جب ہم عصری معاشروں کا جائزہ لیتے ہیں تو دنیا بھر کا انسان مختلف بیماریوں‘ پریشانیوں اور مسائل کا شکار نظر آتا ہے۔ کوئی شخص اپنے اقتصادی معاملات کی وجہ سے پریشان ہے تو کوئی شخص کسی موذی بیماری کی وجہ سے مضطرب ہے‘ کوئی بے گھر ہونے کی وجہ سے پریشان ہے‘ تو کوئی شخص اپنے قریبی عزیزوں کی ناراضی کی وجہ سے دکھی ہے۔کئی لوگ خوشحال ہونے کے باوجود نفسیاتی عارضوں کا شکارہیں اور کئی لوگ وسیع کاروبار ہونے کے باوجو د بے اولادی کی وجہ سے پریشان ہیں۔ اسی طرح بہت سے لوگ گھریلو ناچاقیوں کی وجہ سے افسردہ اور غمگین رہتے ہیں۔
انسانوں کی پریشانیوں اور مشکلات کا تجزیہ مختلف ماہرین اپنے اپنے علم کے مطابق ‘مختلف انداز میں کرتے ہیں۔ نفسیات دان ا ن پریشانیوں کا نفسیاتی تجزیہ کرتے‘ ماہرین اقتصادیات مشکلات کے بارے میں اقتصادی آراء کو پیش کرتے ‘ اسی طرح عمرانی علوم کے ماہرین زندگی اتار اور چڑھاؤ کا تجزیہ اپنے علم اور تحقیق کی روشنی میں کرتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں مصائب کی تین بنیادی وجوہ کو بیان کیا ہے۔ جو لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کے مقربین ہوتے ہیں‘ ان پر تکالیف اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے آزمائش کی وجہ سے ‘جبکہ گناہ گاروں پرتکالیف اُن کے گناہ کے سبب آتی ہے ۔ اسی طرح باغیوں اور مجرموں پر آفات اور مصائب عذاب کی صورت بن کر اُترتے ہیں۔
عصری معاشروں میں بسنے والے لوگوں کی اکثریت میں کوتاہیاں ‘ کمزوریاں اور گناہ پائے جاتے ہیں؛ چنانچہ انسانوں کی اکثریت کی مشکلات کا سبب درحقیقت اُن کے گناہ ہوتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ شوریٰ کی آیت نمبر 30میں ارشاد فرمایا ہے: ''اور جو (بھی) تمہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ اسی کی وجہ سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا اور وہ درگزر کر دیتا ہے بہت سی باتوں سے۔‘‘ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کے مجموعی گناہ اور اجتماعی نافرمانیوں کے حوالے سے سورہ روم کی آیت نمبر41 میں ارشاد فرمایا: ''فساد ظاہر ہوگیا خشکی اور سمندر میں اس وجہ سے جو کمایا لوگوں کے ہاتھوں نے تاکہ (اللہ) مزہ چکھائے انہیں بعض (اس کا ) جو انہوں نے عمل کیا‘ تاکہ وہ رجوع کریں (یعنی باز آجائیں)۔‘‘
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک ایسی بستی کا بھی ذکر کیا جس کو امن ‘ اطمینان اور رزق کی نعمتیں میسر تھیں ۔ اس بات کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ یہ نعمتیں جس بستی کو میسر ہوں اس کو کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہوتی‘ لیکن جب انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کا کفران کیا تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان پر بھوک اور خوف کے عذاب کو مسلط کر دیا۔ سورہ نحل کی آیت نمبر 112میں ہے: ''اور بیان کی اللہ نے مثال ایک بستی کی (جو) تھی امن والی‘ اطمینان والی ‘ آتا تھا اس کے پاس اس کا رزق کھلا ہر جگہ سے تو اس نے ناشکری کی اللہ کی نعمتوں‘ تو چکھایا (پہنایا) اس کو اللہ نے بھوک اور خوف کا لباس اس وجہ سے جو وہ کرتے تھے۔‘‘
مذکورہ بالا آیات سے اس بات کو جانچنا کچھ مشکل نہیں رہتا کہ انسانوں کی اکثریت کی پریشانیوں اور مشکلات کا سبب ان کے اپنے گناہ ہیں۔ جہاں پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے مصائب اور مشکلات کی وجوہات کو بیان کیا ‘وہیں پر کتاب حمید میں ان مصائب سے نکلنے کا راستہ بھی بتلا دیا۔ قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سے نجات حاصل کرنے کیلئے درج ذیل امور کو انجام دینا چاہیے:
1۔توبہ اور استغفار کرنا: توبہ اور استغفار کے نتیجے میں اللہ تبارک وتعالیٰ انسانوں کے گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں اور گناہوں کے معاف ہونے کے سبب اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی تنگیوں کو بھی دور فرمادیتے ہیں۔ سورہ زمر کی آیت نمبر 53میں ہے :''اے میرے بندو! جنہوں نے زیادتی کی اپنی جانوں پر نا اُمید نہ ہو جاؤ‘ اللہ کی رحمت سے بے شک اللہ بخشش دیتا ہے سب گناہوں کو بے شک وہی بہت بخشنے والا بڑا رحم کرنے والا ہے۔‘‘استغفار کے نتیجے میں اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کے لیے برکات کے دروازوں کو کھول دیتے ہیں اور اس پر روحانی نعمتوںکے ساتھ ساتھ مادی نعمتوں کا بھی نزول فرما دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نوح کی آیت نمبر 101میں حضرت نوح علیہ السلام کے قول کا ذکر کیا :''تو میں نے کہا بخشش مانگو اپنے رب سے بے شک وہ بہت بخشنے والا ہے۔ وہ بھیجے گا بارش تم پر موسلا دھار۔ اور وہ مدد کرے گا تمہاری مالوں اور بیٹوں کے ساتھ اور وہ (پیدا) کر دے گا تمہارے لیے باغات اور (جاری) کردے گا تمہارے لیے نہریں۔‘‘
2۔ دعا:اللہ تبارک وتعالیٰ دعا ؤں کے ذریعے بھی مصائب اور مشکلات کو دور فرمادیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر186میں اپنے قریب ہونے اور انسانوں کی دعاؤں کے قبول کرنے کا ذکر کچھ اس انداز میں فرمایا ہے۔ ''اور جب آپ سے پوچھیں میرے بندے میرے بارے میں تو (بتاد یں ) بے شک میں قریب ہوں میں قبول کر تا ہوں دعا کرنے والے کی پکار کو جب وہ مجھے پکارے ۔ ‘‘ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نمل کی آیت نمبر 62 میں بے قراروں کی دعاؤں کے قبول کرنے کا ذکر کچھ اس انداز میں کیا:''(کیا یہ بت بہتر ہیں ) یا جو (دعا) قبول کر تا ہے لاچار کی جب وہ پکارتا ہے اُسے اور وہ دور کرتا ہے تکلیف کو اور وہ بناتا ہے تمہیں جانشین زمین میں ‘ کیا کوئی (اور )معبود ہے اللہ کے ساتھ ؟ بہت کم تم نصیحت قبول کرتے ہو۔‘‘ کتاب وسنت میں انسانوں کی دعاؤں کی قبولیت کے بہت سے واقعات مذکور ہیں اُن میں سے غار کے پتھر سے نجات پانے والے تین مسافروں کا واقعہ بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ ٹنوں وزنی پتھر سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے بندوں کو فقط دعا کی برکت سے نجات دے دی۔ جہاں پر اللہ تبارک وتعالیٰ ہر طرح کی دعا کو سنتا ہے‘ وہیں پر حضرت یونس علیہ السلام کی دعا خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ سورہ انبیاء میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے غموں کی دوری کے حوالے سے اس دعا کا خصوصیت سے ذکر کیا ہے۔
3۔ تقویٰ : جب انسان اللہ تبارک وتعالیٰ سے ڈرتے ہوئے گناہوں سے باز آ جاتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی تنگیوں کو دور فرما دیتے ہیں۔سورہ طلاق کی آیت نمبر2 اور 3 میں ارشاد ہوا: ''اور جو اللہ سے ڈرتا ہے (تو)وہ بنا دیتا ہے اس کے لیے (مشکلات سے)نکلنے کا راستہ ۔ اور وہ رزق دیتا ہے اسے جہاں وہ گمان نہیں کرتا۔ ‘‘ سورہ طلاق ہی کی آیت نمبر 4میںاسی حقیقت کو یوں واضح فرما دیا : ''اور جو اللہ سے ڈرے گا (تو)وہ کر دے گا‘ اس کے لیے اس کے کام میں آسانی۔‘‘
4۔ توکل: جو شخص اللہ تبارک وتعالیٰ پر بھروسہ رکھتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے لیے کافی ہوجاتے ہیں اور جملہ اُمور میں اس کی مدد فرماتے ہیں۔ سورہ طلاق کی آیت نمبر3 میں ارشاد ہوا: ''اور جو اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ کافی ہے اسے بے شک اللہ پورا کرنے والا ہے اپنے کام کو۔ یقینا اللہ نے مقرر کر رکھا ہے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ۔‘‘
5۔ ذکر الٰہی: اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہل ایمان کو قرآن مجید میں بکثرت ذکر الٰہی کرنے کی تلقین کی ہے۔ جس کے نتیجے میں اہل ایمان کی زندگیوں کے اندھیرے اُجالوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ سورہ احزاب کی آیت نمبر41‘42‘43 میں فرما یا: ''اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو یاد کرو اللہ کو بہت زیادہ یاد کرنا۔ اور تسبیح (پاکیزگی) بیان کرو اس کی صبح وشام۔ وہی ہے جو رحمتیں بھیجتا ہے تم پر اور اس کے فرشتے (دعائے رحمت کرتے ہیں)‘تاکہ وہ نکالے تمہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف اور وہ ہے مومنوں پر بہت رحم کرنے والا۔‘‘
6۔ ایمان اور عملِ صالح : ایمان اور عمل صالح بالخصوص نماز اور زکوٰۃ میں مداومت اختیار کرنے والوں کے غم اور تکالیف بھی اللہ تبارک وتعالیٰ دور فرما دیتے ہیں؛ چنانچہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر277 میں ارشاد ہوا: ''بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے اور نماز قائم کی اور زکوٰۃ ادا کی ان کے لیے ان کا اجر ہے ان کے رب کے پاس اور نہ ان پر کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔‘‘اسی طرح سورہ نحل کی آیت نمبر 97 میں ارشاد ہوا: ''جس نے عمل کیا نیک کوئی مرد ہو یا کوئی عورت اس حال میں کہ وہ مومن ہو تو ضرور بالضرور ہم اسے پاکیزہ زندگی بخشیں گے اور یقینا ضرور ہم بدلے میں دیں گے ان کا اجروثواب اس سے زیادہ بہتر جو وہ عمل کرتے تھے۔‘‘
7۔ انفاق فی سبیل للہ: جو شخص اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں اپنے مال کو خفیہ اور اعلانیہ طور پر خرچ کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی تنگیوں اور پریشانیوں کو دور فرما دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 274میں ارشاد فرمایا:''وہ لوگ جو خرچ کرتے ہیں اپنے مال رات اور دن کو‘ چھپا کر اور علانیہ طور پر تو ان کے لیے ان کا اجر ہے ان کے رب کے پاس اور نہ ان پر کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔‘‘
مذکورہ بالا تجاویز پر عمل کرنے سے انسان مشکلات‘ دکھوں اور تکالیف پر قابو پانے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ تمام اہل ایمان کی پریشانیوں کو دور فرمائے۔( آمین)