ستمبر کی 6 اور7 تاریخ کے ساتھ ملک و ملت سے وابستگی رکھنے والوں کی بہت سی قیمتی اور انمول یادیں وابستہ ہیں۔چھ ستمبر1965ء پاکستان کی تاریخ کا ایک ایسا دن ہے جب ہماری بہادر افواج نے پاکستان کے دفاع کے جذبے سے سرشار قوم کی ہمراہی میں بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا۔ بھارت سیالکوٹ اور لاہورکے محاذوں پر پوری قوت سے پیش قدمی کرنا چاہتا تھا‘ لیکن افواج پاکستان اور پاکستانی قوم نے اس کی جارحیت کو بری طرح ناکام بنا دیا۔ اتحاد ‘ایمان ‘ تنظیم اور جذبہ جہاد سے سرشار فوج اورقوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح دشمن کے سامنے سینہ سپر ہو گئی‘ جس جذبے کے ساتھ 6ستمبر1965 ء کو پاکستانی فوج اور قوم نے ملک کا دفاع کیا ‘آج ایک مرتبہ پھر اسی جذبے کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ پوری قوم کو علاقائی‘ لسانی اور مذہبی دھڑے بندیوں سے بالاتر ہو کر ملک اور ملت کے دفاع کے لیے متحد ہو کر افواج پاکستان کی ہمراہی میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار رہنا ہو گا۔ مودی نے گزشتہ چند دنوں کے دوران‘ جس قسم کے جارحانہ اور منفی عزائم کا اظہار کیا ہے ‘اس کے حوصلوں کو پست کرنے کے لیے پاکستان کی قوم کو ایک مرتبہ پھر 6 ستمبر والے ولولے کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ وطن کے دفاع کے حوالے سے پاکستانی قوم میں آج بھی جوش وخروش کی کمی نہیں ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم کو ذمہ داری کا احساس دلایا جائے اور انہیں وطن کے دفاع کے حوالے سے کسی بھی چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کیا جائے۔ کشمیر کے محاذ پر پاکستانی فوج پوری طرح نظر رکھے ہوئے ہے اور حالیہ دنوں میں نشر ہونے والے فوجی ترجمان کے بیانات اس بات کو ثابت کررہے ہیں کہ ہماری افواج کا مورال بلند ہے اور وہ کسی بھی لمحے بھارتی دباؤ کو قبول کرنے کے لیے آمادہ وتیار نہیں۔ افواج جہاں پر عزم‘ تربیت اور اسلحے کے ساتھ لڑتی ہے ‘وہیں پر قوم کی پشت پناہی بھی ان کی ہمت بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے؛ چنانچہ پاکستانی قوم کو ان ایام میں اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے۔
7 ستمبر 1974ء بھی پاکستانی تاریخ کا اہم دن تھا۔ 6 ستمبر 1965ء کو جہاں پر افواج پاکستان نے پاکستان کے دفاع کو یقینی بنایا‘ وہیں پر 7 ستمبر 1974 کے دن عقیدے کے دفاع کو یقینی بنانے کے لیے پوری قوم یکسو ہو گئی اور منکرین ختم نبوت کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا گیا۔ قرآن مجید کی آیات‘ احادیث طیبہ اور اجماع اُمت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نبی کریم ﷺکے بعد کسی نبی کے آنے کی کوئی گنجائش نہیں ‘لیکن مختلف ادوار میں بعض سازشی اور بھٹکے ہوئے عناصر عقیدہ ٔ ختم نبوت کی ایک نئی تشریح کرکے اُمت کو تقسیم کرنے کے ناپاک جسارت کرنے میں مصروف رہے۔ کتاب وسنت کی واضح تعلیمات اور اجماع اُمت کے باوجود قیام پاکستان اور اس کے بعد بھی قادیانی اورا ن کے ہمنوا عقیدہ ختم نبوت کو کسی بھی طور پر قبول کرنے پر آمادہ وتیار نہ تھے؛ چنانچہ علمائے دین نے ایک لمبی تحریک کو چلایا اور اس حوالے سے رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے زبردست انداز میں جستجو کی۔ تمام مکاتب فکر کے جید علمائے کرام نے اس حوالے سے اپنا اپنا کردار ادا کیا۔ مولانا محمد حسین بٹالوی‘ مولانا ثناء اللہ امرتسری‘ مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی‘ پیر مہر علی شاہ‘ پیرجماعت علی شاہ‘ انور شاہ کاشمیری‘ عطاء اللہ شاہ بخاری‘ حافظ محمد گوندلوی‘ مفتی محمود احمد‘ مولانا شاہ احمد نورانی‘ علامہ احسان الٰہی ظہیر‘ حافظ عبدالقادر روپڑی‘ مولانا صفی الرحمن مبارکپوری‘ مظفر علی شمسی‘ آغا شورش کاشمیری‘مولانا ابراہیم کمیر پوری اور دیگر نمایاں عمائدین نے اس تحریک کو چلانے کے لیے اپنا کردار ادا کیا۔ علماء نے مختلف مقامات پر منکرین ختم نبوتﷺ سے مناظرے بھی کیے اور جلسے‘ جلوسوں اور اجتماعات سے خطاب بھی کیا۔
بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان کا اخبار ''زمیندار‘‘ا س حوالے سے مسلسل برصغیر کے مسلمانوں کی رہنمائی کرتا رہا۔ مولانا ظفر علی خان کے بعد ان کے شاگردرشید آغا شورش کاشمیری نے بھی''چٹان‘‘ کے درجنوں اداریے اور مضامین اسی عنوان پر لکھے۔ علمائے دین نے رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے مختلف ادوار میں مختلف تحریکیں چلائیں۔ 1953ء کے بعد 1970ء کے اوائل میں بھی بھرپور انداز میں اس مسئلے کو اُٹھایا گیا اور ریاست پاکستان سے اس بات کا مطالبہ کیا گیا کہ وہ لوگ جو ختم نبوتﷺ کا انکار کرنے والے ہیں ‘ان کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا جائے۔ بعض لوگ عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ جزوی یا فروعی اختلاف ہے ؛ حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ اختلاف اسلام کے پہلے رکن ‘یعنی ''شہادتین‘‘کی تشریح کے حوالے سے پایا جانے والا بنیادی اختلاف ہے۔ اگر کلمہ طیبہ کے تقاضے پورے نہ ہوں تو باقی ارکان اسلام کی ادائیگی بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔ اللہ کی توحید اور وحدانیت کے ساتھ ساتھ نبی کریم ﷺ کی رسالت اور ختم نبوت کو تسلیم کرنا بھی ہر مسلمان کے لیے ازحد ضروری ہے ۔ اس حوالے سے جب قرآن مجید کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ قرآن مجید نے بھی اس عقیدے کو مختلف انداز میں واضح کیا ہے۔ اللہ نے نبی آخرالزمان کو مشرق و مغرب‘ شمال و جنوب‘کالوں اورگوروں‘ امیر و غریب اور قیامت تک آنے والے ہر انسان کی رہنمائی کے لیے مبعوث فرمایا اور سورہ اعراف کی آیت 158اور سورہ سبا کی آیت 28 میں واضح فرما دیا کہ رسول اللہﷺ جمیع انسانیت کے لیے اللہ کے پیغمبر ہیں اور تمام انسانیت کے لیے خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجے گئے ہیں۔
مذکورہ آیات واضح کرتی ہیںکہ جمیع انسانیت کی ہدایت اور نگہبانی کے لیے اب کسی رسول اور نبی کی ضرورت نہیں‘اس لیے کہ یہ فریضہ اللہ تعالیٰ جناب رسول اللہ ﷺ کو تفویض فرماچکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ احزاب کی آیت 40 میں بھی واضح فرمادیا کہ '' محمد(ﷺ ) تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں‘ لیکن اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں اور اللہ ہر چیزکو جاننے والا ہے۔‘‘ یعنی جس طرح وہ کسی مردکے باپ نہیں‘اسی طرح آپﷺ کے بعدکوئی نبی بھی نہیں ہوسکتا۔ ختم نبوت کا انکارکرنے والے گروہ نے آیت میں ''خاتم النبیین‘‘ کا ترجمہ نبیوںکی مہرکرکے لوگوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کی؛ حالانکہ ہرذی شعوراس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ کسی چیز پر مہر اس کی تکمیل کے بعد ہی لگائی جاتی ہے۔ جب کسی پیمانے یا دستاویز کو سیل بند کردیا جاتا ہے تو مہرکوتوڑے بغیراس میںکسی چیزکو داخل نہیں کیا جاسکتا۔ جب نامکمل چیز پر مہر نہیں لگ سکتی اور مہر لگ جانے کے بعد اس میںکوئی چیز داخل نہیں ہوسکتی تو یہ بات بھی بالکل واضح ہوگئی کہ رسول اللہﷺ کے آنے کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہوگیا ہے اور آپ ؐکی آمدکے بعدکوئی دوسرا نبی نہیں ہوسکتا۔ یہی گروہ حضرت عیسیٰ ؑ کی دوبارہ دنیا میں تشریف آوری کو بنیاد بناکر لوگوںکو دھوکہ دینے کی کوشش کرتا ہے کہ اگرحضرت رسول اللہﷺکے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا تو حضرت عیسیٰ ؑ کیونکرآئیںگے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کو نبوت حضرت رسو ل اللہ ﷺ سے پہلے ملی اور آپ کے زندہ آسمانوں کی طرف اٹھائے جانے کے بعد اس دنیا میں دوبارہ نازل ہونے سے حضرت رسول اللہ ﷺ کے بعدکسی نئے شخص کو نبوت ملنے کا ثبوت نہیں ملتا۔ نبوت کا دروازہ بند ہونے سے قبل ہی حضرت عیسیٰ ؑنبی تھے۔ نبوت کا دروازہ بند ہوجانے کے بعدکسی نئے نبی کا کوئی امکان باقی نہیں رہا۔
جہاں قرآن مجید نے مسئلہ ختم نبوت کو واضح کردیا‘ وہیں احادیث مبارکہ سے بھی اس مسئلے کی خوب وضاحت ہوتی ہے۔ اس حوالے سے بعض احادیث درج ذیل ہیں :
صحیح بخاری و صحیح مسلم ‘ مسند احمد بن حنبل اور سنن الکبریٰ للبیہقی میںحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا میری اور سابق نبیوںکی مثال ایک شخص کی ہے ‘جس نے ایک خوب صورت گھر بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی چھو ڑ دی۔ لوگ اس گھرکو دیکھ کراس کی خوبصورتی پر تعجب کرتے ہیں‘ مگر کہتے ہیں کہ کیا خوب ہو اگر اینٹ اپنی جگہ پر لگا دی جائے‘ پس میں وہ اینٹ ہوں اور میں آخری نبی ہوں ۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میںحضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی‘ جب تک تیس بڑے جھوٹے نہیں آئیں گے اور ان میں سے ہر ایک کا یہ دعویٰ ہوگاکو وہ اللہ کا رسول ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب جنگ تبوک کے لیے نکلے تو آپ ؐ نے حضرت علیؓ کو مدینہ میں اپنانائب مقررکیا۔ حضرت علی ؓ نے عرض کی کہ کیا آپ مجھے بچوں اور عورتوں کے پاس چھوڑکرجانا چاہتے ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ اے علی! کیا آپ اس بات پر خوش نہیںکہ آپ کو مجھ سے وہی نسبت ہو جو موسیٰ ؑکی ہارون ؑ سے ہے‘ مگر میرے بعدکوئی نبی نہیں۔ صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ بنی اسرائیل کے لوگوں پر انبیاء کرام حکومت کرتے رہے اور ان کی رہنمائی بھی کرتے رہے۔ جب ایک نبی کا انتقال ہوجاتا تو دوسرا نبی ان کی جگہ لے لیتا۔ میرے بعدکوئی نبی تو نہیں ہوگا ‘تاہم خلفاء ہوںگے اورتعداد میں بہت ہوںگے۔ سنن ترمذی میں حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میرے بعد تیس بڑے جھوٹے آئیں گے اور ان میں سے ہر ایک کا یہ دعویٰ ہوگا کہ وہ نبی ہے‘ جبکہ میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔
دفاع وطن کے ساتھ ساتھ کتاب وسنت اور اجماع اُمت سے ثابت شدہ اس عقیدے کے دفاع کے لیے بھی ہمیں ہمہ وقت اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے‘ تاکہ جغرافیے اور عقیدے کے دفاع کو یقینی بنایا جا سکے!