چند دنوں سے مجھے 29 ستمبر کی شام6 بجے کا بڑی شدت سے انتظار تھا ۔ برطانیہ کے طول وعرض میں تواترسے ہونے والی کانفرنسوں سے خطاب کرنے ‘پاکستانی بالخصوص کشمیری دوست احباب سے ملنے ‘ ملانے ‘برطانیہ کے خوبصورت موسم اور دلکش قدرتی مناظر کی کشش کے باوجود میں پاکستان جانے کے لیے بے تاب تھا۔ تارکین ِوطن کی ایک بڑی تعداد اپنی معاشی اور سماجی مصروفیات کے سبب لمبے عرصے تک وطن واپس آنے سے قاصر رہتی ہے۔ کئی مرتبہ مجبوریاں یہاں تک پہنچ جاتی ہیں کہ بیرونِ ملک میں مقیم پاکستانی اعزاء واقارب کی وفات اور قریبی رشتہ داروں کی شادی بیاہ کی تقریبات میں بھی شرکت کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ میں نے یہ محسوس کیا کہ وطن سے دور رہنا کسی آزمائش سے کم نہیں۔ گو‘ میرا قیام یہاں پر فقط دو ہفتوں کے لیے تھا اور اس دوران پاکستان ‘بھارت ‘ سری لنکاسے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے گرمجوش رویوں اور باوقار اور پر ہجوم کانفرنسوں کے باوجود دل میں وطن واپس جانے کی خواہش زور پکڑتی جار ہی تھی۔ شاید اس خواہش کی ایک بڑی وجہ ملکی صورتحال بھی تھی۔ گزشتہ ہفتوں کے دوران بھارت نے جس انداز میں پاکستان کو ڈرانے اور دھمکانے کی کوشش کی اور بھارتی وزیراعظم مودی نے جس جارحانہ اور نا مناسب طرز عمل کو اختیار کیے رکھا‘ اس کی وجہ سے دنیا بھر میں موجود پاکستانی شدید تشویش کا شکار ہیں۔
برطانیہ میں مقیم پاکستانی مسلمان بھی اپنے وطن کے دفاع ‘تحفظ اور ترقی اور استحکام کے لیے نیک تمناؤں اور خوبصورت احساسات کو اپنے دل میں لیے ہوئے تھے۔ کشمیر میں ہونے والے مظالم پر برطانیہ کے طول و عرض میں رہنے والے مسلمان شدید بے چین تھے اور اس حوالے سے برطانیہ کے طول وعرض میں جلسے ‘ جلوسوں اور ریلیوں کے انعقاد کی کوششیں کی جا رہی تھیں۔ گلاسکو میں پاکستان سے وابستگی رکھنے والی برطانیہ کی مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی اپیل پر ایک بڑے مظاہرے کا انعقاد کیا گیا۔ مانچسٹر سے متصل قصبے اولڈھم میں ہونے والی کانفرنس کے موقع پر ایک دلچسپ منظر دیکھنے کو ملا ۔ کانفرنس کے اختتام پر برطانیہ اور اولڈھم کے مشہور مذہبی رہنما مولانا شفیق الرحمن شاہین نے عشاء کی نماز کے بعد کشمیری مسلمانوں کے حق میں ''قنوت نازلہ ‘‘ کا اہتمام کیا ۔ مولانا کی پر رقت دعا کے دوران مجمع میں بھی درد کی ایک لہر دوڑ گئی۔ پاکستان سے اداسی کی ایک وجہ پاکستان میں آنے والا ہولناک زلزلہ بھی تھا۔ اس زلزلے نے جہاں پر پاکستان میں موجود افراد کو بے چین اور بے قرار کیا ہوا تھا‘ وہیں پر تارکین وطن بھی افسردگی اور بے چینی کا شکار تھے۔
لندن سے لاہور فلائٹ سے ایک روز قبل مغربی لند ن میں ہونے والی کانفرنس میں پاکستانی دوست احباب کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ کانفرنس کے اہتمام پر یہ ساتھی کچھ اس انداز سے ملے کہ جیسے بچھڑے ہوئے بھائی مل رہے ہوں۔ برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کے جوش وجذبات نے جہاں طبیعت پر نہایت خوشگوار اثرات مرتب کیے ‘وہیں پر مادر وطن لوٹ جانے کی اُمنگ میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اب میرے دل میں ایک ہی تمنا تھی کہ جلد ازجلد پاکستان پہنچا جائے۔ پی آئی اے فلائٹ کی لندن روانگی سے ڈیڑھ گھنٹہ قبل جب میں ڈیپارچر لاؤنج میں داخل ہوا تو وہاں موجود پاکستانیوں کی بڑی تعداد کو دیکھ کر مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں پاکستان کے قریب ہوتا چلا جا رہا ہوں۔ میں وطن کی قربت کے ان احساسات کو محسوس ہی کر رہا تھا کہ مسافروں کو جہاز میں اپنی نشستوں پر بیٹھنے کی دعوت دی گئی۔ جہاز کی نشست پر بیٹھتے ہی میرے ذہن میں جہاں پر برطانیہ میں گزرے ہوئے واقعات گردش کر رہے تھے اور میں اس دوران ہونے والی کانفرنسوں اور ملاقاتوں کے حوالے سے غوروخوض کرنے میں مصروف تھا‘ وہیں پر میرے احساسات اور جذبات مجھے مادر وطن کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتے چلے جا رہے تھے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی وطن سے والہانہ محبت اور ملک کے مستقبل کے بارے میں پائی جانے والی تشویش اور اچھی امید یں میرے ذہن میں مختلف طرح کی کیفیات کو پیدا کر رہی تھیں۔
اس موقع پر میں سوچ رہا تھاکہ انسان کئی مرتبہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کی قدروقیمت کو پہنچانے سے قاصر رہتا ہے۔ ہمارے پاس موجودصحت‘ فراغت‘ جوانی‘ رزق ‘ محبت کرنے والے اہلخانہ اور پیار کرنے والے دوست احباب کی شکل میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی عنایات اور نعمتوں کا انمول خزانہ موجود ہے۔ یقینا ہم ان بے مثال نعمتوں کی قدروقیمت کو صحیح طور پر پہچاننے سے قاصر رہتے ہیں‘ لیکن جب ان میں سے کوئی نعمت چھن جاتی ہے یا اس میں کمی واقع ہو جاتی ہے‘ تو ہمیں اس نعمت کی قدروقیمت کا احساس ہونا شروع ہو جاتاہے ۔ بہت سے لوگ اپنے والدین کی زندگی میں ان کی ناقدری کرتے رہتے ہیں ‘لیکن دنیا سے ان کے چلے جانے کے بعد والدین کی اہمیت کا احساس دل میں جاگزیں ہوجاتا ہے‘ اسی طرح بہت سے لوگ جوانی اور صحت کی نعمت کا غلط استعمال کرتے رہتے ہیں‘ لیکن ان نعمتوں میں زوال کی وجہ سے انسان غیر معمولی بے چینی اور اضطراب کا شکار ہو جاتا ہے۔ کچھ یہی معاملہ وطن کا بھی ہے۔ وطن میں رہتے ہوئے کئی مرتبہ انسان کو آزادی کی قدروقیمت کا احساس نہیں ہوتا‘ لیکن جب انسان اپنے وطن سے دور چلا جاتا ہے اور تارکین ِوطن کی خوشحالی اور مالی استحکام کے باوجود ان میں وطن سے جدائی کے کرب کو دیکھتا ہے توا نسان کو احساس ہوتا ہے کہ یقینا اپنا وطن بہت بڑی نعمت ہے‘ اسی طرح دنیا کے بہت سے علاقوں میں پسے ہوئے مجبور اور محروم طبقات کی مشکلات اور پریشانیوں کو دیکھ کر بھی انسان کے ذہن میں وطن کی اہمیت بہت زیادہ اجاگر ہو جاتی ہے۔ وطن کی محبت ہر حساس شخص کے دل میں موجود ہوتی ہے اور کوئی ذی شعور آدمی جس طرح اپنے گھر کی محبت سے بے نیاز نہیں ہو سکتا‘ اسی طرح کوئی محب وطن شخص اپنے وطن کی محبت کو محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔
مجھے جہاں پر اپنے اہل خانہ سے ملاقات کی تمنا تھی‘ وہیں پر میں اپنے وطن کی مٹی کی خوشبو کو بھی محسوس کرنا چاہتا تھا۔ لندن کا خوبصورت موسم‘ سوشل سکیورٹی سسٹم ‘ بڑے بڑے کتب خانے‘ باغات‘ دریائے ڈیمز کا بہاؤ اور ایک لمبا تاریخی پس منظر اپنے اندر کشش کا بہت سا سامان سمیٹے ہوئے ہے ‘لیکن لاہور کی قربت نے میرے دل میں ایسے احساسات پیدا کیے کہ مجھے لاہور ہر اعتبارسے لندن سے زیادہ بیش قیمت محسوس ہو رہا تھا۔ میں لاہور ائیر پورٹ پر اترا تو میں نے اپنے دل میں خوشی کے غیر معمولی احساسات کو محسوس کیا۔ اپنائیت کا عجیب احساس میرے اندر کروٹیں لے رہا تھا۔ وطن کی محبت کے ساتھ ساتھ انسان کے ذہن میں وطن کی تعمیر وترقی کے لیے بھی بہت سی امنگیں پیدا ہوتی ہیں۔ میں جب بھی کبھی بیرون ملک سے وطن واپس آتا ہوں تو جہاں پر وطن آکر طمانیت اور سکون کا احساس پیدا ہوتا ہے‘ وہیں پر دل میں یہ امنگ بھی پیدا ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے وطن کو معاشی اور سیاسی استحکام عطا فرمائے۔
برطانیہ اور سعودی عرب میں قانون کی عملداری کو دیکھ کر ہمیشہ میرے ذہن میں پاکستان میں بھی قانون کی عملداری کی خواہش انگڑائیاں لینے لگتی ہے۔ چند روز قبل چونیاں میں ہونے والے دل دوز سانحے کے دوران بھی میرے ذہن میں یہی خیال آ رہا تھا کہ اللہ ہمارے ملک کو امن وسکون کا گہوارہ بنا دے۔ مادر وطن کو اس وقت جہاں پر معاشی اور سیاسی استحکام کی ضرورت ہے‘ وہیں پر قانون کی عملداری کی بھی غیر معمولی اہمیت ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ نے اس بات کا وعدہ کیا تھا کہ وہ برسراقتدار آنے کے بعد انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائیں گے ‘لیکن تاحال ملک میں جرائم کا خاتمہ اور مثالی انصاف کا قیام نہیں ہو سکا۔ اگر ہمارے ملک میں قانون کا بول بالا ہو جائے‘ انصاف کی فراہمی کو یقینی بنا دیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ سماجی انصاف کے اس نظام کو متعارف کروانے کی تگ ودو کی جائے‘ جس کا آغاز خلافت راشدہ کے دوسرے عظیم ستون سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوا تھا تو وہ دن دور نہیں کہ جب پاکستان کا شمار بھی دنیا کی عظیم مملکتوں میں ہوگا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ پاکستان کو امن وسکون ‘خوشحالی اور ترقی کا گہوارہ بنا دے۔( آمین)