ہر شخص اس بات کا مشاہدہ کر سکتا ہے کہ بااثر‘ نامور ‘ صاحب ِ حیثیت اور اثرورسوخ والی شخصیات کی بڑی تعداد معاشرتی معاملات میں بے رخی‘ بے مروتی اور بداخلاقی کا مظاہرہ کرتی ہوئی نظر آتی ہے؛ اگرچہ معاشرے میں اچھے اخلاق والے لوگ بھی موجود ہیں‘ لیکن ان کی تعداد سختی‘ درشتی اور بداخلاقی کا مظاہرہ کرنے والے لوگوں میں کم نظر آتی ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ بالعموم جوں جوں انسان کے علم ‘وسائل‘ منصب اور عہدے میں ترقی ہوتی جاتی ہے‘ انسان اپنی حقیقت کو فراموش کرتا چلا جاتا ہے اور اس بات کو بھول جاتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کو عدم سے وجود بخشا ۔اُس پر ایک وقت ایسا بھی تھا ‘جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہیں تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس حقیقت کا اظہار سورہ دھر کی آیت نمبر 1 سے 3میں یوں کیا ہے ''بلاشبہ گزر چکا ہے انسان پر ایساوقت زمانے میں سے (کہ) وہ نہیں تھا کوئی چیز قابل ذکر۔ بے شک ہم نے پیدا کیا انسان کو ایک مخلوط قطرے سے (تاکہ)ہم آزمائیں اُسے تو ہم نے بنایا‘ اسے خوب سننے والا خوب دیکھنے والا۔ بے شک ہم نے دکھایا اسے راستہ خواہ شکر گزار(بنے)اور خواہ ناشکرا۔‘‘اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ تخلیق انسانی کے حوالے سے سورہ مومنون کی آیت نمبر 12سے 14میں ارشاد فرماتے ہیں '' اور بلاشبہ یقینا ہم نے پیدا کیا انسان کو مٹی کے ایک خلاصے سے۔ پھر ہم نے بنایا اُسے ایک قطرہ (اور اسے رکھا)ایک محفوظ ٹھکانے میں۔ پھر ہم نے بنایا (اس) قطرے کو جما ہوا خون پھر ہم نے بنایا جمے خون کو لوتھڑا ‘پھر ہم نے بنایا لوتھڑے کو ہڈیاں پھر ہم نے پہنایا ہڈیوں کو گوشت پھر ہم نے بنادیا اُسے ایک اور (نئی) صورت میں۔ ‘‘ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ولادت کے دن انسان کی بے بسی اور ناتوانی اور اس کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ملنے والی سماعت اور بصارت کا ذکر سورہ نحل کی آیت نمبر78 میں بڑے خوبصورت انداز میں یوں فرمایا ہے: ''اور اللہ نے نکالا تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے (اس حال میں کہ) تم نہیں جانتے تھے کچھ بھی اور اس نے بنا دیے تمہارے لیے کان اور آنکھیں اور دل‘ تاکہ تم اپنے رب کا شکر کرو۔‘‘
اسی طرح انسان اس حقیقت کو بھی بھول جاتا ہے کہ اس کا قیام اس زمین پر عارضی ہے اور اس کے بعد اس کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں چلے جانا ہے ۔ جب وہ اس دنیا سے جائے گا تو خالی ہاتھ ہو گا اور اس کے تن پر دوکپڑوں کا ایک کفن ڈال دیا جائے گا اور اس کی تدفین کے لیے قبر کو کھودا جائے گا۔ قبرستان میں موجود قبریں اس حقیقت کو واضح کر دیتی ہیں کہ صاحب حیثیت یا غریب ‘ صاحب ِاثرورسوخ یا مجبور ‘ حاکم یا محکوم ‘ امیر یا غریب کا فرق شہر خاموشاں میں آکر ختم ہو چکا ہے۔ دس کنال میں رہنے والے یا پانچ مرلے میں مقیم انسان کو قبر میں ایک ہی جتنی جگہ میں قیامت تک سونا ہو گا۔ اس حقیقت کا احساس اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ عبس کی آیات 17 سے 22میں یوں دلایا: ''مارا جائے انسان کس قدر ناشکرا ہے وہ ۔ کس چیز سے اُس نے پیدا کیا ہے‘ اُسے۔ ایک نطفے سے‘ اُس نے پیدا کیا اُسے ‘پھر اُس نے اندازہ لگایا اُس کا۔ پھر راستہ آسان کر دیا اُس کا۔ پھر موت دی اُسے پھر قبر میں لے گیا اُسے۔ پھر جب وہ چاہے گا زندہ کر دے گا‘ اُسے۔ ‘‘
موت سے قبل بھی کہولت اور بڑھاپے کی طرف بڑھنے کے ساتھ ساتھ انسان کے وجود میں پیدا ہونے والی کمزوریاں اس کو اس کی بے بسی کا احساس دلاتی رہتی ہیں۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانی زندگی کو جن مختلف ادوار سے گزارا‘ ان کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ روم کی آیت نمبر 54میں یوں فرماتے ہیں: ''اللہ (وہ ہے) جس نے پیدا کیاتمہیں کمزوری(کی حالت) سے ‘پھر اُس نے بنا دی کمزوری کے بعد قوت ‘پھر اس نے بنا دی قوت کے بعد کمزوری اور بڑھاپا ‘وہ پیدا کرتا ہے جو وہ چاہتا ہے اور وہی خوب علم والا بہت قدرت والا ہے۔ ‘‘
زندگی کے اتار اور چڑھاؤ اور لوگوں کو مرتا دیکھ کر عبرت حاصل نہ کرنا انسان کی کوتاہ بینی ہے۔ انسان کو جلد یا بدیر ان چیزوں کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لینا ہو گا۔ انسانوں کی بڑی تعداد مال کمانے میں اِس حد تک اُلجھ جاتی ہے کہ اُن کو اپنی موت بھی بھول جاتی ہے۔ اس حقیقت کا ذکر سورہ تکاثر کی آیت نمبر 1 سے 7میں یوں ہوا: ''غافل کر دیا تمہیں باہمی کثرت کی خواہش نے ۔ یہاں تک کہ تم نے جا دیکھیں قبریں۔ ہر گز نہیں عن قریب تم جان لو گے ‘ پھر ہرگز نہیں عن قریب تم جان لوگے۔ ہرگز نہیں کاش! تم جان لیتے یقین کا جاننا۔ یقینا ضرور تم دیکھ لو گے جہنم کو ‘ پھر یقینا ضرور تم دیکھ لو گے اسے یقین کی آنکھ سے...‘‘ مال ومتاع اکٹھا کرنے کے دوران انسان کا دیگر انسانوں کے ساتھ تحقیر‘ بے مروتی اور عیب جوئی والا رویہ ہر اعتبار سے قابل مذمت ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ ھمزہ کی آیت نمبر 1 اور 2میں ایسے لوگوں کی مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: ''ہلاکت ہے ہر بہت طعنہ دینے والے کے لیے (اور ہر) بہت عیب لگانے والے (کے لیے) ۔ جس نے جمع کیا مال اور گن گن کر رکھا اسے۔‘‘
انسان کو اس فانی دنیا میں رہتے ہوئے اپنی حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کی بندگی کے ساتھ ساتھ انسانوں سے حسن سلوک کو جاری رکھنا چاہیے۔نبی کریم ﷺ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے کائنات میں سب سے بلند مقام عطا فرمایا تھااور ‘آپ ﷺ کا اخلاق بھی سب سے اعلیٰ تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ قلم کی آیت نمبر4 میں رسول کریمﷺ کے اعلیٰ اخلاق کا ذکر یوں فرمایا: '' اور بلاشبہ آپ یقینا خلق عظیم پر (فائز) ہیں۔‘‘ نبی کریم ﷺ نے اعلیٰ اخلاق کی اہمیت کو مختلف مقامات پر انتہائی احسن انداز میں اجاگر فرمایا ہے‘ جن میں سے چند اہم مقام درج ذیل ہیں:
1۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمرو ؓسے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے‘ جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں ( جو لوگوں سے کشادہ پیشانی سے پیش آئے ) ۔
2۔صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمرو ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر کوئی برا کلمہ نہیں آتا تھا اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے یہ ممکن تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ تم میں سب سے زیادہ عزیز مجھے وہ شخص ہے ‘جس کے عادات و اخلاق سب سے عمدہ ہوں۔
3۔صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ کا یہ حال تھا کہ ایک لونڈی مدینہ کی لونڈیوں میں سے آپ کا ہاتھ پکڑ لیتی اور اپنے کسی بھی کام کے لیے جہاں چاہتی آپ کو لے جاتی تھی۔
4۔صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک ؓہی سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حسن اخلاق میں سب لوگوں سے بڑھ کر تھے‘ میرا ایک بھائی ابوعمیر نامی تھا۔ بیان کیا کہ میرا خیال ہے کہ بچہ کا دودھ چھوٹ چکا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف لاتے تو اس سے مزاح فرماتے اکثر ایسا ہوتا کہ نماز کا وقت ہو جاتا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر میں ہوتے۔ آپ اس بستر کو بچھانے کا حکم دیتے‘ جس پر آپ بیٹھے ہوئے ہوتے؛ چنانچہ اسے جھاڑ کر اس پر پانی چھڑک دیا جاتا۔ پھر‘ آپ کھڑے ہوتے اور ہم آپ کے پیچھے کھڑے ہوتے اور آپ ہمیں نماز پڑھاتے۔
ہم اپنے معاشرے میں اس بات کا بھی مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ صاحب ِحیثیت‘ صاحب ِثروت اور صاحب ِاثرورسوخ لوگوں میں انانیت حد سے بڑھ جاتی ہے اور وہ کسی بھی طور پر لوگوں کو معاف کرنے پر آمادہ وتیار نہیں ہوتے اور اپنی انانیت کے دفاع کے لیے ظلم وبربریت کے راستے کو اختیار کر لیتے ہیں‘ جب کہ اگر ہم سیرت نبویﷺ شریف کا مطالعہ کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فتح مکہ کے بعد اپنے راستے میں کانٹے بچھانے والوں ‘ اور اپنے آپ کو ایذا دینے والوں کو بھی معاف فرما دیا تھا۔ احادیث مبارکہ میں بھی لوگوں کی اخلاقی تربیت کے لیے ان کو معاف کرنے کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے؛ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن زبیرؓ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ لوگوں کے اخلاق ٹھیک کرنے کے لیے درگزر اختیار کریں۔جب ہم حضرات صحابہ کرام ؓ اور آئمہ دین کی زندگیوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو اُن کے اخلاق کو بھی انتہائی بلند پاتے ہیں۔ لوگوں سے ان کے معاملات اور رویے ہر اعتبار سے قابل ِقدر اور سنہری حروف سے لکھنے کے قابل تھے۔
کتب سیرت ﷺ اور تاریخ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسان کو اپنے اخلاق کو ہمہ وقت بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے اورلوگوں کے ساتھ پیار اور محبت والا معاملہ کرناچاہیے۔ اس سے انسان کی عزت اور وقار میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے مدمقابل ‘جو انسان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے مل جانے کے بعد تکبر کا مظاہرہ کرتا ہے‘ وہ لوگوں کی نظروں میں گر جاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حسن اخلاق سے نوازے اور لوگوں کے ساتھ بہترین اخلاق والا معاملہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔( آمین )