"AIZ" (space) message & send to 7575

امانت ودیانت کے احکام

جب ہم اپنے گردوپیش پر نظر ڈالتے ہیں تو اس بات کا آسانی سے مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ لوگوں کی کثیر تعداد امانت داری کی بجائے بددیانتی اور خیانت کے راستے پر چل رہی ہے۔ ہمارے معاشرے میں کاروباری معاملات میں بدیانتی کا چلن عام ہے۔ اسی طرح ملکی سیاست میں بھی اس بات کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ سیاستدانوں کی ایک بڑی تعداد پر مالی بدعنوانیوں کے الزامات ہیں۔ ہمارے معاشرے میں سرکاری ملازموںکی بڑی تعداد بھی مالی بدعنوانیوں کا شکار ہے اور اختیارات سے تجاوز کرنے کا چلن عام ہے۔ 
اسلام نے امانت داری کی اہمیت کو بہت زیادہ اجاگر کیا ہے اور مالی معاملات کے ساتھ ساتھ زندگی کے دیگر بہت سے معاملات میں بھی امانت داری سے کام لینے کا حکم دیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نساء کی آیت نمبر 56میں ارشاد فرماتے ہیں''بے شک اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے تمہیں کہ تم سپرد کرو امانتیں ان کے اہل کو‘‘۔ اسی طرح سورہ بقرہ کی آیت نمبر 283میں ارشاد ہوا ''توچاہیے کہ ادا کرے وہ جس کے پاس امانت رکھی گئی ہے اس (قرض خواہ ) کی امانت اور چاہیے کہ وہ ڈرے اللہ سے (جو) اس کا رب ہے‘‘۔ 
سیرت النبی ﷺ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ ٔجاہلیت میں بھی لوگ نبی کریمﷺ کو صادق اور امین کہا کرتے تھے اور اعلانِ نبوت کے بعد بھی آپ ﷺ مسلسل امانت داری کا درس دیتے رہے۔حضرت ابو سفیانؓ جب ہرقل کے پاس گئے تو ہرقل نے نبی کریمﷺ کی امانت داری اور دیانت داری کا سن کر ہی یہ بات کہی تھی کہ یہ کسی نبی کی نشانیاں ہیں۔ اس حوالے سے صحیح بخاری کی حدیث درج ذیل ہے: صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابوسفیانؓ نے ان کو بتایا کہ ہرقل نے ان سے کہا تھا کہ میں نے تم سے پوچھا تھا کہ وہ ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) تمہیں کس بات کا حکم دیتے ہیں تو تم نے بتایا کہ وہ تمہیں نماز‘ سچائی‘ عفت‘ عہد کے پورا کرنے اور امانت کے ادا کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ اور یہ نبی کی صفات ہیں۔
احادیث طیبہ کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بعض لوگوں کی فطرت میں امانتداری کو ودیعت کیاگیا ہوتا ہے اور کتاب وسنت کی تعلیمات واضح ہو جانے کے بعد ان لوگوں میں امانت داری مزید بڑھ جاتی ہے جبکہ بعض لوگوں سے ان کی کوتاہیوں ‘ غلطیوں اور معاملات میں غیر ذمہ داری کی وجہ سے امانت کو سلب کر لیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے صحیح مسلم اور جامع ترمذی میں ِحضرت حذیفہ بن الیمانؓ سے روایت ہے کہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو حدیثیں بیان کیں‘ جن میں سے ایک کی حقیقت تو میں نے دیکھ لی اور دوسری کا انتظار کر رہا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا ''امانت لوگوں کے دلوں کی جڑ میں اتری پھر قرآن کریم اترا اور لوگوں نے قرآن اور سنت رسولﷺ سے اس کی اہمیت جانی۔ پھر آپؐ نے ہم سے امانت کے اٹھ جانے کے بارے میں بیان کرتے ہوئے فرمایا ''آدمی (رات کو) سوئے گا اور اس کے دل سے امانت اٹھا لی جائے گی (اور جب وہ صبح کو اٹھے گا) تو اس کا تھوڑا سا اثر ایک نقطہ کی طرح دل میں رہ جائے گا‘ پھر جب دوسری بار سوئے گا تو اس کے دل سے امانت اٹھا لی جائے گی اور اس کا اثر کھال موٹا ہونے کی طرح رہ جائے گا‘ جیسے تم اپنے پاؤں پر چنگاری پھیرو تو آبلہ ( پھپھولا ) پڑ جاتا ہے‘ تم اسے پھولا ہوا پاتے ہو حالانکہ اس میں کچھ نہیں ہوتا‘ پھر حذیفہ رضی اللہ عنہ ایک کنکری لے کر اپنے پاؤں پر پھیرنے لگے اور فرمایا ''لوگ اس طرح ہو جائیں گے کہ خرید و فروخت کریں گے لیکن ان میں کوئی امانت دار نہ ہو گا‘ یہاں تک کہ کہا جائے گا: فلاں قبیلہ میں ایک امانت دار آدمی ہے‘ اور کسی آدمی کی تعریف میں یہ کہا جائے گا: کتنا مضبوط شخص ہے! کتنا ہوشیار اور عقلمند ہے! حالانکہ اس کے دل میں رائی کے دانہ برابر بھی ایمان نہ ہو گا۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میرے اوپر ایک ایسا وقت آیا کہ خرید و فروخت میں کسی کی پرواہ نہیں کرتا تھا‘ اگر میرا فریق مسلمان ہوتا تو اس کی دینداری میرا حق لوٹا دیتی اور اگر یہودی یا نصرانی ہوتا تو اس کا سردار میرا حق لوٹا دیتا‘ جہاں تک آج کی بات ہے تو میں تم میں سے صرف فلاں اور فلاں سے خریدوفروخت کرتا ہوں۔ نبی کریمﷺ نے منافق کی تین نشانیوں میں سے ایک یہ بھی بتلائی ہے کہ وہ امانت میں خیانت کرتا ہے۔ اس حوالے سے صحیح بخاری کی حدیث درج ذیل ہے''حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں‘ جب بات کہے تو جھوٹ کہے اور جب اس کے پاس امانت رکھیں تو خیانت کرے اور جب وعدہ کرے تو خلاف کرے‘‘۔
عصری معاشروں کی طرح ہمارے معاشرے میں بھی یہ چلن عام ہے کہ سیاسی حوالے سے عہدے ان لوگوں کے حوالے کر دیے جاتے ہیں جو جماعت یا جماعت کے سربراہ کے وفادار ہوتے ہیں اور اس حوالے سے صلاحیت اور اہمیت کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔ کسی شخص کی صلاحیت کے بغیر عہدے کو اس کے حوالے کردینا بھی امانت داری کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ اس حوالے سے صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جب امانت ضائع کی جائے تو قیامت کا انتظار کرو۔پوچھا: یا رسول اللہؐ امانت کس طرح ضائع کی جائے گی؟ فرمایا :جب کام نااہل لوگوں کے سپرد کر دئیے جائیں تو قیامت کا انتظار کرو۔ا س حدیث میں لوگوں کے لیے بھی رہنمائی موجود ہے کہ انہیں اپنے امور باصلاحیت اور امانتدار لوگوں کے سپرد کرنے چاہیں اور نااہل لوگوں کو اپنا نمائندہ بنانے سے احتراز کرنا چاہیے۔ 
جب کوئی شخص سرکاری اعتبار سے کسی مال کا نگران مقرر ہوتا ہے اور وہ مال کی نگرانی اچھے طریقے سے کرتا ہے اور ادائیگی کو بھی حسبِ حکم کرتا ہے تو جہاں پر وہ سرکاری اعتبار سے اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہوتا ہے وہاں پر اس کو اجروثواب بھی حاصل ہوتا ہے ۔صحیح بخاری میں حضرت ابو موسیؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: امانت دار خزانچی جو خرچ کرتا ہے۔ بعض دفعہ یہ فرمایا کہ جو دیتا ہے حکم کے مطابق ‘کامل اور پوری طرح جس چیز ( کے دینے ) کا اسے حکم ہو اور اسے دیتے وقت اس کا دل بھی خوش ہو‘ تو وہ بھی صدقہ کرنے والوں میں سے ایک ہے۔اسلام میں امانت داری کی اہمیت اس حد تک ہے کہ کسی خائن کے ساتھ بھی خیانت کرنے کی اجازت نہیں۔ جامع ترمذی میں حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو تمہارے پاس امانت رکھے اسے امانت لوٹاؤ اور جو تمہارے ساتھ خیانت کرے اس کے ساتھ ( بھی ) خیانت نہ کرو۔ اسلام میں سیاسی اور مالی معاملات کے ساتھ ساتھ زندگی کے دیگر بہت سے شعبوں میں بھی امانت داری کی تلقین کی گئی ہے۔ کسی سے مشورہ کیا جائے تو اس کو امانت داری سے مشورہ دینا چاہیے۔ سنن ابی داؤد اور جامع ترمذی میں حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مشیر جس سے مشورہ لیا جاتا ہے اس کو امانت دار ہونا چاہیے۔
اسلام نے کسی اچھے مشن کے لیے جانے والے اشخاص کی عدم موجودگی میں ان کی بیویوں کے ساتھ بھی خیانت کرنے کی شدید انداز میں مذمت کی ہے ۔ سنن نسائی کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: مجاہدین کی بیویاں گھروں پر بیٹھ رہنے والوں کے لیے ویسی ہی حرام ہیں جیسی ان کی مائیں ان کے حق میں حرام ہیں۔ اگر وہ (مجاہد ) کسی کو گھر پر ( دیکھ بھال کے لیے ) چھوڑ گیا اور اس نے اس کی (امانت میں ) خیانت کی تو قیامت کے دن اس ( مجاہد ) سے کہا جائے گا ( یہ ہے تیرا مجرم ) یہ ہے جس نے تیری بیوی کے تعلق سے تیرے ساتھ خیانت کی ہے۔ تو ،تُو اس کی جتنی نیکیاں چاہے لے لے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :تمہارا کیا گمان ہے ‘( کیا وہ کچھ باقی چھوڑے گا؟) اللہ تبارک وتعالیٰ نے شوہر اور بیوی کی خلوت کی باتوں کو بھی امانت کی حیثیت دی ہے۔ اس حوالے سے سنن ابی داؤد میں حضرت ابو سعید ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے بڑی امانت یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی سے خلوت میں ملے اور وہ ( بیوی ) اس سے ملے پھر وہ ( مرد ) اس کا راز فاش کرے ۔انسان کو دوسروں کی راز کی باتوں کو بھی امانت کا درجہ دینا چاہیے۔ سنن ابی داؤد میں حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی شخص کوئی بات کرے‘ پھر ادھر ادھر مڑ مڑ کر دیکھے تو وہ امانت ہے ( اسے افشا نہیں کرنا چاہیے) ۔
مسند احمد اور سلسلہ احادیث الصحیحہ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ کسی آدمی کے دل میں ایمان اور کفر جمع نہیں ہو سکتے‘ اور نہ جھوٹ اور سچائی اکٹھے ہو سکتے ہیں‘ اور نہ ہی خیانت اور امانت اکٹھے ہو سکتے ہیں۔اس حدیث پاک پرغور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان کو امانت دار ہونا چاہیے اور زندگی کے تمام معاملات میں امانتداری سے کام لینا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے معاشرے میں امانت داری کو پید ا فرمائے اور جو لوگ ایمانت دار ہیں اُن کو استقامت عطا فرمائے۔ آمین 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں