"AIZ" (space) message & send to 7575

اسلامی کانفرنس برمنگھم

مرکزی جمعیت اہل حدیث برطانیہ ایک منظم تنظیم ہے‘ جس کے تحت ہر سال برمنگھم میں ایک بھرپور کانفرنس کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں برطانیہ کے طول وعرض سے بڑی تعداد میں لوگ شرکت کرتے ہیں۔ 15 ستمبر کو ایک مرتبہ پھر مرکزی جمعیت نے اُمت مسلمہ کو درپیش چیلنجز‘ حجیتِ حدیث اور عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت کو اُجاگر کرنے کے لیے ایک کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیااور مجھے بھی اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ ماضی میں بھی میں برمنگھم کانفرنس میں شرکت کر چکا ہوں ا ور دنیا سے آنے والے دیگر مہمانوں کے ہمراہ اپنی گزارشات کو کانفرنس کے شرکا اور منعقد کرنے والے دوست احباب کے سامنے رکھ چکا ہوں۔ حافظ حبیب الرحمن جو کہ جمعیت کے ناظم اعلیٰ ہیں ‘کے میرے ساتھ برادرانہ اور دوستانہ تعلقات ہیں۔ انہوں نے مجھے اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی اور میرے ذمے یہ عنوان لگایا کہ میں'' حجیت حدیث‘‘ کے موضوع پر اپنی گزارشات کو برطانیہ کے دوست احباب کے سامنے رکھوں ۔ میں نے اُن کی مخلصانہ اور پرخلوص دعوت کو قبول کیا اور برطانیہ کے دورے کے لیے آمادہ ہو گیا ۔
13 ستمبر کو مرکز قرآن وسنہ لارنس روڈ میں جمعہ پڑھانے کے بعد میں اسلام آباد کے لیے روانہ ہوگیا۔ اسلام آباد میں رات قیام کرنے کے بعد ہفتے کو 11 بجے پی آئی اے کی پرواز کے ذریعے اسلام آباد سے برمنگھم پہنچ گیا۔ برمنگھم پہنچنے پر جمعیت اہلحدیث کے نمائندگان شیر خان‘ جمیل اور بھائی یعقوب ہوائی اڈے پر استقبال کے لیے موجود تھے۔ انہوں نے بڑے پرتپاک انداز سے استقبال کیا اور مجھے ایک مقامی ہوٹل میں قیام کے لیے لے گئے۔ رات کو گرین لین مسجد میں مغرب اور عشاکی نمازوں کی ادائیگی کے بعد میزبانوں نے پرتکلف دعوت کا اہتمام کیا۔ دعوت میں مرکزی جمعیت برطانیہ کے امیر مولانا ابراہیم میر پوری‘ ناظم اعلیٰ حافظ حبیب الرحمن‘ ڈاکٹر عبدالہادی عمری‘مولانا شریف اللہ شاہد‘ مولانا عبدالستار عاصم اور دیگر احباب شامل تھے۔ گزشتہ سال اکتوبر کے بعد اس سال ستمبر میں جب میں دوبارہ برطانیہ پہنچا تو یوں محسوس ہوا کہ وقت بڑی تیزی سے بیت چکا ہے اور یوں احساس ہو رہا تھا کہ میں چند دن قبل ہی برطانیہ میں موجود تھا۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ انسان کی زندگی کے ماہ وسال بڑی تیزی سے گزر جاتے ہیں۔ انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی اس قیمتی نعمت اور عظیم متاع کی قدر کرنی چاہیے اور اس کو ضائع ہونے سے بچانا چاہیے۔ بہترین لوگ وہی ہیں جو اپنی زندگی کو بامقصد انداز میںگزارتے ہیں اور وقت کی اس عظیم نعمت کو ضائع ہونے سے بچاتے ہیں۔ روحانی ‘ مادی‘ سماجی اورسیاسی عروج انہی لوگوں کا مقدر بنتا ہے جو وقت کی قدروقیمت کو پہچان جاتے ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ اس عظیم نعمت کو ضائع کر بیٹھتے ہیں دنیا و آخرت کی ناکامیاں اور نامرادیاں ان کامقدر بن جاتی ہیں۔ تیزی سے گزرتا ہوا وقت انسان کو اس بات کا بھی احساس دلاتا ہے کہ دنیا میں اس کا قیام عارضی ہے اور اس کو تھوڑے ہی عرصے کے بعد دنیا سے کوچ کرکے اپنے پروردگار کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے۔ پرتکلف ضیافت میں پاکستان اور ہندوستان سے آئے ہوئے معزز مہمان بھی موجود تھے۔ پنجاب یونیورسٹی شعبہ اسلامیات کے ڈین ڈاکٹر حماد لکھوی اور اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن رانا شفیق پسروری کے علاوہ انڈیا کے مشہور مبلغ ایڈووکیٹ فیض سید بھی اس دعوت میں موجود تھے۔ اس دعوت کے روح رواں برطانیہ کی جمعیت کے امیر مولانا ابراہیم میر پوری تھے‘ جو اپنی سماجی ‘مذہبی اور انسانی خدمات کے حوالے سے برطانیہ میں ایک ممتاز حیثیت کے حامل ہیں۔ کھانے کے اختتام پر دوبارہ ہمیں ہوٹل پہنچایا گیا اور 14ستمبر کا دن اپنے جلو میں خوشگوار یادیں لیے ہوئے رخصت ہو گیا۔ 15ستمبر کو کانفرنس ظہر کی نماز سے قبل شروع ہوئی اور پہلے سیشن کو انگلش میں مکمل کیا گیا جبکہ اُردوسیشن کا آغاز ظہر کی نماز کے بعد ہوا۔ اس سیشن میں رانا شفیق پسروری‘ ایڈووکیٹ فیض سید‘ ڈاکٹر حماد لکھوی اور حافظ حبیب الرحمن نے بڑے خوبصورت اور بلیغ انداز میں اپنی اپنی آرا کو حاضرین کے سامنے رکھا۔ ڈاکٹر حماد لکھوی نے اُمت مسلمہ کے زوال کی بنیاد عقیدے اور ایمان کی کمزوری کوقرار دیا۔انہوں نے عقیدے او ر ایمان کی ناپختگی کے اسباب بھی بڑے ہی خوبصورت انداز میں بیان کیے۔کانفرنس میں مسئلہ کشمیر کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا گیا اور کشمیریوں کے ساتھ ہونے والے ظلم کی بھرپور انداز میں مذمت کی گئی ۔ اسی طرح مغربی معاشروں میں پائے جانے والے الحادی افکار اور بے راہ روی پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے والدین او اساتذہ کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی ترغیب دی گئی۔ اس کانفرنس سے مجھے بھی دین اور خصوصاً حدیث کی اہمیت کے حوالے سے اپنی چند گزارشات کو سامعین کے سامنے رکھنے کا موقع ملا جن کو میں قارئین کے سامنے بھی رکھنا چاہتا ہوں:
اسلام اللہ تبارک وتعالیٰ کا منتخب اور پسندیدہ دین ہے۔ یہ دین یقینا ہر اعتبار سے کامل اور مکمل ہے ۔ اس دین کی بنیاد اللہ تبارک وتعالیٰ کی وحی اور پیغمبر زماں صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات عالیہ ہیں۔قرآن مجید نے عرب معاشرے میں ایک غیر معمولی انقلاب کو پیدا کیا۔ بتوں کی پوجا کرنے والے اللہ تبارک وتعالیٰ کے آستانے پر جھکنے والے‘اسی طرح شراب کے نشے میں مدہوش لوگ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت کرنے والے اور بیٹیوں کو زندہ درگور اورعورتوں کی عزتوں کو پامال کرنے والے لوگ صرف اپنی ہی بیٹیوں کی عزتوں کے رکھوالے نہیں بنے بلکہ غیروں کی بیٹیوں کی عزتوں کے بھی نگہبان بن گئے۔ 
قرآن مجید جہاں پر اعتقادی‘ عملی‘ سماجی اور سیاسی حوالے سے ایک زبردست اور غیر معمولی کتاب ہے وہیں پر یہ کتاب انسانوں کے لیے شفا یابی کا بھی سبب ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کے اندر غیر معمولی معجزاتی اثرات کو بھی سمو دیا ہے۔اس کے غیر معمولی روحانی اور نفسیاتی اثرات ہر دور میں مسلمان بڑے گہرے انداز میں محسوس کرتے رہے ہیں۔ ہر دور میں بہت سی لا علاج بیماریوں اور شیطانی اثرات کا شکار لوگوں کو قرآن مجید کی تلاوت کے ذریعے شفا ملتی رہی ہے۔ قرآن مجید کے ان غیر معمولی اور انقلابی اثرات کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کی حفاظت کا بھی غیر معمولی انتظام فرمایا۔ قرآن مجید کو صرف کتابت ہی کے ذریعے محفوظ نہیںکروایا بلکہ اس کوانسانوں کے دلوں میںبھی ہمیشہ کے لیے محفوظ ومامون کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کی تشریح ‘ توضیح اور صحیح مفہوم کو حضرت رسول اللہ ﷺ کے ذریعے کائنات کے لوگوں تک پہنچا دیا۔ دنیا کی ہر زبان میں کئی الفاظ بیک وقت بہت سے معانی کواپنے اندر سموئے ہوئے ہوتے ہیں ۔ عربی بھی ایک فصیح وبلیغ زبان ہے ‘ اس میں بھی کئی الفاظ کے درجنوں اور بیسیوں معانی ہیں؛ چنانچہ اس کے درست مفہوم اور مطلب کو لوگوں کے سامنے پیش کرنے ‘ جو اللہ تبارک وتعالیٰ کا پسندیدہ ہو ‘کی ذمہ داری نبی کریمﷺ کی ذات اقدس کو تفویض کی گئی۔نبی کریمﷺ نے قرآن مجید کے مفہوم اور مطلوب کو اس انداز میں متعین کر دیا کہ اس کی بلیغ آیات کو سمجھنا انتہائی آسان ہو گیا؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادات سے متعلقہ جملہ احکام جن کا تعلق نماز‘ روزے‘ حج ‘زکوٰۃ اور دیگر نفلی عبادات سے تھا‘کو نبی کریم ﷺ نے انتہائی سہل انداز میں قولی اور عملی طور پر اُمت مسلمہ کے سامنے رکھ دیا۔ اسی طرح بہت سے باریک اور دقیق نکات کو بھی نبی کریمﷺ نے نہایت احسن انداز میں واضح فرما دیا۔ اب اگر کوئی شخص اللہ تبارک وتعالیٰ کے مطلوبہ اور پسندیدہ طریقے کے مطابق اپنی زندگی کو بسرکرنا چاہتا ہے تو اس کو نبی کریمﷺ کے اسوہ حسنہ کی طرف مراجعت کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی شخص حدیث کو نظر انداز کرکے تنہا قرآن سے رہنمائی حاصل کرنے کی بات کرتا ہے تو سچی بات یہ ہے کہ ایسا شخص نمازوں کی تعداداور اس کی رکعتوں کا تعین بھی نہیں کر سکتا‘ حج کے مہینوں کو بھی معلوم نہیں کر سکتا‘ زکوٰۃ کے نصاب کو واضح بھی نہیں کر سکتا اور روزے کو توڑ دینے والی اور اس میں فساد پیدا کرنے والی چیزوں کا تعین بھی نہیں کر سکتا۔ یہ تمام کام تب ہی ممکن ہیں جب انسان کا تعلق قرآن کے ساتھ ساتھ سنت نبوی شریف کے ساتھ ہو۔ بعض لوگ حدیث پاک کو اپنی عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں‘جبکہ اس کے برعکس قرآن مجید میںبیان کردہ حقائق کی عقلی توجیح نہ بھی پیش کر سکیں تو اس کو ایمان کی بنیاد پر تسلیم کر لیتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بن باپ کے ولادت ہر مسلمان کے علم ہے لیکن بعض لوگ آپ کے نزول کے حوالے سے عقل کی بنیاد پر کئی مرتبہ تحفظات کا اظہار کرتے ہیں۔ اہل علم اور ایمان اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کے کلام پر یقین رکھنا ایمان کا تقاضا ہے اسی طرح نبی کریمﷺ کے ثابت شدہ واضح فرامین پر یقین رکھنا بھی ہمارے ایمان کی اساس ہے۔ اگر کوئی سیدھے راستے پر چلنا چاہتا ہے تو اس کو قرآن مجید کے ہی اس پیغام کو سمجھ لینا چاہیے کہ یقینا رسول اللہ ﷺ کی زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے‘ اسی طرح جو شخض آپ کی اتباع کرتا ہے ‘اس کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبت حاصل ہوتی ہے اور جو شخص آپ کی اطاعت کرتا ہے درحقیقت وہ اللہ ہی کی اطاعت کرتا ہے۔ اہل ایمان واسلام کو اس دور پر آشوب میں تجدد پسندی کا شکار ہو کر آپﷺ کے اسوۂ حسنہ سے انحراف کرنے کی بجائے آپؐ کی حدیث وسنت سے تمسک اختیار کرنا چاہیے۔ اسی طریقے سے ہم دنیا اور آخرت کی کامیابیوں کو حاصل کر سکتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ وتعالیٰ ہمیں کتاب وسنت سے وابستگی اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں