عصری معاشرے کئی اعتبار سے ترقی کر چکے ہیں۔ سائنس ‘ ٹیکنالوجی‘ ذرائع ابلاغ ‘ ذرائع آمدورفت کی رفتار میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔دنیا کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہنچنا چند گھنٹوں کی بات ہے‘ اسی طرح دنیا کے ایک کنارے میں موجود انسان لمحوں میں موبائل نیٹ ورک یا انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا کے دوسرے کنارے میں موجود لوگوں کے ساتھ باآسانی رابطہ کر سکتے ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی اس ترقی کے نتیجے میں جہاں معاشروں میں بہت سی مثبت تبدیلیاں آئی ہیں وہیں انسانی سماج اخلاقی اعتبار سے انحطاط کا شکار بھی ہوا ہے۔ تہذیبِ جدید کے منفی نتائج میں سے ایک والدین کی ناقدری بھی ہے۔ اہل مغرب والدین کی قدر سے تو اس حد تک بے بہرہ ہو چکے ہیں کہ بوڑھے والدین کو اولڈ ہاؤسز میں پہنچا دیا جاتا ہے اور زندگی بھر ان کی صحیح طریقے سے خبر گیری کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جاتی۔ ہمارے معاشروں میں تاحال نوبت یہاں تک تو نہیں پہنچی لیکن ہم اس بات کا باآسانی مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ ہمارے گھروں میں بھی جس طرح آج سے پچیس تیس برس قبل بزرگ رشتہ داروں کی عزت ہوا کرتی تھی ‘لوگ جس انداز سے ان کو ملنے جاتے اور ان کے ساتھ مجلس کیا کرتے تھے اب ان رویوں میں خاطر خواہ تبدیلی رونما ہو رہی ہیں۔ والدین کی قدر و منزلت میں بھی نمایاں حد تک کمی واقع ہو چکی ہے اور ان کی خبر گیری اور خدمت کو احسن طریقے سے کرنے کی بجائے کئی مرتبہ اس کو بوجھ سمجھ کر کیا جاتا ہے ۔ان کی قیمتی نصیحتوں اور قابلِ عمل مشوروں کو کھلے دل سے تسلیم نہیں کیا جاتا اور ان کے ساتھ کئی مرتبہ بے ادبی والا رویہ بھی اپنایا جاتا ہے۔ کئی مرتبہ اخبارات میں والدین کے ساتھ ناخوشگوار سلوک کی خبریں بھی پڑھنے کو ملتی رہتی ہیں۔ انسان والدین کی بے ادبی کرتے ہوئے اس بات کو فراموش کر دیتا ہے کہ والدین ہمارے اس دنیا میں آنے کا سبب ہیں اور ہم پر ان کی خدمت کے حوالے سے بہت سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔
کتاب وسنت کا مطالعہ کرنے کے بعد والدین کی عظمت کے حوالے سے کچھ اہم باتیں سامنے آتی ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 23،24میں فرماتے ہیں:''اور فیصلہ کر دیا آپ کے رب نے کہ نہ تم عبادت کرو مگر صرف اسی کی اور والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا (حکم دیا) اگر واقعی وہ پہنچ جائیں تیرے پاس بڑھاپے کو ان دونوں میں سے ایک یا دونوں تو مت کہہ ان دونوں سے اُف بھی اور مت ڈانٹ ان دونوں کو اور کہہ ان دونوں سے نرم بات۔ اور جھکا دے ان دونوں کے لیے عاجزی کا بازو رحمدلی سے۔اور کہہ (اے میرے) رب رحم فرما ان دونوں پر جس طرح ان دونوں نے پالا مجھے بچپن میں‘‘۔اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے والدین کے بہت سے اہم حقوق بیان کیے ہیں جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1:والدین کے ساتھ احسان۔ 2:بڑھاپے میں ان کا ادب اور احترام۔ 3: ان کی بے ادبی اورسخت بات کہنے سے گریز کرنا۔ 4: بڑھاپے میں ان کے ساتھ نرمی سے گفتگو کرنا۔5: ان کے سامنے عاجزی کا اظہار ۔6: ان کے ساتھ رحمدلی کا مظاہرہ۔7 : ان کے لیے رحمت کی دعا۔
یہ آیت مبارکہ اس بات کو واضح کرتی ہے کہ انسان کو اپنے والدین کے ساتھ ہر حالت میں نیکی اور خیر خواہی والا معاملہ کرنا چاہیے اور اگر ان کی کوئی بات ناگوار گزرے تو اس کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا چاہیے اور ان کے لیے دعائے خیر کرتے رہنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ لقمان کی آیت نمبر14 ،15 میںانسان کے والدین اور بالخصوص والدہ کے حقوق کے حوالے سے بڑی ہی خوبصورت باتیں ارشاد فرمائی ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں:اور ہم نے وصیت (تاکید) کی انسان کو اپنے والدین کے ساتھ (حسن سلوک کی)اٹھائے رکھا اسے اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری (کے باوجود) اور اس کا دودھ چھڑانا دوسالوں میں (اور) یہ کہ تو شکر کر میرا اور اپنے والدین کا میری ہی طرف (تم سب کو) لوٹنا ہے۔ اور اگر وہ دونوں زور دیں تجھ پر اس پر کہ تو شریک ٹھہرائے میرے ساتھ (اُسے) جو (کہ)نہیں ہے تجھے اُس کا کوئی علم۔ تو تم اطاعت نہ کرو اُن دونوں کی اور سلوک کر اُن دونوں سے دنیا میں اچھے طریقے سے اور پیروی کر اس شخص کے راستے کی جو رجوع کرتا ہے میری طرف‘ پھر میری ہی طرف تمہارا لوٹنا ہے تو میں تمہیں خبر دوں گا (اُس) کی جو تم عمل کرتے تھے‘‘۔
ان آیات میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے والدین کے ساتھ احسان کرنے کا حکم دیتے ہوئے انسان کو یہ بات یاد دلائی ہے کہ اُس کی ولادت کے حوالے سے ماں نے اپنی ذمہ داری کو کس انداز سے نبھایا اور اس کی پیدائش کے بعد بھی مدتِ رضاعت میں اسے دودھ پلا کر اس سے محبت کا اظہار کرتی رہی۔ اس احسان اور محبت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان ہر حالت میں اپنے والدین سے حسن سلوک کرتا رہے۔ اگر والدین صراطِ مستقیم پر نہ بھی ہوں اور اللہ تبارک وتعالیٰ سے بغاوت کا درس بھی دیں تو ایسی صورت میں بھی انسان کو ان کی بے ادبی کرنے کی بجائے دنیاوی معاملات میں ان کی تابعداری کرتے رہنا چاہیے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات کی نافرمانی کرنے والے ان والدین کے ساتھ بھی حسن ِسلوک کر ترک نہیں کرنا چاہیے۔
جب ہم احادیث مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے بھی والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی تلقین فرمائی ہے اس حوالے سے بعض اہم احادیث درج ذیل ہیں:
1: صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓسے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے وقت پر نماز پڑھنا پھر پوچھا‘ اس کے بعد‘ فرمایا والدین کے ساتھ نیک معاملہ رکھنا۔2:صحیح بخاری میں حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے تم پر ماں کی نافرمانی حرام قرار دی ہے اور ( والدین کے حقوق ) نہ دینا اور ناحق ان سے مطالبات کرنا بھی حرام قرار دیا ہے۔3: صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں سب سے بڑا گناہ نہ بتاؤں؟ ہم نے عرض کیا ضرور بتائیے یا رسول اللہؐ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ٹیک لگائے ہوئے تھے‘ اب آپ سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا :آگاہ ہو جاؤ جھوٹی بات بھی اور جھوٹی گواہی بھی ( سب سے بڑے گناہ ہیں ) آگاہ ہو جاؤ جھوٹی بات بھی اور جھوٹی گواہی بھی۔ نبی کریم ﷺ اسے مسلسل دہراتے رہے ۔4: صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقیناً سب سے بڑے گناہوں میں سے یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے والدین پر لعنت بھیجے۔ پوچھا گیا: یا رسول اللہ! کوئی شخص اپنے ہی والدین پر کیسے لعنت بھیجے گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شخص دوسرے کے باپ کو برا بھلا کہے گا تو دوسرا بھی اس کے باپ اور اس کی ماں کو برا بھلا کہے گا۔5:صحیح مسلم میں بھی حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما ہی سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی کا اپنے والدین کو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے ۔ صحابہ کہنے لگے : اے اللہ کے رسول ! کیا کوئی آدمی اپنے والدین کو گالی دیتا ہے ؟ فرمایا : ہاں! انسان کسی کے باپ کوگالی دیتا ہے تو وہ ا س کے باپ کو گالی دیتا ہے ۔ جب یہ کسی کی ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کی ماں کو گالی دیتاہے ۔
ان احادیثِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا بہت بڑی نیکی اور ان کی نافرمانی کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ اپنے گھروں میں رہتے ہوئے جہاں پر ہمیں اپنی بیوی اور اولاد کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کی ضرورت ہے وہیںاپنے والدین کے حقوق کو اہمیت دینا بھی ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ بعض لوگ اس مسئلے میں افراط وتفریط کا مظاہرہ کرتے ہیں اور والدین کی دلجوئی کے لیے اپنی بیوی اور بچوںکے حقوق کو نظر انداز کردیتے ہیں جبکہ بعض لوگ اپنے بیوی بچوں کے حقوق کی پاسداری کرتے ہوئے والدین کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں ۔ توازن اور اعتدال انسانی زندگی کا حسن ہے اور کامیاب انسان وہ ہے جو زندگی کے تمام معاملات کو معتدل اور احسن انداز میں نبھانے کی کوشش کرے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو اپنے والدین کی قدر کرنے کی توفیق دے اور ہم زندگی کے آخری سانس تک ان کی خدمت کرنے والے لوگوں میں شامل رہیں۔ آمین
والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا بہت بڑی نیکی اور ان کی نافرمانی کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ اپنے گھروں میں رہتے ہوئے جہاں پر ہمیں اپنی بیوی اور اولاد کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کی ضرورت ہے وہیںاپنے والدین کے حقوق کو اہمیت دینا بھی ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ بعض لوگ اس مسئلے میں افراط وتفریط کا مظاہرہ کرتے ہیں اور والدین کی دلجوئی کے لیے اپنی بیوی اور بچوںکے حقوق کو نظر انداز کردیتے ہیں ۔