"AIZ" (space) message & send to 7575

تارکین وطن کے ملی و دینی مسائل

آسٹریلیا‘ امریکہ‘ برطانیہ ‘کینیڈا ‘ اور دیگر بہت سے مغربی ممالک میں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد اپنی فیملیز کے ہمراہ اپنے وطن اور رشتہ داروں سے دُور‘ روزگار کے حصول کے لیے آباد ہو چکی ہے۔ یہ لوگ تجارت‘ محنت مزدوری اور جفا کشی کے ذریعے اپنے رزق کے حصول کے حوالے سے سر گرم رہتے ہیں۔ اس دوران جہاں بہت سے لوگوں کو مالی اعتبار سے استحکام اور فراوانی حاصل ہوئی ہے‘ وہیں پر ان کو بہت سے ملی و دینی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان مسائل کے حوالے سے یہاں پر آباد لوگ گاہے بگاہے پریشانی کا اظہار کر تے ہیں اور ان کے تدارک کے لیے اہل علم اور دانشوروں سے رہنمائی بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔حالیہ دورہ برطانیہ کے دوران مجھ سے بھی بہت سے لوگوں نے مختلف موضوعات اور مسائل پر گفتگو کی ۔ ماضی کے مشاہدات اور حالیہ گفتگو کے دوران میں نے یہ محسوس کیا کہ تارکین وطن جن ملی و دینی مسائل کا شکار ہیں‘ ان میں سے بعض اہم درج ذیل ہیں:۔
1۔ عقیدے اور فکر کا انتشار:بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد اعتقادی اور فکری اعتبار سے مختلف طبقہ ہائے فکر اور مذاہب کے پیروکاروں کے ہمراہ رہنے کی وجہ سے ذہنی اعتبار سے خلفشار کا شکار ہو چکی ہے۔ بالخصوص ان ممالک میں بسنے والے بہت سے افراد کی اولادیں فکری اور اعتقادی اعتبار سے مذہب کے حوالے سے مختلف طرح کے اشکالات کا شکار نظر آتی ہیں۔ بعض نوجوان فقط اسلام ہی سے نہیں‘ بلکہ مذہب سے بھی بدگمان ہو چکے ہیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات اور ایمان بالغیب کے حوالے سے تشکیک کا شکار ہیں۔ ایسے نوجوان جب اپنے والدین سے دینی معاملات میں رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کے والدین بھی دینی اعتبار سے ان کی رہنمائی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔ کم علمی اور معاشی سرگرمیوں میں جذب رہنے کی وجہ سے جب والدین اپنے بچوں کے ذہنوں میں اُٹھنے والے سوالات کا جواب دینے سے قاصر ہو جاتے ہیں تو بچوں کی ذہنی پراگندگی ‘انتشار اور خلفشار میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ نتیجتاً کئی لوگ سرے ہی سے ایمان کی نعمت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ مادی استحکام کے حصول کی جدوجہد کے دوران ایمان کی نعمت سے محروم ہو جانا یقینا ہر اعتبار سے قابل تشویش ہے۔دیکھنے میں آیا ہے کہ فکری اور ذہنی الجھنوں کے تدارک کے لیے اپنی اولادوں کو کتاب وسنت کی تعلیمات سے بہرور کرنا اور زیور تعلیم سے آراستہ وپیراستہ کرنا انتہائی ضروری ہے‘لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ والدین کی ایک بڑی تعداد نے اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کیا۔ نتیجتاً کئی نوجوان مختلف قسم کا لٹریچر پڑھنے اور مختلف طرح کے لوگوں سے ملنے کی وجہ سے مذہب کی اہمیت اور افادیت کو فراموش کرکے مشینی انداز میںاپنے معاشی مستقبل کو بہتر کرنے کی خواہشات کو لیے ہوئے پروان چڑھ رہے ہیں۔
2۔ بے راہ روی: اعتقادی اور فکری گمراہی کے بعد بے راہ روی بھی مغربی معاشروں میں عروج پر نظر آتی ہے۔ مغربی اخلاقیات میں پردہ داری اور حیاء کو خاطر خواہ اہمیت نہیں دی جاتی ۔مغربی دانشور اور مفکرین بے حیائی‘ فحاشی اور عریانیت سے اجتناب کو اخلاقی اقدار کا ضروری حصہ نہیں سمجھتے اور اس حوالے سے پائی جانے والی بے اعتدالیوں کو ذاتی انتخاب اور پسند کے ساتھ تعبیرکرتے ہیں۔ ان کے نزدیک حیاء داری یا بے حیائی کی زندگی گزارنا ہر فردکا ذاتی معاملہ ہے۔جس میں معاشرے ‘ والدین اور رشتہ داروں کو مداخلت کا کوئی حق نہیںہے۔یہ فکر رفتہ رفتہ پاکستانی نوجوانوں میں بھی سرائیت کرتی جا رہی ہے‘ جس کی وجہ سے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بے راہ روی کا شکار ہو چکی ہے۔ 
وا لدین فقط اولاد نرینہ کے حوالے سے ہی پریشانی اور تشویش کا شکارنہیں ‘بلکہ اپنی بیٹیوں کی سوچ وفکر اور اخلاقیات کے حوالے سے بھی تشویش کا شکار ہیں۔اس ضمن میں مغربی معاشروں میں بسنے والے والدین کو اپنی ذمہ داریوں کونبھانے کی ضرورت ہے اور اپنی اولادوں کی تربیت کے دوران ان کو پردے داری اور حیاء کی اہمیت کا احساس دلانے کے لیے کوشاں رہنا انتہائی ضروری ہے۔ اولادوں کو دینی ماحول فراہم کرنا اور اچھے لوگوں سے منسلک رکھنے کے حوالے سے اپنی توجہات کو مرتکز کرنا بھی یقینا والدین کے فرائض میں شامل ہے۔ والدین کی فقط یہی ذمہ داری نہیں کہ وہ اپنی اولادوں کی معاشی کفالت کے لیے کوشاں رہیں ‘بلکہ ان کی یہ بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کے کردار اور اخلاقی حالت پر گہری نظر رکھیں اور ان کی اخلاقی اعتبار سے بھر پور تربیت کریں ‘تاکہ ان کی اولادیں اخلاقی گراوٹ کا شکار نہ ہوں اور وہ مغربی معاشروں میں رہتے ہوئے بھی اپنے دینی اور معاشرتی پس منظر کو اپنے سامنے رکھیں۔ 
3۔اچھے رشتوں کی کمی: مغربی معاشرے میں بسنے والے والدین اپنی بیٹیوں کے رشتوں کے حوالے سے بھی پریشانی کا شکار ہیں اور ان کو معیاری رشتے ملنے میں خاصی دشواری کا سامنا ہے ۔ ان معاشروں میں رہنے والے بہت سے لوگ اپنی بیٹیوں کے سماجی مستقبل اور عائلی زندگی کے حوالے سے خوفزدہ نظر آتے ہیں۔ اپنے معاشرے سے دور رہنے کی وجہ جہاں پر وہ ایک اقلیتی گروہ کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں‘ وہیں پر انہیں علاقوں اور برادریوں کی بنیاد پر مزید تقسیم در تقسیم کا شکار ہو نے کی وجہ سے مثبت رشتوں کے حصول میں مزید مشکلات اور دشواریوں کا سامنا ہے۔ عام طور پر لوگ اپنی برادریوں اور اپنے علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے ہی رشتہ کرنے کو پسند کرتے ہیں اور دیگر بہت سی اہم خوبیوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اس طرز عمل کی بنیادی وجہ رشتوں کے چناؤ کے حوالے سے اسلامی تعلیمات سے دوری ہے۔ اسلام میں رشتوں کے چناؤ کا معیار انسان کا دین اور اخلاق ہے اور اچھے اخلاق اور دین کے حامل شخص کو رشتہ دینے سے انکار کرنے کو نا پسند کیا گیا ہے۔ 
4۔قومی اور مادری زبان سے دوری: ان معاشروں میں بسنے والے پاکستانیوں کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنی قومی ‘مادری اور علاقائی زبان کو اپنی اولادوں میں منتقل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ مغرب میں پروان چڑھنے والے پاکستانی نوجوان انگریزی ‘ فرنچ یا یورپ میں بولی جانے والی دیگر زبانوں کو تو سمجھتے ہیں‘ لیکن اپنی قومی ‘علاقائی اور مادری زبان کی ادائیگی میں مہارت نہیں رکھتے۔ جس کی وجہ سے ان کا اپنے وطن کے ساتھ ذہنی اور جذباتی لگاؤ بتدریج کمزور ہوتا چلا جاتا ہے۔ والدین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کی معاشی کفالت کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو اپنی قومی اور مادری زبان سے صحیح طور پر آگاہ کریں‘ تاکہ وہ اپنی اصل حیثیت اور شناخت کو فراموش کرنے کی بجائے اپنے وطن اور قوم سے اپنی نسبت کو برقرار رکھ سکیں۔ 
5۔ حلال کھانے میں دشواریاں: اگرچہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ برطانیہ اور یورپ میں حلال کھانا بنانے اور ان کا تعین کرنے والی کمپنیوں کی تعداد بتدریج اضافہ ہو چکا ہے‘ لیکن ابھی بھی بہت سے مقامات پر حلال کھانے کی فراہمی میں دقت اور دشواری موجود ہے۔ کئی مقامات پر حلال طریقے سے ذبح کیے جانے والے جانور کی بجائے فقط جھٹکے والا گوشت ہی میسر ہے۔ اس دقت اور دشواری کے سبب بہت سے لوگ بتدریج حلال کھانے کی اہمیت کو فراموش کر بیٹھتے ہیں۔ اچھی ملازمت یا روز گار کے اچھے مواقع اور امکانات کے ساتھ ساتھ ایسے علاقوں کا چناؤ بھی انتہائی ضروری ہے ‘جہاں پر حلال کھانا باآسانی میسر ہو ‘تاکہ معاشی استحکام کے بعد انسان رزق حلال کی نعمت سے بھی بہرہ رو ہوتا رہے۔ 
6۔ اولاد کی بے ادبی: مغربی معاشروں میں اولاد کی بے ادبی کا مسئلہ بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اسلامی تعلیمات اور پاکستانی کلچر میں والدین کے احترام کو ترجیحی حیثیت حاصل ہے‘ جبکہ مغربی تمدن میں اس کی وہ حیثیت نہیں۔ مغربی معاشروں میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد 18 برس کے بعد اپنے والین سے لاتعلقی اختیار کر لیتی ہے۔ پاکستانی نوجوانوں پر بھی اس تمدن کے اثرات مرتب ہوئے ہیں اور بہت سے نوجوان والدین کی بے ادبی کے راستے پر چل پڑے ہیں۔ اس حوالے سے والدین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اولاد کی بچپن ہی سے تربیت کریں ‘تاکہ وہ بڑوں کا احترام اور چھوٹوں سے پیار کرنے والے بن سکیں۔ 
ان تمام چیلنجز کے ساتھ ساتھ مغربی معاشروں میں بہت سے مثبت امکانات بھی نظر آ رہے ہیں‘ جن میں بڑی تعداد میں مساجد کا بن جانا ‘دین کی معرفت حاصل کرنے کے لیے تگ ودو کرنا اور اسلامی لٹریچر کا بڑی تعداد میں انگلش اور دیگر یورپی زبانوں میں منتقل ہونا شامل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بہت سی مغربی سیاسی اور سماجی شخصیات کے قبول اسلام کے بھی مثبت نتائج مرتب ہو رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں برمنگھم میں ہونے والی کانفرنس کے موقع پر جہاں پر پاکستانی افراد کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی ‘وہیں پر مشہور انگریزی مبلغ جان فاؤنٹین بھی مجمع میں نمایاں نظر آئے۔ اس قسم کے افراد کی قبولیت اسلام کے معاشروں پر گہرے اثرات مرتب ہوئے اور لوگ دین حنیف کی طرف التفات کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اگر اسی انداز میں اسلام کی تعلیمات کا پھیلاؤ اور غیر مسلموں کے اسلام قبول کرنے کا عمل برقرار رہا تو وہ دن دور نہیں‘ جب یورپ میں موجود مسلمان بھی اپنی مذہبی ‘ سماجی اور سیاسی حیثیت کو منوانے میں کامیاب ہو جائیں گے!! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں