گزشتہ چند دنوں کے دوران ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بعض اہم واقعات رونما ہوئے‘ جن کے ملکی سیاست پر آنے والے دنوں میں انتہائی گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
پہلا اہم واقعہ پیر کے روز وزیر اعظم عمران خان کی وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ ملاقات ہے۔ اس ملاقات میں دونوں ممالک کے باہمی مفادات کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ امریکہ نے افغانستان میں قیام امن اور جنگ بندی کے حوالے سے پاکستان کے کردار کی اہمیت کو تسلیم کیا اور اس بات کی توقع ظاہر کی کہ پاکستان جنگ بندی کے خاتمے ‘ امریکی فوجوں کے انخلاء اور افغانستان میں ہلاکتوں کو روکنے کیلئے اپنا کردار ادا کرے گا۔وزیر اعظم عمران خان نے اس موقع پر امریکی صدر کو یقین دہانی کروائی کہ وہ افغا نستان میں جنگ بندی اور خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے نمایاں کردار ادا کریں گے اور افغان طالبان کو صلح پر آمادہ کریں گے اور انہوں نے یہ توقع بھی ظاہر کی کہ اس حوالے سے جلد مثبت پیش رفت ہو گی۔ اس موقع پر امریکی صدر ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش بھی کی ‘جس کو پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے خوش آئند قرار دیااور اس حوالے سے متوقع مثبت کردار کی صورت میں امریکی صدر کو خطے کے ایک ارب سے زائد لوگوں کی نیک تمناؤں کا بھی حق دار قرار دیا۔
امریکی صدر ٹرمپ نے اس موقع پر اس بات کا بھی ذکر کیا کہ مودی نے بھی تنازعہ کشمیر کے حوالے سے امریکہ کو کردار اداکرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ امریکی صدر ٹرمپ کے اس بیان کو بھارتی حکومت نے سختی سے مسترد کر دیا اوراس کو بے بنیاد قرار دیا۔ بھارتی موقف سے قطع نظر امریکی صدر کے اس بیان سے مسئلہ کشمیر بین الاقوامی سطح پر اجاگر ہوتاہوا نظر آیا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کو اقتصادی حوالے سے بہت بڑے چیلنج کا سامنا ہے اور عمران خان بطورِ اپوزیشن رہنما بیرونی امداد کے بغیر ہی پاکستان کے اقتصادی استحکام کا دعویٰ کرتے رہے ہیں‘ لیکن برسراقتدار آنے کے بعد انہوں نے بین الاقوامی امداد کی ضرورت اور اہمیت کو عملی طور پر تسلیم کر لیا ہے۔ ماضی میں سعودی عرب کے ساتھ بھی اس حوالے سے پیش رفت کی کوششیں کی جا چکی ہیں۔ اس ملاقات میں بھی اقتصادی حوالے سے پاکستان اور امریکہ کے درمیان تجارت کی بڑھوتری اور امریکی امداد کے حصول کے حوالے سے پیش رفت کی کوششیں کی گئی ہیں۔
ماضی میں امریکی صدر ٹرمپ نے امریکی امداد کے حوالے سے پاکستان پر عدم اعتماد کااظہار کرتے ہوئے پاکستان کے کردار کو بے وفائی سے تعبیر کیا تھا‘ لیکن حالیہ دورے کے دوران امریکی صدر نے مستقبل میں امریکی امداد کی بحالی کے امکانات کے اشارے کیے ہیںاور توقع ظاہر کی کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں معاون کا کردار ادا کرے گا۔ ماضی قریب میں سوشل میڈیا پر یہ خبر پورے زور وشور سے گردش کرتی رہی کہ آئندہ چند ہفتوں میں امریکہ کی قید میں موجود ڈاکٹر عافیہ صدیقی بازیاب ہو کر وطن واپس پہنچ جائیں گی۔
حالیہ ملاقات کے دوران بہت سے حلقے اس بات کی توقع کر رہے تھے کہ وزیر اعظم عمران خان اس مسئلے کو امریکی انتظامیہ کے سامنے اُٹھائیں گے‘ لیکن بدقسمتی سے اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہ ہو سکی اور ڈاکٹر عافیہ کے حوالے سے کیے گئے سوال کو بھی نظر انداز کر دیا گیا۔
گزشتہ چند دنوں کے دوران دوسری اہم خبر اپوزیشن جماعتوں کا اکٹھ ہے۔ متحد ہ مجلس عمل ‘ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف بھرپور انداز میں متحرک ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں اور اپوزیشن کی جماعتیں 25 تاریخ کو ''یوم سیاہ‘‘کے حوالے سے بڑے احتجاج کی تیاریاں کر رہی ہیں۔ آل پارٹیز کانفرنس اور متحدہ مجلس عمل کے سرکردہ رہنما مولانا فضل الرحمن اس حوالے سے بہت زیادہ متحرک نظر آرہے ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں حکومت پر اس وقت شدید تنقید کر رہی ہیں اوراپوزیشن کی طرف سے ایک ادارے کے حوالے سے یہ بات کہی جا رہی ہے کہ اس ادارے کو مالی بے ضابطگیوں کی روک تھام سے کہیں زیادہ سیاسی حریفوں کو ہراساں کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے ۔اپوزیشن کے نزدیک نواز شریف اور زرداری پر مالی بدعنوانی کے الزامات درحقیقت سیاسی انتقام کے تناظر میں لگائے جا رہے ہیں۔ حکومت اپوزیشن کے اس الزام کو سخت طریقے سے مسترد کرتی ہے اور وزیراعظم سمیت حکومت کے اہم رہنماؤں کا یہ کہنا ہے کہ اپوزیشن کا یہ اکٹھ درحقیقت مالی بے ضابطگیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے ہے اور جب تک لوٹی ہوئی دولت کو قومی خزانے میں واپس نہیں کروالیا جاتا‘ اُس وقت تک حکومت اپوزیشن کے ساتھ کسی قسم کی لچک کا مظاہرہ نہیں کرے گی۔ اس حوالے سے وزیر اعظم عمران خان نے امریکہ میں پاکستانی کمیونٹی کے سامنے بھی اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے اور یہ بات کہی ہے کہ مولانا فضل الرحمن‘ بلاول اور مسلم لیگ (ن) درحقیقت این آر او کے حصول کے لیے سرگرم ہیں۔
حالیہ دنوں میں مولانا فضل الرحمن کا ایک انٹرویو بھی سوشل میڈیا پر گردش کرتا ہوا نظر آیا ہے‘ جس میں مولانا نے ایک ادارے کے سربراہ اور اپنے درمیان ہونے والی گفتگو کے حوالے سے بھی کچھ تفصیلات بیان کی ہیں۔اس انٹرویو میں مولانا فضل الرحمن نے اسلام آباد میں لاکھوں افراد کے احتجاج کی کال دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کا یہ کہنا ہے کہ حکومت درحقیقت ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت دھاندلی کے ذریعے برسراقتدار آئی ہے اور اس حکومت کو عوامی نمائندگی کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ اپوزیشن کی حالیہ سرگرمیاں یقینا عوام کی توجہات کو حاصل کر رہی ہیں۔ اس حوالے سے حکومت کیا لائحہ عمل اختیار کرتی ہے ؟ آنے والے دن اس حوالے سے خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔
یوں حکومت کو عوامی دباؤ سے نکلنے کے لیے ٹھوس حکمت عملی کو اپنانا ہو گا‘ وگرنہ مبصرین کی یہی رائے ہے کہ اپوزیشن حکومت پر دباؤ بڑھانے میں کامیاب ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔
تیسری اہم خبر قبائلی علاقوں میں ہونے والے پہلے باضابطہ انتخابات ہیں۔ یہ انتخابات پرُامن ماحول میں منعقد ہوئے اورعوام نے اپنے اپنے پسندیدہ امیدواروں کے حق میں ووٹ کاسٹ کیا۔ پی ٹی آئی‘ جے یو آئی‘ جماعت اسلامی اوراے این پی کو انتخابات میں نمائندگی حاصل ہوئی ‘لیکن بڑی تعداد میں آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔ الیکشن کا پر امن طریقے سے انعقاد یقینا پاکستانی سیاست میں ایک مثبت پیشرفت ہے اور اس بات کی توقع کی جا سکتی ہے کہ آنے والے ایام میں قبائلی علاقوں کے لوگ بھی ملکی سیاست میں اپنا کردار ادا کرسکیں گے۔
چوتھی اہم خبر حافظ محمد سعید کی گرفتاری ہے۔ حافظ سعید کے بارے میں ایک عام تاثر ہے کہ وہ محب وطن مذہبی اور سیاسی رہنما ہیں اور ان کی جماعت نے ہمیشہ آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھا ہے۔حافظ محمد سعید کی گرفتاری کو بین الاقوامی دباؤ کا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ حافظ محمد سعید کی گرفتاری پر ان کی جماعت سے وابستہ افراد تشویش کا اظہار کر رہے ہیں اور ان کا یہ گمان ہے کہ حافظ محمد سعید کی یہ گرفتاری عالمی دباؤ پر کی گئی ہے اورحافظ محمد سعید کی ا س گرفتاری کے نتیجے میں بھارتی پراپیگنڈے کو تقویت حاصل ہو گی‘ جو بھارت کا میڈیا حافظ محمد سعید کے حوالے سے اکثر کرتا رہتا ہے۔
الغرض ان تمام خبروں کے مستقبل میں پاکستانی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ پاکستانی عوام سیاسی افق پر ہونے والی ان تبدیلیوں کے نتائج سے گہری دلچسپی رکھتی ہے اور آنے والے ایام میں پاکستان کو سیاسی اور اقتصادی طور پر مستحکم دیکھنے والے حلقے ان واقعات کے نتائج کے حوالے سے خصوصی دلچسپی کا اظہار کر رہے ہیں۔ آنے والے ایام اس بات کو واضح کریں گے کہ ان واقعات اور خبروں کے پاکستانی سیاست اور اقتصادیات پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں۔