25 جولائی 2018ء کو ہونے والے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف برسراقتدار آئی اور عمران خان ملک کے وزیر اعظم بنے۔ 25 جولائی 2019ء کو عمران خان کی حکومت کا ایک برس مکمل ہو گیا۔ حکومت کے ناقدین کے مطابق ‘عمران خان کو تاحال بہت سے اہم چیلنجز کا سامنا ہے۔ ملک اس وقت شدید اقتصادی مشکلات سے دو چار ہے۔ گزشتہ ایک برس کے دوران معیشت کی بحالی کے حوالے سے حکومتی کوششیں ناکافی ثابت ہوئی ہیں اور روپے کی قدر میں مسلسل کمی واقع ہوتی رہی ہے۔ سعودی عرب سمیت بعض ممالک نے پاکستان کی اقتصادی معاونت کی یقین دہانی کروائی ہے‘ لیکن اس کے باوجود تاحال معاشی صورتحال مستحکم نہیں ہو سکی۔ ملک کو سیاسی اعتبار سے بھی تاحال استحکام حاصل نہیں ہو سکا۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد تحریک انصاف اور اس کے سربراہ عمران خان نے مسلم لیگ (ن)پر بعض حلقوں میں دھاندلی کے الزامات لگائے تھے اور ملک بھر میں ایک تحریک کو بپا کیے رکھا تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت پر بھی ان کے ناقدین کچھ اسی قسم کے الزامات لگاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ماضی میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر لبرل ازم کے الزامات لگائے گئے ‘ عمران خان صاحب کو بھی کچھ اسی قسم کے الزامات کے سامنا ہے اور ان کے ناقدین کے مطابق‘ گو وہ مدینہ کی ریاست کا نعرہ تو لگاتے ہیں ‘لیکن عملی طور پر مدینہ کی ریاست کے حوالے سے جن اقدامات کو کرنے کی ضرورت ہے‘ وہ اقدمات ہوتے ہوئے نظر نہیں آر ہے۔ 25 جولائی کو تحریک انصاف کے حامیوں نے ملک بھر میں ''یوم تشکر ‘‘جبکہ تحریک انصاف کے مخالفین نے ''یوم ِ سیاہ ‘‘ منایا اور ملک بھر میں بڑے بڑے اجتماعات کا انعقاد کیا گیا۔
ملک میں جاری سیاسی کشمکش کی وجہ سے لوگوں کے ذہنوں میں مثالی حکمرانوں کے حوالے سے بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں۔ ہم جب کتاب وسنت پر غور کرتے ہیں تو ہمیں کامیاب حکمرانوں کے حوالے سے بہت سی اہم باتیں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ قرآن مجید نے بہت سے مثالی حکمرانوں کا ذکر کیا ہے‘ جن میں حضرت یوسف ؑ‘ حضرت طالوت‘ حضرت دا ؤد ؑ‘حضرت سلیمانؑ اور حضرت ذوالقرنین شامل ہیں۔ جب ہم ان حکمرانوں کی کارکردگی پر غور کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے معیشت کی بحالی کے ٹھوس منصوبہ بندی کی۔ حضرت طالوت نے زمین پر فساد پھیلانے والوں کا قلع قمع کیا۔ حضرت ذوالقرنین نے یاجوج وماجوج کے فتنے سے انسانیت کو بچانے کے لیے ایک مضبوط دیوار کو تعمیر کیا۔ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام نے اپنی حکومت کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی نشرواشاعت کے لیے استعمال کیا۔
نبی کریمﷺ کی سیرت میں ہمارے لیے رہنمائی موجود ہے۔ آپ ﷺنے جس وقت حضرت معاذ ؓاور حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓکو یمن کا حاکم بنا کر بھیجا‘ تو اس موقع پر ان کو بعض نصیحتیں کیں ۔ جن میں ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں کیلئے بہت سے سبق موجود ہیں‘ جو یہاں بطورِ خاص پیش خدمت ہیں :
1۔ صحیح بخاری میں حدیث ہے‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ اور ابوموسیٰ کو یمن بھیجا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر یہ ہدایت فرمائی تھی کہ ( لوگوں کے لیے ) آسانی پیدا کرنا ‘ انہیں سختیوں میں مبتلا نہ کرنا ‘ ان کو خوش رکھنا ‘ نفرت نہ دلانا ‘ اور تم دونوں آپس میں اتفاق رکھنا ‘ اختلاف نہ پیدا کرنا۔
2۔ اسی طرح صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا تو ان سے فرمایا کہ دیکھو! تم ایک ایسی قوم کے پاس جا رہے ہو‘ جو اہل کتاب ( عیسائی ‘یہودی ) ہیں۔ اس لیے سب سے پہلے انہیں اللہ کی عبادت کی دعوت دینا۔ جب وہ اللہ تعالیٰ کو پہچان لیں ( یعنی اسلام قبول کر لیں ) تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ جب وہ اسے بھی ادا کریں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر زکوٰۃ فرض قرار دی ہے‘ جو ان کے سرمایہ داروں سے لی جائے گی ( جو صاحب نصاب ہوں گے ) اور انہیں کے فقیروں میں تقسیم کر دی جائے گی۔ جب وہ اسے بھی مان لیں تو ان سے زکوٰۃ وصول کر؛ البتہ ان کی عمدہ چیزیں ( زکوٰۃ کے طور پر لینے سے ) پرہیز کرنا۔
3۔ صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو جب ( عامل بنا کر ) یمن بھیجا‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہدایت فرمائی کہ مظلوم کی بددعا سے ڈرتے رہنا کہ اس ( دعا ) کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔
ان احادیث پر جب غور کیا جاتا ہے‘ تو معلوم ہوتا ہے کہ حکمرانوں کی ذمہ داریاں مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ اللہ کی توحید کی دعوت دینا 2۔ نمازوں کو قائم کرنا3۔ امراء سے زکوٰۃ لے کر غریبوں میں تقسیم کرنا4۔ لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا اور انہیں خوش رکھنا5۔ انہیں مصیبتوں میں مبتلا نہ کرنا اور انہیں نفرت نہ دلانا 6۔ مظلوم کی بددعا سے بچنا۔ 7۔حکومتی اہلکاروں کا باہمی اختلاف سے بچنا۔
خلفاء راشدین بھی مثالی حکمران تھے ۔انہوں نے حکومت کے دوران اللہ کے حق کو بھی ادا کیا اور مخلوق کے ساتھ بھی بہترین خیر خواہی والا معاملہ فرماتے رہے۔ خلفاء راشدین نے بالعموم اور حضرت عمر ابن خطاب ؓ نے بالخصوص‘ جس انداز میں رعایا کی خدمت کی ‘وہ تاریخ کا ایک سنہری باب ہے۔ سماجی انصاف کے حوالے سے آپ کا کردار بے مثال رہا۔ اس حوالے سے آپ کی زندگی کے بعض واقعات درج ذیل ہیں:
1۔صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ عمر بن خطاب ؓنے ہنی نامی اپنے ایک غلام کو ( سرکاری ) چراگاہ کا حاکم بنایا ‘ تو انہیں یہ ہدایت کی ‘ اے ہنی! مسلمانوں سے اپنے ہاتھ روکے رکھنا ( ان پر ظلم نہ کرنا ) اور مظلوم کی بددعا سے ہر وقت بچتے رہنا ‘ کیونکہ مظلوم کی دعا قبول ہوتی ہے اور ہاں ابن عوف اور ابن عفان اور ان جیسے (امیر صحابہ) کے مویشیوں کے بارے میں تجھے ڈرتے رہنا چاہیے‘ یعنی (ان کے امیر ہونے کی وجہ سے دوسرے غریبوں کے مویشیوں پر چراگاہ میں انہیں مقدم نہ رکھنا ) کیونکہ‘ اگر ان کے مویشی ہلاک بھی ہو جائیں گے تو یہ رؤسا اپنے کھجور کے باغات اور کھیتوں سے اپنی معاش حاصل کر سکتے ہیں‘ لیکن گنے چنے اونٹوں اور گنی چنی بکریوں کا مالک (غریب) کہ اگر اس کے مویشی ہلاک ہو گئے ‘ تو وہ اپنے بچوں کو لے کر میرے پاس آئے گا ‘ اور فریاد کرے گا: یا امیرالمومنین! یا امیرالمومنین! تو کیا میں انہیں چھوڑ دوں گا؟
2۔صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بازار گئے تو وہاں ان سے ایک نوجوان عورت نے ملاقات کی اور عرض کیا کہ امیرالمومنین! میرے شوہر کی وفات ہو گئی ہے اور چند چھوٹی چھوٹی بچیاں چھوڑ گئے ہیں۔ اللہ کی قسم کہ اب نہ ان کے پاس بکری کے پائے ہیں کہ ان کو پکا لیں‘ نہ کھیتی ہے ‘ نہ دودھ کے جانور ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ فقر و فاقہ سے ہلاک نہ ہو جائیں۔ میں خفاف بن ایماء غفاری رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہوں۔ میرے والد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ حدیبیہ میں شریک تھے۔ یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس تھوڑی دیر کے لیے کھڑے ہو گئے ‘ آگے نہیں بڑھے‘ پھر فرمایا : مرحبا ‘ تمہارا خاندانی تعلق تو بہت قریبی ہے‘ پھر آپ ایک بہت قوی اونٹ کی طرف مڑے جو گھر میں بندھا ہوا تھا اور اس پر دو بورے غلے سے بھرے ہوئے رکھ دیئے۔ ان دونوں بوروں کے درمیان روپیہ اور دوسری ضرورت کی چیزیں اور کپڑے رکھ دیئے اور اس کی نکیل ان کے ہاتھ میں تھما کر فرمایا کہ اسے لے جا ‘ یہ ختم نہ ہو گا‘ اس سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ تجھے اس سے بہتر دے گا۔ ایک صاحب نے اس پر کہا : اے امیرالمومنین! آپ نے اسے بہت دے دیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : تیری ماں تجھے پرروئے ۔ اللہ کی قسم! اس عورت کے والد اور اس کے بھائی جیسے اب بھی میری نظروں کے سامنے ہیں کہ ایک مدت تک ایک قلعہ کے محاصرے میں وہ شریک رہے ‘ آخر اسے فتح کر لیا‘ پھر ہم صبح کو ان دونوں کا حصہ مال غنیمت سے وصول کر رہے تھے۔
3 ۔صحیح بخاری میں جویریہ بن قدامہ سے روایت ہے کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سنا تھا‘ ( جب وہ زخمی ہوئے ) آپ سے ہم نے عرض کیا تھا کہ ہمیں کوئی وصیت کیجئے! تو آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں اللہ تعالیٰ کے عہد کی ( جو تم نے ذمیوں سے کیا ہے ) وصیت کرتا ہوں ( کہ اس کی حفاظت میں کوتاہی نہ کرنا )
ان احادیث مبارکہ کی روشنی اس بات کا تجزیہ کرنا کچھ مشکل نہیں کہ حاکم وقت کو رعایا کی خیر خواہی کے لیے کس انداز میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ قرآن وسنت کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ بہترین حاکم وہی ہے‘ جو اللہ تبارک وتعالیٰ کے حقوق کو بھی ادا کرنے کی کوشش کرے اور مخلوق کے ساتھ بھی اس کا معاملہ بہترین ہو۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایسے ہی حکام کے حوالے سے سورہ حج کی آیت نمبر 41میں ارشاد فرمایا:''وہ لوگ جو اگر‘ ہم اقتدار دیں انہیں زمین میں (تو) وہ نماز قائم کریں اور ادا کریں زکوٰۃ اور حکم دیں نیکی کا اور وہ روکیں برائی سے۔‘‘
اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے حکمرانوں کواپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور انہیں کتاب وسنت اور خلفاء راشدین کی پیروی کرنے والا بنا دے۔( آمین)