"AIZ" (space) message & send to 7575

ہدایت سے محرومی

ہر ذی شعور شخص ہدایت کا طلب گار ہے اور اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ ہدایت کے راستے پر چلنے میں ہی کامیابی ہے‘ لیکن اس کے باوجود اس بات کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد صراط مستقیم کی اہمیت کو پہنچاننے کے باوجو د راہِ دہدایت سے دُور رہتی ہے ۔ جب گمراہی کے اسباب پر غور کیا جاتا ہے ‘تو درج ذیل وجوہات سامنے آتی ہیں:۔
1 ۔ تکبرو تعصب: جس انسان میں تکبر پیدا ہو جائے ‘وہ ہدایت کی نعمت سے محروم ہو جاتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ابلیس کی رسوائی کا ذکر کیا کہ اُس نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم کو تسلیم کرنے کی بجائے تکبر کے راستے کو اختیار کیا‘ جس کی وجہ سے اس کو راندۂ درگاہ بنا دیا گیا۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں فرعون کا بھی ذکر کیا ہے۔ فرعون کے پاس حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے بہت سی نشانیوں کو لے کر آئے۔ آپ نے اس کے سامنے یدبیضا اور معجزاتی عصاء کو رکھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وقفے وقفے سے اللہ تبارک وتعالیٰ اس کو متنبہ کرنے کے لیے مختلف نشانیوں کو دکھاتے رہے‘ لیکن وہ کسی بھی نشانی کو دیکھ اسلام قبول کرنے پر آمادہ و تیار نہ ہوا۔ اس تکبر کی وجہ سے وہ تباہی کے گڑھے میں گر گیا۔ گو آخری وقت اس نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے عذاب کو دیکھتے ہوئے وقتی طور پر ایمان لانے کی کوشش کی ‘لیکن نزع کی گھڑیوں کے دوران اس متکبر کی بات کو مسترد کر دیا گیا۔ نمرود ‘ ہامان ‘ قارون‘ ابولہب جیسے تمام لوگ اپنے غرور وتکبر کی وجہ سے راندۂ درگاہ بنا دئیے گئے۔
تکبر ہی کی طرح تعصب بھی انسان کو راہِ ہدایت سے دُور کر دیتا ہے۔ ابو جہل اسلام کی دشمنی اور تعصب میں اس حد تک آگے بڑھ چکا تھا کہ اس نے اللہ سے دعا مانگی کہ اگر اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف نبی کریمﷺ پر جو نازل کیا گیا ہے‘ وہ حق ہے تو ہمارے اوپر آسمان سے پتھروں کی بارش برسا یا اور ہمیں عذاب الیم میں مبتلا کر دے۔ 
2۔حسد: جب انسان کسی شخص ‘ علاقے ‘ قبیلے یا قوم سے حسد کرنا شروع کر دیتا ہے تو وہ ان کی کسی درست اور جائز بات کو بھی تسلیم نہیں کرتا۔اس کے نتیجے میں انسان نعمت ہدایت سے محروم ہو کر گمراہی کی دلدل میں اترتا چلا جاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کا ذکر کیا‘ جنہوں نے قربانی کی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک کی قربانی کو قبول فرما لیا اور دوسرے کی قربانی قبول نہ ہو سکی‘ جس کی قربانی قبول ہوئی‘ وہ دوسرے بھائی سے حسد کے اوپر آمادہ ہو گیا اور کہنے لگا: میں تجھے قتل کروں گا‘ تو نیک اور متقی بھائی نے حاسد بھائی کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اہل تقویٰ کی قربانی کو قبول کرتا ہے‘ لیکن قابیل اس حوالے سے کسی نصیحت کو قبول کرنے پر آمادہ وتیار نہ تھا اور اس نے حسد سے مغلوب ہو کر ہابیل کو شہید کر دیا۔
3۔ جہالت: بہت سے لوگ جہالت اور کم علمی کی وجہ سے بھی ہدایت سے محروم رہتے ہیں ۔ ان لوگوں کے سامنے جب علم ‘ بصیرت اور آگہی کے روشنی آجاتی ہے تو یہ گمراہی کے راستے کو چھوڑ کر ہدایت کی شاہراہ پر چلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ بعض لوگ دنیا داری کے معاملات کو تو خوب سمجھتے ہیں‘ لیکن دینی امور میں ان کی معلومات انتہائی کمزور ہوتی ہے۔ ایسے لوگ فقط اپنی دنیاوی معلومات پر فخر کرنے کی وجہ سے دین اور ایمان کے معاملات میں بھی اپنے آپ کو حرف آخر سمجھنا شروع ہو جاتے ہیں ۔ایسے لوگوں کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ روم کی آیت نمبر7 میں ارشاد فرمایا ہے: ''وہ جانتے ہیں‘ ظاہر کو دنیوی زندگی سے اور وہ آخرت سے (بالکل) وہ غافل ہیں۔‘‘انسانوں کو فائدہ مند اور مفید علم حاصل کرتے رہنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ زمر کی آیت 9میں اس حقیقت کو بیان فرمایا: ''اور وہ (لوگ) جو علم نہیں رکھتے‘ بے شک صرف عقل والے ہی نصیحت قبول کرتے ہیں۔‘‘ 
4۔آباؤ اجداد کی اندھی تقلید: قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ بہت سے لوگ آباؤ اجداد کی اندھی تقلید کی وجہ سے ہدایت سے دور جاتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سابقہ امتوں کے خوشحال لوگوں کے طرز عمل کا ذکر کرتے ہوئے سورہ زخرف کی آیت نمبر 23‘24میں ارشاد ہیں ''اور اسی طرح ہم نے نہیں بھیجا‘ آپ سے پہلے کسی بستی میں کوئی ڈرانے والا‘ مگر اس (بستی) کے خوشحال لوگوں نے کہا بے شک ہم نے پایا اپنے آباؤ اجداد کو ایک طریقے پر اور بے شک ہم ان کے قدموں کے نشانات کے پیچھے چلنے والے ہیں۔ اس (ڈرانے والے)نے کہا اور کیا (بھلا) اگر میں لے آؤں تمہارے پاس زیادہ ہدایت والے طریقے کو (اس) سے جس پر تم نے پایا اپنے آباؤ اجداد کو انہوں نے کہا: بے شک ہم جس کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو انکار کرنے والے ہیں۔‘‘اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 170میں ارشاد فرماتے ہیں : '' اور جب کہا جائے ان سے پیروی کرو (اس چیز کی) جو نازل کی ہے اللہ نے (تو) کہتے ہیں ‘بلکہ ہم پیروی کریں گے (اس کی) جو ہم نے پایا ہے‘ اس پر اپنے آباء واجداد کو حالانکہ کیا‘ اگرچہ ہوں ان کے آباء واجداد نہ سمجھتے کچھ (بھی) اور نہ ہی وہ سیدھے راستے پر ہوں۔‘‘ 
5۔مقدس ہستیوں اور علماء کی شان میں غلو: اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں یہود ونصاری کی گمراہی کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب یہ بھی بیان کیا کہ انہوںنے اپنے مذہبی رہنماؤں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو رب بنا لیا تھا‘ جب کہ ان کو اس بات کا حکم دیا گیا تھا کہ وہ تنہا اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت کریں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس حقیقت کا بیان سورہ توبہ کی آیت نمبر 31میں یوں فرماتے ہیں: ''انہوں نے بیان لیا ہے اپنے علماء کو اور اپنے درویشوں کو (اپنا) رب‘ اللہ کے سوا اور مسیح بن مریم کو (بھی)حالانکہ نہیں وہ حکم دیے گئے‘ مگر یہ کہ وہ عبادت کریں ایک معبود کی‘ نہیں ہے ‘کوئی معبود ‘مگر وہی پاک ہے‘ وہ اس سے جو وہ شریک بناتے ہیں۔‘‘ 
6۔سرکردہ افراد کی اندھی تقلید: بہت سے لوگ اپنے معاشرے کے سرکردہ افراد ‘ اپنے سیاسی رہنماؤں یا اپنے علاقے کے بڑوں کی ہر بات بلا چوں چراں ماننے پر آمادہ وتیار ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی باتوں پر توجہ دینے کی بجائے ہمہ وقت اپنے من پسندوں رہنماؤں اور ممدوحین کی باتوں کے پیچھے ہی چلتے رہتے ہیں ‘جس کے نتیجے میں گمراہی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کیفیت کا ذکر سورہ احزاب کی آیت نمبر 66‘67میں یوں فرمایا:''جس دن اُلٹ پلٹ کیے جائیں گے ان کے چہرے آگ میں وہ کہیںگے اے کاش ہم نے اطاعت کی ہوتی اللہ کی اور ہم نے اطاعت کی ہوتی رسول کی۔ اور وہ کہیں گے اے ہمارے رب! بے شک ہم نے اطاعت کی اپنے سرداروں کی اور اپنے بڑوں کی تو انہوں نے گمراہ کر دیا ہمیں (سیدھے) راستے سے۔‘‘ 
7۔غلط صحبت: بعض لوگ غلط صحبت کی وجہ سے راہ ِ ہدایت سے بھٹک جاتے ہیں۔ اس بات کا مشاہدہ با آسانی کیا جا سکتا ہے کہ بہت سے اچھے افکار اور اعمال والے لوگوں کی جب صحبت بگڑ جاتی ہے تو وہ بھی راہ ِ ہدایت سے بھٹک جاتے ہیں۔ بری صحبت کے اثرات بد کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ فرقان کی آیت نمبر 27‘28 اور 29میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جس دن دانتوں سے کاٹے کا ظالم اپنے ہاتھوں کو کہے گا: اے کاش! میں اختیار کرتا رسول کے ساتھ راستہ۔ ہائے بربادی کاش میں نہ بناتا فلاں کو دلی دوست۔ بلاشبہ اس نے مجھے گمراہ کر دیا (اس ) ذکر (یعنی‘ قرآن) سے اس کے بعد کہ جب وہ آیا میرے پاس ۔‘‘
8۔خواہشات کی پیروی: اللہ تبارک وتعالیٰ نے خواہشات سے اجتناب کا حکم دیا ہے اور جو شخص اللہ تبارک کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈر کر اپنی خواہش کو دبا لیتا ہے ایسا شخص جنتی ہے اور اس کے بالمقابل جو شخص طغیانی کا راستہ اختیار کرتا ہے تو ایسے شخص کو جہنمی قرار دیا گیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ان دونوں حقائق کو سورہ نازعات کی آیت نمبر 37 سے 41میں یوں بیان فرماتے ہیں: ''پس رہا وہ جس نے سرکشی کی اور اس نے ترجیح دی دنیوی زندگی کو۔ تو بے شک جہنم ہی (اس کا) ٹھکانا ہے۔ اور رہا وہ جو ڈر گیا اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے اور اس نے روکا (اپنے ) نفس کو (بری) خواہش کو تو بے شک جنت ہی (اسکا ) ٹھکانا ہے۔‘‘
اسی طرح خواہش نفس کے اثرات بد کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ فرقان کی آیت نمبر 43میں یوں ارشاد فرمایا: ''کیا تو نے دیکھا (اس شخص کو) جس نے بنا لیا اپنا معبود اپنی خواہش کو۔‘‘ اس آیت مبارکہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے نفسانی خواہشات کے اسیر لوگوں کو اپنی خواہشات کا پجاری قرار دے کر اس عمل کی بھرپور مذمت کی ہے۔ اسی طرح قرآن وسنت کے مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو خوف ‘ لالچ اور دباؤ بھی راہِ ہدایت سے دور لے جاتے ہیں۔ 
ہم سب کو گمراہی کے اسباب کو پہچاننے کی کوشش کرنی چاہیے اور ہمہ وقت اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا مانگنی چاہیے کہ وہ ہم سب کو گمراہی کے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں