیے تمہارے نفسوں (یعنی تمہاری جنس) سے بیویوں کو ‘تاکہ تم سکون حاصل کرو اُن کی طرف (جاکر) اور اُس نے بناد ی تمہارے درمیان محبت اور مہربانی۔ بے شک اس میں یقینا نشانیاں ہیں‘ اُن لوگوں کے لیے (جو)غوروفکر کرتے ہیں۔‘‘ بلوغت تک پہنچنے والے انسانوں کی غالب اکثریت رشتہ ازدواج سے منسلک ہوتی ہے ‘جس کے نتیجے میں جہاں پر اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کو اپنے جبلی تقاضوں اور خواہشات کو پورا ہونے کا موقع دیتے ہیں ‘وہیں پر اللہ تبارک وتعالیٰ اس تعلق کے نتیجے میں اس کے دل اور آنکھوں کی ٹھنڈک بیٹے اور بیٹیوں کو پیدا کرتے ہیں۔ زندگی نشیب وفراز سے عبارت ہے ۔ زندگی میں سکھ بھی ہیں اور غم بھی۔ زندگی میں خوشیاں اور تلخیاں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ زندگی میںآنے والی تلخیوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے انسان کی رفیقہ حیات اور اس کا کنبہ نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔ محبت اور شفقت میں گوندھے ہوئے رشتوں کی وجہ سے انسان زندگی کی تلخیوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ شوہر اور بیوی کا وجود جہاں پر اللہ تبار ک وتعالیٰ کی ایک نشانی ہے‘ وہیں پر شوہر اور بیوی کی ہم آہنگی اور بیوی کا صالح ہونا انسان کے لیے بہت بڑی خوش قسمتی کی بات ہے۔ اس ضمن میں نبی کریمﷺ کا یہ فرمان ہمارے پیش نظر رہنا چاہیے؛سنن نسائی میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓسے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا :''دنیا ساری کی ساری پونجی ہے (برتنے کی چیز ہے)‘ لیکن ساری دنیا میں سب سے بہترین (قیمتی) چیز نیک وصالح عورت ہے۔‘‘ سنن ابن ماجہ میں یہی حدیث کچھ فرق الفاظ سے یوں مروی ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا : ''دنیا متاع(سامان) ہے اور دنیا کے سامانوں میں سے کوئی بھی چیز نیک اور صالح عورت سے بہتر نہیں ہے۔‘‘
قرآن وسنت کا مطالعہ ہمیں یہ بات بتلاتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے دو انبیاء حضرت نوح اور حضرت لوط علیہما السلام کی بیویاں ان کے راستے پر نہ تھیں‘ جس کے نتیجے میں وہ ناکام اور نامراد ہو گئیں۔ قرآن مجید کے مختلف مقامات پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی کی ناکامی کا ذکر کیا۔ سورہ تحریم کی آیت نمبر 10میں بیک وقت حضرت لوط علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام کی بیویوں کی ناکامی کا ذکر کچھ یوں کیا گیا:''اللہ نے مثال بیان کی ہے (اُن لوگوں) کے لیے جنہوں نے کفر کیا‘ نوح علیہ السلام کی بیوی اور لوط علیہ السلام کی بیوی کی وہ دونوں تھیں دو بندوں کے نیچے (یعنی نکاح میں) ہمارے بندوں میں سے (اور) دونوں نیک تھے۔ پس ‘اُن دونوں نے (دین کے معاملات میں) خیانت کی اُن دونوں سے۔تو وہ دونوں (نبی) کام نہ آئے اُن دونوں کے اللہ سے (بچانے میں) کچھ بھی۔ اور کہا گیا تم دونوں داخل ہو جاؤ آگ میں داخل ہونے والوں کے ساتھ‘‘۔ اس کے برعکس اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرعون کی کامیاب اہلیہ کا ذکر سورہ تحریم ہی کی آیت نمبر 11میں یوں کیا :''اوراللہ نے مثال بیان کی (اُن لوگوں) کے لیے جو ایمان لائے فرعون کی بیوی کی‘ جب اس نے کہا (اے میرے ) رب! بنا میرے لیے اپنے پاس ایک گھر جنت میں اور نجات دے مجھے فرعون اور اس کے عمل سے اور تو نجات دے مجھے ظالم لوگوں سے‘‘۔ ان آیات مبارکہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کو واضح کیا کہ اگر شوہر اور بیوی ایمان اور عمل کے حوالے سے ہم آہنگ نہ ہوں تو ان کی منزل منزل ایک نہ ہوگی ۔
اس کے مدمقابل اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت زکریا علیہ السلام اور ان کی اہلیہ کا ذکر کیا کہ وہ دونوں اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی میں مصروف رہا کرتے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ ابنیاء کی آیت نمبر 89‘90میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور (یاد کیجئے) زکریا کو جب اس نے پکارا اپنے ر ب کو اے میرے رب تو نہ چھوڑ مجھے اکیلا اور تو بہتر ہے سب وارثوں سے۔ تو ہم نے دعا قبول کر لی اس کی اور ہم نے عطا کیا اس کو یحییٰ اور ہم نے درست کر دیا اس کے لیے اس کی بیوی کو۔ بے شک وہ جلدی کرتے تھے نیکیوں میں اور پکارتے تھے ہمیں رغبت کرتے ہوئے خوف کھاتے ہوئے اور تھے وہ ہمارے لیے عاجزی کرنے والے۔‘‘
اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دونوں بیویاں‘ یعنی حضرت سارہ‘ حضرت ہاجرہ بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نقش قدم پر چلنے والی تھیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو بھی ازدواج مطہرات کی شکل میں مثالی بیویاں عطا کیں۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓنے پہلی وحی کے بعد جہاں پر آپﷺ کی دلجوئی کے لیے بے مثال الفاظ کہے ۔ وہیں پر وہ آپ کو جناب ورقہ بن نوفل کے پاس بھی لے کر گئیں ‘ جنہوںنے حضرت رسول اللہﷺ پر نازل ہونے والے فرشتے اور وحی کو پہچان کر آپ کی نبوت کی تصدیق کی تھی۔ مثالی بیوی انسان کی زندگی کو بہتر بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اس لیے انسان کو ہمیشہ دین اور اخلاق کی بنیاد پر اپنی اولادوں کے لیے اچھے رشتوں کی تلاش جاری رکھنی چاہیے اور اچھا رشتہ ملنے پر غربت یا مالی کمزوری کے سبب نکاح کو مؤخر نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نور کی آیت نمبر 32میں اعلان فرماتے ہیں: ''اور نکاح کرو بے نکاح (مردوں اور عورتوں کا) اپنے میں سے اور (ان کا جو) نیک ہیں تمہارے غلاموں میں سے اور تمہاری لونڈیوں (میں سے) ‘اگر وہ ہوں گے محتاج (تو) غنی کر دے گا ‘اُنہیں اللہ اپنے فضل سے اور اللہ (بڑا) وسعت والا خوب جاننے والا ہے۔‘‘
جن معاشروں میں نکاح کو اہمیت دی جاتی ہے‘ اُن میں خاندانی نظام انتہائی مضبوط اور پختہ نظر آتا ہے۔ اس کے مدمقابل‘ جن معاشروں میں نیکی کے حصول کے لیے تجرد کی زندگی پر زیادہ زور دیاگیا تو انسانی نفس اور فطرت نے اِس دباؤ کوقبول نہ کیا اور ان معاشروں میں ردعمل کے طور پر بے حیائی اور صنفی بدامنی اپنے پورے عروج پر پہنچ گئی۔ ہم‘ اگر اپنے معاشرے کو فحاشی اور عریانی سے پاک کرنا چاہتے ہیں تو جہاں ہمیں معاشرے میں پردے داری کو فروغ دینے اور بے حیائی کی حوصلہ شکنی کرنے کی ضرورت ہے وہیں پر اپنی اولادوں کا بر وقت نکاح کرنا اور ان کے لیے نیک اور دین دار شریک زندگی کا انتخاب کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ اگر‘ ہم اس بات کو اہمیت دیں گے ‘تو یقینا اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے ہماری زندگی پرسکون بھی ہو سکتی ہے اور ہمارے معاشرے سے فحاشی اور عریانی کا خاتمہ بھی ہو سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے معاشرے کو ایک پاکیزہ اور صحت مند معاشرے میں تبدیل فرمائے۔ (آمین )