دورِ جدید کا انسان سائنسی اعتبار سے بہت زیادہ ترقی کر چکا ہے۔ ذرائع رسل ورسائل اور مواصلات میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے‘ لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ اخلاقی اقدار کے حوالے سے انسان تنزلی کا شکار ہو چکا ہے۔ ماضی میں لوگ اپنے مہمانوں کو عزت دیا کرتے تھے‘ لیکن آج کا انسان وسائل کی فراوانی کے باوجود ووقت کی قلت اور تنگ دلی کا شکار ہو چکا ہے اور مہمان نوازی کو اپنے لیے ایک بوجھ تصور کر تا ہے۔ قرآن مجید نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مہمانوں کا ذکر کیا کہ جب وہ آپؑ کے پاس آئے ‘تو آپ ؑ نے ان کی ضیافت کے لیے موٹے تازے بچھڑے کا انتظام کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے فرشتے نکلے اور انہیں کھانے سے غرض نہ تھی۔
نبی کریمﷺ بھی انتہائی مہمان ونواز تھے۔ پہلی وحی کے موقع پر حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓنے آپﷺ کی جن صفات کا ذکر کیا‘ ان میں مہمان نوازی بھی شامل تھے۔ صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ پہلی وحی کے نزول کے بعد سیدہ خدیجہؓ نے کہا:آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں‘ بات سچی بولتے ہیں‘ ناداروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں‘ مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی وجہ سے پیش آنے والی مصیبتوں پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔
نبی کریمﷺ نے اپنی اُمت کو مہمانوں کی عزت کی تلقین کی ہے اور تین دن تک مہمان کی ضیافت کرنے اورکم ازکم ایک دن اور ایک رات تک اس کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کی ہے۔ اس حوالے سے بعض اہم احادیث درج ذیل ہیں:
صحیحین میں حدیث ہے کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا : ''جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے ‘اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے‘ ورنہ خاموش رہے ‘وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے اوروہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔‘‘
صحیح بخاری میں ابو شریح خزاعی سے روایت ہے کہ میرے دونوں کانوں نے سنا ہے اور میرے دل نے یاد رکھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا ''مہمانی تین دن کی ہوتی ہے‘ مگر جو لازمی ہے وہ تو پوری کرو۔‘‘پوچھا گیا لازمی کتنی ہے؟ فرمایا کہ ایک دن اور ایک رات اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے‘ اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کی خاطر کرے۔
صحیح مسلم کی ایک حدیث میں اس نکتے کی کچھ اس انداز میں وضاحت کی گئی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : ''مہمان نوازی تین دن ہے ‘ جو اس سے زائد ہے‘ وہ (اس میزبان )پر صدقہ ہے ۔‘‘
بعض لوگ اپنے میزبانوں پر بوجھ بن جاتے ہیں اور ان کے یہاں پر اضافی قیام کر کے انہیں مشقت میں ڈال دیتے ہیں۔ احادیث مبارکہ میں اس امر کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ اس حوالے سے دو اہم احادیث درج ذیل ہیں:
1۔صحیح بخاری میںابوشریح خزاعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے مہمان نوازی کے حوالے سے فرمایا: ''مہمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے میزبان کے پاس اتنے دن ٹھہر جائے کہ اسے تنگ کر ڈالے۔‘‘
2 ۔صحیح مسلم میں انہی سے روایت کی کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا : ''کسی مسلمان آدمی کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے ہاں ( ہی ) ٹھہرا رہے‘ حتیٰ کہ اسے گناہ میں مبتلا کر دے ۔ صحابہ نے پوچھا : اے اللہ کے رسول! وہ اسے گناہ میں کیسے مبتلا کرے گا؟ آپ نے فرمایا : وہ اس کے ہاں ٹھہرا رہے اور اس کے پاس کچھ نہ ہو‘ جس سے وہ اس کی میزبانی کر سکے۔
بعض لوگ حیثیت اور توفیق ہونے کے باوجود بھی مہمان کی قدر نہیں کرتے ‘ایسے لوگوں کے حوالے سے بھی حدیث مبارکہ میں بہترین انداز میں رہنمائی کی گئی ہے۔صحیح مسلم میں حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ نے ہمیں فرمایا : اگر تم کسی قوم کے ہاں اترو اور وہ تمہارے لیے ایسی چیز کا حکم دیں‘ جو مہمان کے لائق ہے تو قبول کر لو اور اگر وہ ایسا نہ کریں‘ تو ان سے مہمان کا اتنا حق لے لو جو‘ ان ( کی استطاعت کے مطابق ان ) کے لائق ہو ۔
کتب احادیث میں بعض ایسے لوگوں کا ذکر ہے‘ جنہوں نے تنگی کے باوجود مہمان نوازی کا فریضہ انجام دے کر اللہ تبارک وتعالیٰ کو راضی کر لیا۔
صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺکے پاس آیا اور کہا کہ مجھے ( کھانے پینے کی ) بڑی تکلیف ہے ۔ نبی کریمﷺ کی کسی بھی زوجہ مطہرہ کے پاس پانی کے سوا کچھ نہیں تھا ۔آپ ﷺنے فرمایا کہ آج کی رات کون اس کی مہمانی کرتا ہے؟ اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرے ‘ تب ایک انصاری اٹھا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! میں کرتا ہوں ۔ پھر وہ اس کو اپنے ٹھکانے پر لے گیا اور اپنی بیوی سے کہا کہ تیرے پاس کچھ ہے؟ وہ بولی کہ کچھ نہیں؛ البتہ میرے بچوں کا کھانا ہے ۔ انصاری نے کہا کہ بچوں سے کچھ بہانہ کر دے اور جب ہمارا مہمان اندر آئے اور دیکھنا جب ہم کھانے لگیں تو چراغ بجھا دینا ۔ پس‘ جب وہ کھانے لگا تو وہ اُٹھی اور چراغ بجھا دیا‘ وہ بیٹھے اور مہمان کھاتا رہا ؛چنانچہ میاں بیوی بھوکے رہے اور مہمان نے کھانا کھالیا ۔ جب صبح ہوئی تو وہ انصاری رسول اللہ ﷺکے پاس آیا تو آپ ﷺنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے تعجب کیا‘ جو تم نے رات کو اپنے مہمان کے ساتھ کیا ( یعنی خوش ہوا ) ۔
جب نبی کریم ﷺ کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کسی ضیافت پر مدعو کرتے تو نبی کریم ﷺ ان کے رزق میں برکت کی دعا فرمایا کرتے تھے۔ صحیح مسلم میں حضرت عبد اللہ بن بسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے والد کے ہاں مہمان ہو ئے ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کھجور پنیر اور گھی سے تیار کیا ہوا حلوہ پیش کیا ۔ آپ نے اس میں سے تناول فرما یا ‘ پھر آپ کے سامنے کھجور یں پیش کی گئیں تو آپ کھجوریں کھا رہے تھے ۔ پھر (آپ کے سامنے) مشروب لا یا گیا ۔ آپ نے اسے پیا ‘ پھر اپنی دائیں جا نب والے کو دے دیا ۔ (عبد اللہ بن بسرؓنے ) کہا : تو میرے والد نے جب انہوں نے آپﷺکی سواری کی لگا م پکڑی ہو ئی تھی‘ عرض کی : ہمارے لیے اللہ سے دعا فرما ئیے ۔ تو آپ ﷺنے ( دعا کرتے ہو ئے) فرما یا : اے اللہ !تونے انہیں جو رزق دیا ہے۔ اس میں ان کے لیے برکت ڈال دے اور ان کے گناہ بخش دے اور ان پر رحم فرما ۔
صحیح بخاری میں حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی مہمان نوازی کا بھی بڑا خوبصورت واقعہ موجود ہے۔آپ ؓکے بیٹے عبدالرحمن بیان فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر ؓاپنا ایک مہمان یا کئی مہمان لے کر گھر آئے‘ پھر آپ شام ہی سے نبی کریم ﷺکے پاس چلے گئے‘ جب وہ لوٹ کر آئے تو میری والدہ نے کہا کہ آج اپنے مہمان وں کو چھوڑ کر آپ کہاں رہ گئے تھے۔ حضرت ابوبکر ؓنے پوچھا کیا تم نے ان کو کھانا نہیں کھلایا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے تو کھانا ان کے سامنے پیش کیا‘ لیکن انہوں نے انکار کیا۔ یہ سن کر ابوبکر رضی اللہ عنہ کو غصہ آیا اور انہوں نے ( گھر والوں کی ) سرزنش کی اور دکھ کا اظہار کیا اور قسم کھا لی کہ میں کھانا نہیں کھاؤں گا۔ عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں تو ڈر کے مارے چھپ گیا تو آپ نے پکارا اور کہا !کہ کدھر ہے تو اِدھر آ۔ میری والدہ نے بھی قسم کھا لی کہ اگر وہ کھانا نہیں کھائیں گے تو وہ بھی نہیں کھائیں گی۔ اس کے بعد مہمانوں نے بھی قسم کھا لی کہ اگر ابوبکر ؓ نہیں کھائیں گے تو وہ بھی نہیں کھائیں گے۔ آخرحضرت ابو بکر ؓنے کھانا منگوایا اور خود بھی مہمانوں کے ساتھ کھایا ( اس کھانے میں یہ برکت ہوئی ) جب یہ لوگ ایک لقمہ اٹھاتے تو نیچے سے کھانا اور بھی بڑھ جاتا تھا۔ حضرت ابوبکر ؓنے کہا: اے بنی فراس کی بہن! یہ کیا ہو رہا ہے‘ کھانا تو اور بڑھ گیا۔ انہوں نے کہا کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک! اب ‘یہ اس سے بھی زیادہ ہو گیا۔ جب ہم نے کھانا کھایا بھی نہیں تھا۔ پھر سب نے کھایا اور اس میں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجااور آپ نے بھی اس کھانے میں سے کھایا۔
مہمانوںکی اچھے طریقے سے ضیافت کرنا تبلیغی اعتبار سے بھی موثر ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺکے پاس ایک مہمان آیا‘ وہ شخص کا فر تھا۔ رسول کریم ﷺنے اس کیلئے ایک بکری کا دودھ دوہنے کا حکم دیا۔ اس نے دودھ پی لیا ‘پھر دوسری بکری کا دودھ دوہنے کا حکم دیا۔ اس نے اس کو بھی پی لیا ‘ پھر ایک اور (بکری کا دودھ دوہنے) کا حکم دیا۔اس نے اس کا بھی پی لیا ‘ حتیٰ کہ اس نے اسی طرح سات بکریوں کا دودھ پی لیا‘ پھر اس نے صبح کی تواسلام لے آیا۔ رسول کریمﷺ نے اس کیلئے ایک بکری کا دودھ دوہنے کا حکم دیا۔ اس نے وہ دودھ پی لیا ‘پھر دوسری بکری کا دودھ دوہنے کا حکم دیا ‘ وہ اس کا سارا دودھ نہ پی سکا تو رسول کریم ﷺنے فرما یا : مسلمان ایک آنت میں پیتا ہے‘ جبکہ کافر سات آنتوں میں پیتا ہے ۔
مندرجہ بالا احادیث سے مہمان داری کی اہمیت کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو مہمانوں کی عزت وتکریم کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔( آمین)